وحید مراد
ہمارے معاشرے میں جب کوئی بچہ تعلیمی لحاظ سے نمایاں کارکردگی نہیں دکھا پاتا تو اکثر والدین یا اساتذہ مایوس ہو کر کہہ اٹھتے ہیں کہ "یہ بچہ پڑھائی کے قابل نہیں، اسے کسی ہنر یا فیلڈ میں لگا دو”۔ اس سوچ کے پیچھے تعلیم کا ایک انتہائی محدود اور کتابی تصور کارفرما ہے جس کے مطابق تعلیم صرف نصاب پڑھنے اور امتحان پاس کرنے کا نام ہے۔ نتیجتاً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ جو بچہ اسکول کی درسی کتابوں کو نہیں سمجھ پا رہا اُس کا اسکول جانا وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔ بظاہر یہ بات معقول دکھائی دیتی ہے لیکن درحقیقت یہ نقطۂ نظر تعلیم کی گہرائی، وسعت اور اس کی اصل روح سے ناواقفیت کا اظہار ہے۔
تعلیم صرف درسی مواد یاد کرنے کا نام نہیں بلکہ زندگی کو سمجھنے اور سلیقے سے جینے کا عمل ہے۔ جو بچے اسکول میں تعلیمی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں وہ بھی اس ماحول میں کچھ وقت گزار کر کئی ایسی صلاحیتیں پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو کسی نصاب میں درج نہیں ہوتیں۔ جیسے گفتگو کا سلیقہ، اپنی بات مؤثر انداز میں کہنا، دوسروں کو سننا،سوال کرنا، ردعمل میں توازن قائم رکھنا، سلجھے ہوئے انداز میں بات کرنا، اختلاف کو برداشت کرنا، اجتماعی ماحول میں رہنا، نظم و ضبط، وقت کی پابندی، صفائی ستھرائی اور معاشرتی ذمہ داری کا احساس ۔ کم معیاری یا سرکاری اسکولوں میں بھی یہ سب مہارتیں نہ سہی کچھ نہ کچھ تو ضرور پروان چڑھتی ہیں۔
اگرچہ کچھ بچے روایتی تعلیم میں کمزور ہوتے ہیں مگر ان کا اسکول میں رہنا پھر بھی بے فائدہ نہیں ہوتا۔ کھیل، مباحثے، ڈرامے، پراجیکٹس اور گروپ سرگرمیوں کے ذریعے وہ بھی اعتماد، خود شناسی، تخلیقی صلاحیت اور قیادت کے ابتدائی نقوش حاصل کرتے ہیں۔ وہ محنت کا مطلب سمجھتے ہیں، شکست کو قبول کرنا سیکھتے ہیں، دوبارہ کوشش کی عادت اپناتے ہیں اور ناکامی سے سبق لے کر آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کرتے ہیں۔ اسکول دراصل ایک معاشرتی تجربہ گاہ ہے جو شخصیت، جذبات، احساسات، سماجی فہم اور زندگی کے مختلف حالات سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت کو جِلا دیتی ہے۔
یہی صلاحیتیں آگے چل کر عملی زندگی میں بنیادی سہارا بنتی ہیں۔ اگر بچہ ہائی اسکول سرٹیفیکیٹ تک کے تعلیمی مراحل مکمل نہ بھی کر سکے تب بھی وہ بنیادی خواندگی، عددی فہم، دستاویز پڑھنے ، سادہ فارم پُر کرنے، بل دیکھنے، مؤثر گفتگو کرنے، موبائل اور روزمرہ ٹیکنالوجی استعمال کرنے جیسے ہنر سیکھ لیتا ہے۔ یہی ہنر کسی بھی پیشہ، کاروبار یا فنی راستے میں اس کے لیے بنیاد کا کام کرتے ہیں۔ یوں وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے، خود مختار بننے اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی اہلیت پاتا ہے۔
