✍ راشد خان
وائس پرنسپل، گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول، بفہ
میٹرک کا رزلٹ اور والدین کی توقعات
ہر سال جب میٹرک کا رزلٹ آنے کو ہوتا ہے تو ہمارے ہاں ایک عجیب سا جنون سر اٹھاتا ہے—“پوزیشن”، “نمبر ون”، اور “زیادہ سے زیادہ نمبروں کی دوڑ”۔ گویا زندگی کی تمام کامیابی کا انحصار صرف ایک رزلٹ شیٹ پر ہے۔
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی—گلوبل وارمنگ، کلائمیٹ چینج، زراعتی انقلاب، صنعتی ترقی، اور میڈیا کی بے تحاشہ وسعت۔ مگر ہمارا معاشرہ آج بھی صرف نمبروں کے سحر میں گرفتار ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے بچوں کی شخصیت کو صرف نمبروں کے ترازو میں تول کر انصاف کر رہے ہیں؟
اگر نمبر کم آئیں تو احساسِ کمتری، طعنے، اور مایوسی کا طوق۔
اور اگر زیادہ آئیں تو توقعات کا وہ بوجھ، جس کے نیچے اکثر پوزیشن ہولڈر بھی اپنی حقیقی شناخت کھو دیتے ہیں۔
ایک اسکول کا کام صرف امتحانات کی تیاری کروانا نہیں، بلکہ معاشرے کے لیے ایک بہتر، بااخلاق اور بامقصد شہری تیار کرنا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کا صرف مقداری (Quantitative) نہیں بلکہ استعدادی (Qualitative) جائزہ لینا ہوگا۔
یہ بات والدین کے لیے سمجھنا ضروری ہے — چاہے وہ تعلیم یافتہ ہوں یا نہیں — کہ اگر آپ کا بچہ:
نفرت و محبت کے جذبات میں فرق کرتا ہے،
دوسروں کے لیے دل میں احساس رکھتا ہے،
بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرتا ہے،
اور مذہبی و اخلاقی اقدار کا خیال رکھتا ہے،
تو یقین رکھیے! وہ کامیابی کی اصل راہوں پر گامزن ہے۔
کیا ہمیں بچوں کو صرف نمبر دکھانے چاہییں یا خواب؟
ہمارے بچوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ:
ایک چائے بیچنے والا (نریندر مودی) دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیر اعظم بن سکتا ہے۔
ایک ہوٹل پر کام کرنے والی ماں کا بیٹا (باراک اوبامہ) سپر پاور امریکہ کا صدر بن سکتا ہے۔
تو ہمارا بچہ کیوں نہیں؟
بس ہمیں ان کے دلوں میں احساس کی وہ چنگاری روشن کرنی ہے، جو عمل کی طرف لے جائے، کیونکہ:
احساس عمل کی چنگاری جس دل میں فروزاں ہوتی ہے
اُس لب کا تبسم ہیرا ہے
اُس آنکھ کا انس موتی ہے۔
لہٰذا، اس بار جب رزلٹ آئے، نمبروں کی پرچی کو زندگی و موت کا فیصلہ نہ سمجھیں۔
اپنے بچوں کے ساتھ کھڑے ہوں، ان کے خوابوں میں شریک ہوں، ان کی شخصیت کو پروان چڑھائیں،
تاکہ وہ کل کے لیڈر، محقق، استاد، سائنسدان، اور معاشرے کے روشن چراغ (مفید شہری)بن سکیں۔