Skip to content

مصنوعی ذہانت اور پاکستانی ڈیجیٹل صحافت: امکانات، رکاوٹیں اور مستقبل

شیئر

شیئر

شیرافضل گوجر


ٹیکنالوجی کے بغیر اکیسویں صدی کی صحافت کا تصور ممکن نہیں ۔ اس ضمن میں، مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence – AI) ایک ایسی انقلابی قوت کے طور پر ابھری ہے جو خبروں کی تخلیق، تقسیم اور استعمال کے انداز کو یکسر تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عالمی سطح پر نیوز میڈیا سے منسلک ادارے مصنوعی ذہانت کے ذریعے اپنے کام کو بہتر بنانے، قارئین تک رسائی بڑھانے اور نئے کاروباری ماڈلز تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس عالمی تناظر میں، پاکستان کی صحافتی صنعت، بالخصوص آزاد ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارمز، ایک اہم موڑ پر کھڑی ہے۔

"انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈوکیسی اینڈ ڈیولپمنٹ”(IRADA) کی جانب سے شائع کردہ جامع رپورٹ،

"AI & Public Interest Journalism: Mapping Readiness of Pakistani Independent Digital Newsrooms” ، اس موضوع کا گہرائی سے تجزیہ کرتی ہے۔ یہ رپورٹ اس بات کا جائزہ لیتی ہے کہ پاکستان کے آزاد ڈیجیٹل نیوز رومز مصنوعی ذہانت کو اپنانے کے لیے کس حد تک تیار ہیں، انہیں کن چیلنجز کا سامنا ہے اور اس ٹیکنالوجی کو عوامی دلچسپی کی صحافت کے فروغ کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یہ تحریر اس رپورٹ کے کلیدی نتائج، تجزیے اور سفارشات کی روشنی میں پاکستانی صحافت پر مصنوعی ذہانت کے اثرات کا ایک تفصیلی جائزہ پیش کرتی ہے۔

پاکستان میں آزاد ڈیجیٹل صحافت ایک اہم تبدیلی کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف جہاں سیاسی دباؤ، مالیاتی عدم استحکام اور تکنیکی رکاوٹیں موجود ہیں، وہیں دوسری طرف مصنوعی ذہانت (AI) نئی امیدیں اور چیلنجز لے کر آ رہی ہے۔ میڈیا ڈویلپمنٹ پر کام کرنے والے معروف ادارے "IRADA” نے حالیہ تحقیقاتی رپورٹ میں اس تعلق کو مفصل انداز میں پرکھا گیا ہے۔ رپورٹ کا مقصد پاکستانی آزاد نیوز رومز کی AI کے حوالے سے تیاری، استعمال، صلاحیتوں اور ضرورتوں کا تجزیہ ہے تاکہ ابھرتی ہوئی اس ٹیکنالوجی کو با معنی، ذمہ دارانہ اور عوامی مفاد میں استعمال کیا جا سکے۔

ابھرتی ہوئی حقیقت یا صرف رجحان؟

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 39 آزاد ڈیجیٹل نیوز اداروں میں سے 84 فیصد پہلے ہی کسی نہ کسی صورت میں AI استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم یہ استعمال زیادہ تر سطحی نوعیت کا ہے جیسے کہ ٹرانسلیشن، ہیڈ لائن جنریشن، سوشل میڈیا کیپشننگ اور آسان مواد سازی۔

صرف چند ادارے جیسے "نقطہ” یا "انڈیپنڈنٹ اردو” ہی AI کو ادارتی حکمت عملی یا نیوز روم ورک فلو میں مربوط طور پر شامل کر رہے ہیں۔ البتہ، اکثریت ابھی تک بنیادی سطح پر ہی ہے اور AI کو صرف سہولت کے طور پر استعمال کرتی ہے، نہ کہ پالیسی یا وژن کے تحت۔

زبان، وسائل اور قیادت

رپورٹ اس امر پر زور دیتی ہے کہ سب سے بڑی رکاوٹیں زبان کی حدود، تکنیکی انفراسٹرکچر کی کمی اور قیادت کی عدم دلچسپی ہیں۔ زیادہ تر AI ٹولز انگریزی یا اردو کے لیے موزوں ہیں، جبکہ سندھی، پشتو، بلوچی یا سرائیکی گوجری،ہندکو یا دیگر مادری زبانوں میں کام کرنے والے نیوز رومز الگ تھلگ رہ جاتے ہیں۔ اس سے پاکستان میں "دو درجہ” صحافت جنم لیتی ہے: ایک وہ جو AI کے دائرے میں داخل ہو چکی ہے اور دوسری جو اس تک رسائی ہی نہیں رکھتی۔

صحافتی اقدار بمقابلہ مصنوعی ذہانت

مصنوعی ذہانت کی تیز رفتاری اور سہولت کے باوجود، صحافیوں کو کئی اخلاقی خطرات کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق "فیکچوئل ایررز”، ثقافتی بے حسی، اور مقامی سیاق و سباق کی عدم موجودگی جیسے مسائل AI کے استعمال کو مشکوک بنا دیتے ہیں۔