جب بچے مختلف سماجی اور ثقافتی پس منظر رکھنے والے ہم عمروں کے ساتھ پڑھتے کھیلتے ہیں تو ان میں تنوع کو سمجھنے اور قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ یہی صلاحیت آگے چل کر جمہوری، متوازن اور صحت مند معاشرے کی تشکیل میں کام آتی ہے۔ اسکول کا تجربہ بچے کو صرف فرد نہیں رہنے دیتا، اسے بتدریج ایک ذمہ دار شہری بننے کی سمت لے جاتا ہے۔
اس لیے کسی بچے کو صرف اس بنا پر اسکول سے ہٹا دینا کہ "وہ پڑھائی میں اچھا نہیں” دراصل اس کی شخصیت کے کئی دوسرے پہلوؤں کے امکانات سلب کر لینے کے مترادف ہے۔ تعلیم کا مقصد صرف ذہین بچوں کو آگے بڑھانا نہیں بلکہ ہر بچے کو اس کے اندر موجود انسانی، فطری اور سماجی امکانات کے اظہار کا موقع دینا ہے۔ اصل حسنِ تعلیم یہی ہے کہ وہ بچوں کے تنوع کو تسلیم کرے اور ان کی فطرت کے مطابق سیکھنے کے راستے کھولے۔
میں بھی لازمی تعلیم پر تنقید کرتا ہوں، تعلیمی اداروں اور نظام تعلیم کی کارکردگی پر سوال اٹھاتا ہوں۔ لیکن میر ا مقصد نہ تعلیم کی اہمیت کو کم کرنا ہوتا ہے اور نہ ہی اس بات کی ترغیب دینا کہ کمزور بچوں کو اسکول نہ بھیجا جائے ۔ میری تنقید اس پہلو پر ہے کہ قانون اور سزا کے ذریعے والدین اور بچوں پر تعلیم کو زبردستی مسلط نہ کیا جائے کیونکہ جبر سیکھنے کے شوق کو مٹا دیتا ہے اور رٹا کلچر کو مضبوط بناتا ہے۔ "لازمی” کا مفہوم یہ ہونا چاہیے کہ تعلیم ہر بچے کا حق ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ معیاری تعلیمی مواقع فراہم کرے۔ البتہ بچوں اور والدین کو یہ آزادی ملنی چاہیے کہ وہ سیکھنے کے انداز، رفتار اور راستے کا انتخاب اپنی فطری دلچسپی اور صلاحیت کے مطابق کریں۔ تعلیم جتنی لچکدار اور زندگی سے مربوط ہوگی اتنی ہی بامعنی اور دیرپا ثابت ہوگی۔
اسی تصور کو بڑی شخصیات اور اداروں نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔ جان ڈیوی اسکول کو سماجی تجربہ گاہ قرار دیتے ہیں جہاں بچے زندگی کے عملی اور اخلاقی اصول سیکھتے ہیں۔ ماریا مونٹیسوری کے نزدیک اسکول ایسا ماحول ہے جہاں بچے صرف کتابی علم نہیں بلکہ خود انحصاری، ضبطِ نفس، معاشرتی آداب اور اظہار کی مہارتیں بھی سیکھتے ہیں۔ نلسن منڈیلا نے تعلیم کو دنیا بدلنے کا سب سے طاقتور ہتھیار کہا۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ تعلیم بچوں کو محض سرٹیفیکیٹ نہیں بلکہ شعور اور ذمہ داری دیتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلامیے میں ابتدائی تعلیم کو ہر بچے کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے تاکہ وہ ایک فعال اور باکردار شہری بن سکے، چاہے وہ روایتی امتحانی کامیابی حاصل کرے یا نہ کرپائے۔
سیدھی بات یہ ہے کہ ہر بچہ ڈاکٹر، انجینئر یا اسکالر نہیں بنے گا لیکن ایک انسان ضرور بنے گا۔ ایک اچھا انسان بننے کے لیے اسے کم از کم وہ سماجی، اخلاقی اور عملی تربیت درکار ہے جو اسکول میں کسی نہ کسی حد تک فراہم ہوتی ہے۔ اس لیے اسکول بھیجنا کبھی ضائع نہیں جاتا خواہ بچہ نصابی دوڑ میں آگے نہ نکل پائے۔ تعلیم کو گریڈ، سرٹیفیکیٹ اوردرجات سے آگے دیکھیں۔ اگر اسے زندگی کو بہتر، وسیع تر اور باوقار بنانے کا وسیلہ سمجھیں تب ہم بچوں کے ساتھ انصاف کر سکیں گے اور معاشرے کو بھی بہتر رخ دے سکیں گے۔