اشراق سید
ہمارے گھروں میں، گلیوں میں، اسکولوں میں، اور حتیٰ کہ مساجد میں بھی، ایک خاموش جنگ چل رہی ہے اسلام اور کلچر کے بیچ۔ یہ جنگ آوازوں سے نہیں، نظریات سے لڑی جا رہی ہے۔ جب کسی لڑکی کا دوپٹہ ذرا سا سرک جائے، تو پورا محلہ متحرک ہو جاتا ہے، لیکن جب وہی لڑکی قرآن کو دل سے سمجھنا چاہے، سوال کرے، سیکھنا چاہے، تو اسے گستاخ کہا جاتا ہے، نافرمان کہا جاتا ہے۔ ہم نے دین کو رسموں میں دفن کر دیا ہے، اور کلچر کو قرآن کے لباس میں لپیٹ کر نسلوں پر تھوپ دیا ہے۔
پردے کو ہی لے لیں۔ اسلام کا پردہ شرم، حیا، پاکیزگی اور نیت پر مبنی ہے۔ مگر معاشرہ اسے صرف ظاہری چادر تک محدود کر دیتا ہے۔ وہ چادر جو دل سے نہ ہو، وہ عبادت نہیں، دکھاوا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے لڑکی کے کردار کو اس کی چادر کی سائز سے تولنا سیکھ لیا ہے، اس کے الفاظ، نیت، اور اللہ سے تعلق کو کبھی نہ جانچا۔ ہمیں یہ تو یاد رہا کہ "پردہ فرض ہے”، مگر یہ بھول گئے کہ اللہ نے نیت کا اجر بھی رکھا ہے، اور دلوں کے حال صرف وہی جانتا ہے۔
ہمارے علماء، ہمارے خطیب، جن پر امت کی رہنمائی کی ذمے داری تھی، وہ بھی اکثر اس معاشرتی شور میں بہہ گئے۔ ان کے خطبات میں وہی پرانی باتیں، وہی سخت لہجے، وہی "تم سب گناہ گار ہو” والے انداز۔ کسی نے یہ نہ سوچا کہ شاید سامنے بیٹھا نوجوان خود ٹوٹا ہوا ہو، شاید وہ ہار مان چکا ہو، اور مسجد میں آیا ہو تو صرف امید لینے، ایک نرم لفظ، ایک دعا، ایک مسکراہٹ کی تلاش میں۔ لیکن اسے ملا کیا؟ "تم جہنم کے راستے پر ہو۔” یہ کیسا پیغامِ رسول ہے؟ وہ رسول ﷺ جو طائف میں پتھروں سے لہو لہان ہوئے مگر بددعا نہ دی، جو راتوں کو اپنی امت کے لیے روتے رہے، کیا ہم نے ان کا پیغام یہی سمجھا؟
زندگی کا سب سے سچا لمحہ وہ ہوتا ہے جب انسان ٹوٹتا ہے۔ جب کوئی انسان سب کچھ کھو بیٹھتا ہے اعتماد، رشتے، خواب، سکون تو وہ کسی در نہیں جاتا، کسی مولوی کو نہیں پکارتا، کسی ثقافت کی رسم کو نہیں دہراتا، بلکہ دل سے پکار اٹھتا ہے: "یا اللہ، بس تُو ہی ہے۔”
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب دل کے پردے خود بخود ہٹ جاتے ہیں، اور بندہ اپنے رب کے قریب آ جاتا ہے۔
کاش ہمارے واعظین ان لمحوں کو سمجھیں۔
کاش وہ بتائیں کہ دل ٹوٹنا اللہ سے ملاقات کی پہلی سیڑھی بھی بن سکتا ہے۔
وہ لمحہ جب آپ روتے ہیں، سجدے میں سر رکھ کر کچھ کہے بغیر، صرف آنکھوں سے دعا مانگتے ہیں وہی لمحہ اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہوتا ہے۔
نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی نہیں جانتی کہ نماز کا اصل مطلب کیا ہے۔ قرآن کو حفظ تو کیا، مگر کبھی دل سے پڑھا نہیں۔ مسجد میں جانا صرف رمضان یا جنازے تک محدود رہ گیا، اور دلوں میں دین کا نور بجھتا چلا گیا۔ کیونکہ ہم نے دین کو محبت سے نہیں، جبر سے سکھایا۔ ہم نے کہا، "یہ کرو، ورنہ جہنم!” مگر کبھی یہ نہ کہا، "یہ کرو، کیونکہ اللہ تم سے محبت کرتا ہے۔”
اسلام کو اپنی اصل صورت میں سمجھنا ہوگا۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ دین صرف داڑھی، دوپٹہ، یا ہاتھ باندھنے کا نام نہیں۔ دین ہے دلوں کی صفائی، حقوق العباد، نرمی، اور وہ رشتہ جو بندے اور رب کے بیچ خاموشی سے پروان چڑھتا ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم اسلام چاہتے ہیں یا صرف وہ کلچر جس میں رسمیں ہوں، مگر روح نہ ہو؟
ورنہ ہم سب کسی دن یہ دیکھیں گے کہ ہمارے گھروں میں قرآن ہوگا، مگر کوئی اسے کھولے گا نہیں۔ ہماری بچیاں چادریں اوڑھیں گی، مگر دلوں میں سوال ہوں گے جن کے جواب کبھی نہ ملیں گے۔ نوجوان مسجدوں سے دور بھاگیں گے، اور دین صرف مولویوں کی زبانوں میں قید رہ جائے گا، دلوں میں نہیں۔
ہمیں اپنے بچوں کو، اپنے بہن بھائیوں کو، صرف "یہ مت کرو” نہیں، بلکہ "اللہ سے کیسے محبت کرو” سکھانا ہے۔ کیونکہ جس دن وہ اللہ سے محبت کرنے لگے، اس دن نہ دوپٹہ یاد دلانے کی ضرورت پڑے گی، نہ نماز کا۔