نقطہ کی ایڈیٹر، امبر رحیم شمسی، خبردار کرتی ہیں کہ AI تحقیق، تصدیق یا فیکٹ چیکنگ کے لیے قابل بھروسہ ذریعہ نہیں۔ جبکہ بی بی سی اردو کے ایڈیٹر ذیشان حیدر انسانی نگرانی کو "ضروری” قرار دیتے ہیں، خاص طور پر ان حساس موضوعات کے لیے جو سیاسی یا مقامی طور پر نازک ہوں۔

ادارتی پالیسیوں کی کمی

ایک نظر انداز شدہ خطرہ کی نشاندہی کرتے ہوئے رپورٹ میں یہ انکشاف بھی شامل ہے کہ 39 میں سے صرف 12 اداروں نے AI کے استعمال پر باقاعدہ ادارتی پالیسی تیار کی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف اداروں کا اپنا وجود خطرے میں ہے بلکہ یہ عوام کے اعتماد کو بھی کمزور کرتا ہے۔

جب تک AI کو ادارتی پالیسیوں میں باقاعدہ جگہ نہیں دی جائے گی، اس کا استعمال غیر منظم، بکھرا ہوا اور بعض اوقات غیر اخلاقی ہو سکتا ہے۔

صحافت کی بقاء اور AI کی ضرورت

تحقیقی رپورٹ کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ آزاد صحافت کے لیے AI صرف سہولت نہیں بلکہ بقاء کا ایک ذریعہ بھی بن سکتی ہے بشرطیکہ اس کا استعمال ذمہ داری سے کیا جائے، وقت بچانے، ترجمہ کرنے، سوشل میڈیا پر مؤثر انداز میں موجودگی برقرار رکھنے اور قارئین کی ترجیحات جاننے میں AI ایک قیمتی اثاثہ بن سکتی ہے۔

خصوصاً ایسے نیوز میڈیا اداروں کے لیے جن کا عملہ پانچ یا اس سے کم افراد پر مشتمل ہے۔ AI کی مدد سے نہ صرف وقت کی بچت کی جا سکتی ہے بلکہ محدود وسائل کے باوجود معیاری صحافت کی جا سکتی ہے۔

تربیت، وسائل اور قیادت ،کیا کرنا ہوگا؟

تحقیق کے مطابق 92 فیصد ادارے خود کو AI کے مؤثر استعمال کے لیے "کمزور صلاحیتوں” کا حامل تصور کرتے ہیں, اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محض AI کا استعمال کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے تربیت، ادارتی رہنمائی اور مقامی زبانوں میں ٹولز کی دستیابی بھی ضروری ہے۔

سب سے زیادہ ضرورت "ادارتی تربیت” اور "اردو و مادری زبانوں کے لیے موزوں AI ٹولز” کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیوز رومز کو ایسے تربیتی پروگرام درکار ہیں جو صرف تکنیکی سیکھنے پر نہیں بلکہ صحافتی اصولوں کے تناظر میں AI کے استعمال پر زور دیں۔

پالیسی، اشتراک اور اخلاقیات

رپورٹ کی روشنی میں درج ذیل تجاویز سامنے آتی ہیں:

ادارتی تربیت کو مرکزیت دی جائے جو صحافتی اقدار کے ساتھ AI کا استعمال سکھائے۔

اردو اور(مادری ) علاقائی زبانوں کے AI ٹولز کی تیاری کو ترجیح دی جائے تاکہ سب نیوز رومز کو برابری کی بنیاد پر سہولیات میسر ہوں۔

ادارتی قیادت کو AI کے اسٹریٹیجک استعمال میں شامل کیا جائے تاکہ فیصلے صرف ایڈیٹرز اور رپورٹرز تک محدود نہ رہیں۔

تربیتی ماڈیولز کو عملی، انفرادی اور آن گراؤنڈ بنایا جائے تاکہ ان کے اثرات دیرپا ہوں۔

اخلاقی تربیت کو ابتدائی سطح پر ہی شامل کیا جائے تاکہ AI کا استعمال خبر کی سچائی اور انسانی وقار کے اصولوں کے مطابق ہو۔

ہمیں یہ حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مصنوعی ذہانت ایک موقع ہے، مگر بامقصد مداخلت کے بغیر خطرہ بھی ہے ،مصنوعی ذہانت پاکستان کے آزاد ڈیجیٹل میڈیا کو مضبوط بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، مگر اس کے لیے صرف ٹیکنالوجی دینا کافی نہیں ایک پورا نظامِ حمایت(ایکو سسٹم) درکار ہے۔ صحافیوں کو تربیت، اداروں کو پالیسی، اور معاشرے کو آگاہی کی اشد ضرورت ہے تاکہ AI صحافت کے لیے خطرہ نہیں، طاقت بنے۔پاکستان میں AI کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ ہم آج کس حد تک دانشمندی، شفافیت اور مساوات کے ساتھ اس نئی ٹیکنالوجی کو اپناتے ہیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں