Skip to content

ہزارہ ایکسپریس نیوز کا عالمی سفر !

شیئر

شیئر

عامر ہزاروی

روایت پسند کہلانے والے جدت کے نام پر پیدا ہونے والی چیزوں کے مخالف ہوتے ہیں ، کوئی نئی آواز ، کوئی نیا قدم اٹھے تو یہ اسکے سرکوبی کے لیے موجود ہوتے ہیں ، جن لوگوں نے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں کام کیا وہ جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے روایتی میڈیا پر کتنا اثر ڈالا ہے ، سوشل میڈیا نے روایتی میڈیا کے بڑے بڑے بت پاش کیے ہیں ،معاشی نقصان الگ ہے ، اِس وقت روایتی میڈیا کو اپنی بقا کا سوال درپیش پیش ہے ، جو ادارے آگے بڑھ رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے زمانے کی آواز کو سمجھا اور اسکے ساتھ چل رہے ہیں ، وہ میڈیا جو حکومتیں بناتا اور توڑتا تھا آج روٹی کے چار حرف لیے کھڑا ہے کہ ہم خود کو بچائیں کیسے ؟

شیر افضل صاحب بھی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافی رہے ، انہوں نے سوشل میڈیا کی افادیت کو اس وقت سمجھا جب بہت سے لوگ طعنہ دیکر کہہ رہے تھے اب سوشل میڈیا پر بھی صحافت ہو گی ؟ روایتی میڈیا کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا ، جب روایتی صحافی سوشل میڈیا کے مخالف تھے تب ہزارہ ایکسپریس نیوز کی بنیاد رکھی گئی ، چار کرسیاں ، چھوٹا سا ٹیبل ، ایک کیمرہ اور ایک مائیک اور انگلیوں پر گنے چار لوگ ، یہی سامان زیست تھا ، اسی کو لیکر آگے بڑھنا تھا ، لوگ ہنس رہے تھے قدرت مسکرا رہی تھی ، قدرت چھوٹے سے کمرے ، مائک اور ٹوٹی پھوٹی کرسیوں کو نہیں بڑے خوابوں کو دیکھ رہی تھی ، وہ دیکھ رہی تھی کہ اس چھوٹی سی جگہ بیٹھ کر کام کرنے والوں کے خواب کتنے بڑے ہیں ؟ وہ سوچتے کیسا ہیں ؟ کیا یہ انسانیت کے لیے فائدہ مند ہیں ؟ فائدہ مند کیسے ضائع ہو سکتا ہے ؟ ہم نے خواب دیکھا قدرت نے تعبیر سچی کر دی ، خواب دیکھا کریں خواب عمل کی جانب اٹھتا پہلا قدم ہوتا ہے ،

ہزارہ ایکسپریس نیوز بھی خواب تھا جو لاری اڈا سے ہوتا ہوا کولمبو/سری لنکا ، بینکاک/تھائی لینڈ اور دیگر ممالک تک پہنچ رہا ہے ، یہ جو ہم تھائی لینڈ گئے ، یہاں جانے کا مقصد بھی میڈیا کے وجود کے حوالے سے کانفرنس تھی کہ ایک ایسے وقت میں جب میڈیا سے متعلق چھوٹے سے چھوٹا اشتہار بھی اب کسی اخبار کو جانے کے بجائے فیس بک ،گوگل، یوٹیوب ، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک جیسی بڑی کمپنیاں لے جا رہی ہیں ، جس کے نتیجے میں نیوز میڈیا سے جڑے صحافیوں کے پاس آمدن کے جو تھوڑے بہت مواقع تھے وہ مزید سکڑ گئے ، اور اب نیوز میڈیا کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا سب سا بڑا چیلنج بن چکا ہے ،

اس بات کا ثبوت ہمیں اپنے ہزارہ ڈویژن سے ہی مل جاتا ہے کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے ہزارہ کے مختلف اضلاع سے دو درجن اخبارات شائع ہوتے تھے اور آج صرف چار اخبار ہی باقی بچے ہیں ، ان کے بارے میں بھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کب تک قائم رہیں گے ؟ کچھ لوگوں کو لیے شائد یہ بیس اخبارات بند ہونے کی اطلاع ہو مگر حقیقت میں یہ ایک کروڑ کی آبادی کے لیے اطلاعات کی سکڑتی گنجائش کا المیہ اور ایسے وقت میں معلومات کی قحط کی بد خبری ہے جب ہمارا ایک ایک قدم اور فیصلہ قابل اعتبار معلومات کا محتاج ہے۔۔

ایمپیلفائی ایشیا پروگرام کے ذریعے ان لوگوں کو بتانا تھا کہ کیسے آپ نے اپنے ادارے کو باقی رکھنا ہے ؟ میڈیا کے بدلتے ہوئے تناظر میں آمدن کے باوقار زرٹائع کیا ہو سکتے ہیں اور کون کون سے ہو سکتے ہیں؟ میڈیا کے پاس ایسی کون سی مہارت یا سروسز ہیں جو وہ اپنے لوگوں کو فراہم کرکے آمدنی کے زرائع پیدا کر سکتا ہے؟ یہ سفر ہزارہ ایکسپریس نیوز اور اس کی ٹیم کے لیے ہر حوالے سے شاندار تھا کہ اس میں ایک خواب کی تعبیر شامل تھی ۔۔

ایمپیلیفائی ایشیا پروگرام کیا ہے اس پر میں تفصیلی تحریر لکھ چکا ہوں جو کمنٹ میں ہے آپ پڑھ سکتے ہیں ، باقی تھائی لینڈ کو کیسا پایا اس پر الگ سے تحریر ہو گی ان شاءاللہ۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں