ڈاکٹر جزبیہ شیریں
بلوچستان کے ایک ویران چٹیل میدان میں دو لاشوں کے ساتھ ایک سوال بھی پڑا ہے: کیا یہی ہماری روایات ہیں؟ کیا یہی ہماری غیرت ہے؟ ڈیڑھ سال قبل شیتل اور زرک نے اپنی پسند کی شادی کی تھی۔ آج وہ ایک چٹیل میدان میں انیس غیرت مند مردوں کے سامنے کھڑے تھے۔ شیتل کے ہاتھ میں قرآن تھا، لیکن اس کے قاتلوں کے ہاتھوں میں گن تھیں۔ نہ اس نے التجا کی، نہ روتے ہوئے معافی مانگی۔ صرف خاموشی سے اپنی موت کو گلے لگا لیا۔ پھر نو گولیاں۔ زرک کو اٹھارہ۔ یہ کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں۔ یہ تو صرف ایک اور کڑوا باب ہے ہمارے معاشرے کے اس خون آشام روایت کا جہاں عورت کی آزادی کو موت سے خریدا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پر خونریزی کا یہ واقعہ نیا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جو وقتاً فوقتاً بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سامنے آتا رہتا ہے۔ زرک اور شیتل جیسے معصوم افراد کے قتل کی حقیقت نہ صرف انفرادی زندگیوں کے خاتمے کو ظاہر کرتی ہے بلکہ ہماری اجتماعی سوچ کی زہر آلود عکاسی بھی کرتی ہے۔
جب کوئی غیر ملکی لڑکی پاکستانی مرد سے شادی کر لیتی ہے تو اس کو بین الثقافتی ہم آہنگی کا نشان بنا دیا جاتا ہے اور ہم فخر سے کہتے ہیں کہ ہم کتنے لبرل ہیں۔ لیکن جب ہماری اپنی بہن، بیٹی اپنی مرضی سے شادی کر لیتی ہے تو اسے قبیلے کی بے غیرتی قرار دے کر اس کے جسم کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ کیا یہ غیرت ہے؟ یا صرف عورت کے وجود کو کچلنے کی ایک وحشیانہ رسم؟ غیرت کا مفہوم صرف لڑکیوں تک کیوں محدود ہو گیا ہے؟ جب بات آتی ہے بیٹیوں کے حق ملکیت کی اور وراثت میں حصہ دینے کی، تو کہاں ہوتی ہے وہ غیرت؟ جب لڑکیاں اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں تو وہ بدچلن کہلاتی ہیں. لڑکیوں کا وراثت میں حصہ، اُن کی کمائی کھاتے ہوئے کہاں چلی جاتی ہے یہ غیرت؟ جب لڑکیاں اپنی مرضی سے شادی کر لیتی ہیں تو غیرت کے نام پر ان کا خون کر دیا جاتا ہے،غیرت جاگ اٹھتی ہے، لیکن جب لڑکے اپنی پسند کی شادی کرتے ہیں یا غیر ذاتوں مختلف رنگوں اور غیر مذاہب سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں سے تعلق رکھتے ہیں، تو یہ لبرل اور آزاد خیالی کے دائرے میں آ جاتا ہے، اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا معاشرہ چپ رہتا ہے۔ اس دوہرے معیار کا کیا جواز ہے؟ جب لڑکیوں کی شادی ان کی مرضی سے ہو، تو عورتوں کی زندگی پر قبضہ جمانا، ان کی مرضی کو پس پشت ڈالنا، اور ان کے لیے فیصلے کرنا غیرت کے نام پر، یہ سب ایک بدترین جاہلیت کی علامت ہے۔ کیا کبھی اس غیرت کو لڑکوں کی کی شادیوں اور ان کے فیصلوں میں بھی لاگو کیا جاتا ہے؟ کیوں ان کے حق میں غیرت نہیں آتی؟ یہ بات ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آیا ہمارے معاشرتی نظام میں واقعی کوئی تبدیلی آ سکے گی یا پھر یہ غیرت کا جھوٹا بہانہ ہمیشہ ان معصوم لڑکیوں کی قربانیوں کا سبب بنتا رہے گا؟
کوئی تو روکے اس ظلم کو
کوئی تو پوچھے ان انیس بندوق برداروں سے
کیا واقعی غیرت کا تقاضا تھا کہ ایک بے بس لڑکی کو نو گولیوں سے بھون دیا جاتا؟
کیا قرآن اٹھانے والے ہاتھوں کو گولی مارنا ہی انصاف ہے؟
کوئی تو سمجھائے
کیا یہی ہماری ثقافت ہے؟
کیا یہی ہماری روایات ہیں؟
کوئی تو آواز اٹھائے
ورنہ کل ہماری بہنیں، بیٹیاں، مائیں
سب کی گردنیں اسی غیرت کی چھری تلے ہوں گی۔
