Skip to content

وہ گمشدہ سکون، جو پانی کے ساتھ بہہ گیا

شیئر

شیئر

تحریر اشراق سید

وہ میرے سامنے بیٹھی تھی، مٹی سے اٹے کپڑے، چہرے پر تھکن اور آنکھوں میں وہ ویرانی جو صرف تب آتی ہے جب سب کچھ چھن چکا ہو۔

"تم نے کبھی جہلم کو صبح کے وقت دیکھا ہے؟”
اس کا سوال سیدھا میرے دل میں جا اترا۔ "وہ ہلکی سی دھند میں لپٹی ندیاں، وہ سفید دھوپ، اور کھیتوں میں محنت کرتے وہ ہاتھ جو سارا دن پسینہ بہاتے، لیکن شام کو چہرے پر سکون ہوتا تھا”

میں خاموش رہی، کیونکہ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔

"اب کچھ نہیں بچا۔ وہی جہلم، جس کے کنارے بیٹھ کر میں اور میری بہنیں بالوں میں گلاب گُندھتی تھیں، اب بس ایک گندا، بپھرا ہوا پانی ہے… جو سب کچھ بہا کر لے گیا۔ ہمارے گھر، ہماری دعائیں، ہماری مائیںسب کچھ۔”

اس نے آسمان کی طرف دیکھا، جیسے کوئی پرانا حساب مانگ رہی ہو۔ "بارش نے اپنا کام کیا، پر ہم نے؟ ہم نے کون سا فرض نبھایا؟ ہم نے دریا کو بند کیا، نالے پُر کیے، درخت کاٹے، اور سمجھ بیٹھے کہ فطرت ہمیشہ برداشت کرے گی۔”

"لوگ کہتے ہیں، اللہ کا عذاب ہے۔ ہاں، شاید ہےلیکن یہ عذاب ہم نے خود بلایا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے۔”

میری آنکھیں نم ہو گئیں، لیکن میں ابھی بھی کچھ نہ بولی۔ وہ اپنی سسکیوں کو روکتی رہی، جیسے صدیوں کا بوجھ دل پر لیے بیٹھی ہو۔

"میرے ابو کی قبر بھی پانی میں بہہ گئی۔ پتا ہے؟ انہوں نے وہ جگہ خود چنی تھی، دریا کے کنارے، کہتے تھے سکون ملے گا اور اب؟ قبر ہی نہیں رہی، سکون کیا ملے گا۔”

وہ کچھ لمحے چپ رہی، پھر آہستہ سے بولی، "لوگ تصویریں کھینچنے آتے ہیں، خبریں بناتے ہیں، اور چلے جاتے ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا، ہم کیا تھے اور اب کیا رہ گئے ہیں۔”

پھر وہ میری طرف دیکھ کر بس اتنا بولی:

"تم کہو کیا صرف بارش مجرم ہے؟ یا ہم سب نے مل کر جہلم کو ڈبو دیا ہے؟”

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں