ڈاکٹر جزبیہ شیریں
کچھ سال پہلے کی بات ہے جب دادی ,نانی صبح صبح اٹھا کر سرسوں کے تیل سے بالوں کی مالش کرواتی تھیں۔ اور ہم منہ بناتے تھے ان پر ہنستے تھے اور مذاق میں اُڑا دیتے تھے۔ ہم انہیں کہتے تھے”تیل لگاؤ، سرسوں کے تیل سے مالش کرو، یہ کھاؤ وہ کھاؤ، ہلدی لگاؤ، یہ سب پرانی باتیں ہیں،”۔ ہمیں لگتا تھا کہ دنیا بہت آگے جا چکی ہے، اور یہ سب چیزیں اب بالکل فیشن سے باہر ہیں۔ لیکن آج؟ آج وہی سب چیزیں جو ہم "پرانا” سمجھتے تھے، وہ دنیا کے جدید ترین ٹرینڈز بن چکی ہیں آج وہی تیل "ہیئر گروتھ سیرم” کے نام سے بیوٹی شاپس میں 5000 روپے کا مل رہا ہے! کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کے یہ "پرانے” نسخے دراصل کتنے قیمتی تھے؟
فرق صرف اتنا ہے کہ اب انہیں ایک خوبصورت پیکج میں ڈال کر "جدید” اور "سائنسی” بنا دیا گیا ہے۔
صبح کی چائے میں ادرک ڈالنا ہو یا رات کو سوتے وقت ہلدی والا دودھ پینا – یہ سب ہماری دادی ماؤں کی وہ حکمتیں تھیں جنہیں ہم "پرانے خیالات” کہہ کر نظر انداز کر دیتے تھے۔ مگر اب تو مغربی ممالک میں "گولڈن لٹے” کے نام سے ہلدی والے دودھ کی دکانیں کھل گئی ہیں! کیا کبھی آپ نے سوچا تھا کہ ہماری دادی کا یہ معمول ایک دن "سپر فوڈ” بن جائے گا؟ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہلدی میں موجود کرکومین پر 6000 سے زائد سائنسی تحقیقات ہو چکی ہیں، جبکہ ہماری دادیاں صدیوں سے اس کے فوائد جانتی تھیں.
میڈیکیوب جیسے کورین برانڈز ہلدی کا فیس ماسک بیچ رہے ہیں، اور دنیا اسے "ڈیٹوکسifying”
حالانکہ ہماری دادیاں تو یہی کام کرتی تھیں جب انہیں پتا بھی نہیں تھا کہ ڈیٹوکس کیا ہوتا ہے! ہماری دادیاں، مائیں ہمیں ہمیشہ کہتی تھیں، "ہلدی کا ماسک لگاؤ، یہ جلد کو صاف کرتا ہے، اور چہرے کو نکھارتا ہے۔” لیکن آج کل کورین بیوٹی برانڈز ہلدی کا فیس ماسک 100 ڈالر میں بیچتے ہیں اور لوگ اسے "اینٹی ایجنگ” یا "ڈیٹوکس” کہہ کر انسٹاگرام پر پوسٹ کرتے ہیں۔ ارے بھئی، یہ تو ہماری نانی کی گھریلو ترکیب تھی! ان لوگوں نے کچھ نہیں کیا، بس وہی پرانی چیزیں "نئے” نام سے بیچ رہے ہیں۔
مسالوں والے کھانے جن پر کبھی "بہت ہیں سپائسی، پیٹ خراب ہو جائے گا” کا لیبل لگتا تھا، آج کل گوریاں ادرک، ہلدی، اور دارچینی کو "سپر فوڈ” بنا کر انسٹاگرام پر پوسٹ کر رہی ہیں۔ کیا کبھی انہوں نے سوچا بھی تھا کہ یہ "سپر” ہمارے کھانوں کا بنیادی حصہ ہیں؟ اور ہاں، بالوں کی بات کریں تو آج کل ہر دوسرا ویسٹرن ہیئر برانڈ ناریل کے تیل، آملا، اور بھرنگ راج جیسے اجزاء وال ہلدی کا ماسک جو اب دنیا بھر کے بیوٹی برانڈز بیچ رہے ہیں، یہ بھی ہمارے گھروں میں ہمیشہ سے ہوتا تھا۔ مسالوں کی بات کریں تو ہمارے گھروں میں روز مرہ استعمال ہونے والے مصالحے جیسے ہلدی، دارچینی، ادرک اب مغرب میں "سپر فوڈز” کے طور پر فروخت ہو رہے ہیں۔ ہم جب اپنے چکن کڑھی، بریانی، تکے، اور دیگر مسالے دار کھانے کھاتے تھے تو ہمیں کہتے تھے، ” یہ کھانا بہت زیادہ مصالحہ دار ہے، ہم نہیں کھا سکتے۔” اور آج؟ وہی لوگ جو کبھی ہمارے کھانے کو "مضر” سمجھتے تھے، آج کل اسپائسی فوڈ چیلنجز کرتے ہیں۔ ہمارا چکن تکا مسالا جسے کبھی "بہت زیادہ مصالحہ دار” سمجھا گیا تھا، آج برطانیہ میں "قومی ڈش” کہلاتا ہے۔ کیا کبھی انگریزوں نے کہا کہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے؟ نہیں، وہ ہمیشہ اسے "اپنا” سمجھ کر پیش کرتے ہیں۔ اور ہمیں؟ ہم تو اس کا حصہ تھے، مگر ہمیں کبھی یہ کریڈٹ نہیں ملا۔ اب ذرا ہمارے لباس کی بات کرتے ہیں۔ ساڑھی جو ہماری ثقافت کا اٹوٹ انگ ہے، اب مغربی ڈیزائنرز نے اسے "میڈرن ڈریپ” کا نام دے کر پیش کر دیا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ساڑھی دنیا کا واحد لباس ہے جو 5000 سال سے مسلسل پہنا جا رہا ہے؟