اسلام نے عورت کو حقوق دیے، وراثت دی، شادی میں رضامندی کو لازمی قرار دیا۔ لیکن ہم نے اپنی رسومات کو مذہب سے اوپر رکھ لیا۔ زرک اور شیتل جیسے معصوموں کا قتل کسی مذہب کا حصہ نہیں، بلکہ جاہلیت کی وہی پرانی روایت ہے جسے اسلام نے مٹا دیا تھا۔ بلوچستان میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ دو ہزار انیس میں، عطیہ اور سبین نامی دو لڑکیوں کو ان کے اپنے خاندان والوں نے قتل کر دیا تھا کیونکہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی تھیں۔ دو ہزار اکیس میں، قلات میں ایک لڑکی کو اس کے بھائی نے گولی مار دی کیونکہ وہ کسی دوسرے قبیلے کے لڑکے سے محبت کرتی تھی۔ دو ہزار تیئیس میں، شہناز نامی ایک لڑکی کو اس کے چچا نے زندہ جلا دیا کیونکہ اس نے اپنی پسند کا رشتہ کر لیا تھا۔ یہ کوئی الگ تھلگ واقعات نہیں ہیں، بلکہ ایک نظام کا حصہ ہیں جہاں عورت کی آزادی کو موت کے بدلے خریدا جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک ہزار سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ یہ تعداد صرف رپورٹ شدہ کیسز پر مشتمل ہے، اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ بلوچستان میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے، جہاں قبائلی نظام عورت کے حقوق کو دبانے کا ایک ہتھیار بنا ہوا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر مقدمات کبھی عدالت تک نہیں پہنچتے، کیونکہ خاندان کی عزت کا بہانہ بنا کر قاتلوں کو معاف کر دیا جاتا ہے۔ اسلام نے عورت کو حقوق دیے، وراثت میں حصہ دیا ، شادی میں رضامندی کو لازمی قرار دیا۔ لیکن ہم نے اپنی رسومات کو مذہب سے اوپر رکھ لیا ہے۔ ہم نے تو عورت کے لیے صرف ایک راستہ چھوڑا ہے وہ ہے موت۔ سچ تو یہ ہے کہ غیرت کبھی کسی کی جان لینے کا نام نہیں ہوتی۔ غیرت تو یہ ہے کہ آپ اپنی بہن کی آزادی کا احترام کریں۔ غیرت یہ ہے کہ آپ اپنی بیٹی کو اس کا حق دیں۔ جب تک ہم اپنے معاشرتی رویوں کو نہ بدلنے اور اس نوعیت کے قتل کو جواز دینے والے جرگوں کو سزا نہ دیں، یہ قتل کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔
ایک اور پہلو جو اس ظلم کو بڑھاوا دیتا ہے وہ ہمارے معاشرتی اصول اور رسم و رواج ہیں۔ قبیلے کی عزت اور غیرت کا مسئلہ ہر وقت عورت کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ ایک طرف غیرت کے نام پر بیٹیوں کو قتل کیا جاتا ہے، دوسری طرف وہی افراد غیر ملکی لڑکیوں کی شادیوں کو خوشی کا موقع سمجھ کر جشن مناتے ہیں۔ یہ دوہرے معیار اس بات کا غماز ہیں کہ ہماری غیرت محض ایک بے بنیاد عذر ہے جو دراصل عورت کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال صرف بلوچستان تک محدود نہیں ہے، بلکہ پورے پاکستان میں موجود ہے، خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں جہاں قبائلی نظام کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ وہاں ہر مسئلہ عزت یا غیرت کے نام پر حل کیا جاتا ہے، اور اس حل کا سب سے بڑا شکار عورت بنتی ہے۔ کسی بھی لڑکی کا اپنی مرضی سے شادی کرنا، اور زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنا، ان علاقوں میں ایک ایسا جرم سمجھا جاتا ہے جس کی سزا موت ہے۔
فیض احمد فیض نے کہا تھا:
ظلمت کو ضیا، صبح کو شب سے جدائی دے
دے کے گلہ تو بہاروں کو بلا لے
لیکن ہماری بہاریں تو خون میں نہا گئی ہیں۔ ہمارے معاشرتی نظام میں اس خون آلود حقیقت کا اثر اتنا گہرا ہے کہ ہم اس ظلم کو غیرت کے طور پر تسلیم کر لیتے ہیں۔ جب تک ہم اس ظلم کی جڑ تک نہیں پہنچیں گے، یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔ ایک اہم قدم جو اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے اٹھایا جا سکتا ہے وہ ہے قانون کی سختی سے عمل درآمد۔ غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے تاکہ اس جرم کے ارتکاب کی ہمت کسی میں نہ ہو۔ اس کے علاوہ، تعلیم کا فروغ اور عورتوں کے حقوق کی آگاہی بھی بہت ضروری ہے۔ ہمیں عورتوں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ کسی کی ملکیت نہیں ہیں، اور ان کی آزادی کو تسلیم کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ غیرت کا مطلب نہیں کہ ہم اپنی عورتوں کو قتل کر دیں یا ان کی آزادی چھین لیں۔ غیرت کا مطلب ہے کہ ہم انہیں ان کے حقوق دیں اور ان کا ساتھ دیں