دوپٹہ جسے ہم "اوڑھنی” یا "چنری” کہتے ہیں، اب "اسکارف” کے نام سے فیشن کا حصہ بن چکا ہے۔ ایک مزے کی بات یہ کہ ہمارے دوپٹے میں وہ خوبی ہے جو کسی بھی مغربی اسکارف میں نہیں – یہ دھوپ سے بھی بچاتا ہے، سردی سے بھی محفوظ رکھتا ہے، اور ساتھ ہی زیبائش کا بھی کام کرتا ہے. ساڑھی اور دوپٹہ ۔ یہ دونوں ہمارے ثقافتی لباس ہیں، اور ہم ہمیشہ ان پر فخر کرتے آئے ہیں۔ لیکن اب جب مغربی دنیا نے ساڑھی کو "نیا ڈیزائن” کہہ کر پیش کیا، اور دوپٹے کو اسکارف کا نام دے کر فیشن بنا دیا، تو ہم کیا کرتے ہیں؟ ہم خوش ہو جاتے ہیں کہ ہماری ثقافت کو "ایکسیپٹ” کیا جا رہا ہے۔ لیکن کیا کبھی ان لوگوں نے کہا کہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے؟ نہیں! بس وہ اسے "نیا” بنا کر پیش کر دیتے ہیں اور ہم خوش ہو کر کہتے ہیں کہ "کم از کم ہماری ثقافت کو پہچانا جا رہا ہے”۔
جب ہمارے ہاں نہانے کے لیے خوشبو دار تیل، عطریات، اور ہربل صابن استعمال ہوتے تھے، یورپ میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ نہانے سے بیماری ہو جاتی ہے. جب ہم زعفران اور گلاب کے عرق سے کھانا پکاتے تھے، وہ کچی سبزیوں اور بغیر مسالوں والے گوشت پر گزارہ کر رہے تھے۔ اور جب ہم نے ریشم، کتان اور دھاگوں سے کڑھائی کر کے شاہی لباس تیار کیے، تب تک وہ موٹے کپڑوں میں زندگی گزار رہے تھے۔
لیکن پھر کیا ہوا؟ انہوں نے ہندوستان کی دولت لوٹی، ہماری ایجادات کو اپنا نام دیا، اور آج ہماری ہی چیزوں کو "نیا ٹرینڈ” بنا کر بیچ رہے ہیں۔ مہندی (حنا) کا معاملہ تو اور بھی دلچسپ ہے۔ ہماری شادیوں کی رونق بننے والی مہندی اب چین میں "ٹمپورری ٹیٹو” کے نام سے مشہور ہو رہی ہے۔اب وہ بھی اپنے سوشل میڈیا پیجز پر مہندی آرٹ کی تصاویر پوسٹ کرتے ہیں، اور کیا پتا، کل کو وہ یہ دعویٰ کریں کہ یہ ان کی ایجاد ہے۔ اب تو ہمیں خوف آ رہا ہے کہ کل وہ اسے "چینی مہندی” کے طور پر فروخت کرنے لگیں گے۔ ہم خاموش ہیں اور بس دیکھ رہے ہیں کہ ہماری ثقافت کس طرح دوسرے ملکوں میں نئے نام سے پیش کی جا رہی ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ مہندی صرف خوبصورتی ہی نہیں بلکہ صحت کے لیے بھی مفید ہے؟ یہ جلد کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے اور سر درد میں بھی آرام دیتی ہے۔ چلیں، اب تھوڑی بات کرتے ہیں کھانے پینے کی۔ تو ہمارے گھروں میں بننے والا کدو کا سالن یا گھیا توری اب "ڈیٹاکس فوڈ” کے طور پر مشہور ہو رہا ہے۔کدو کا سالن، گھیا توری کا بھرتہ، اور مسور کی دال، جو کبھی ہمارے گھروں میں عام کھانے ہوتے تھے، آج کل چین میں "کولنگ ایفیکٹ” والی ڈشز کے طور پر مشہور ہو چکے ہیں۔ کیا ہم پیچھے تھے؟ نہیں، ہم تو ہمیشہ سے آگے تھے، بس ہمیں کبھی ان چیزوں کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا۔ اور اب یہ سب "نئے” اور "صحت مند” کھانے کہلائے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ کہ کدو میں موجود غذائی اجزاء جلد کے لیے بے حد مفید ہیں، جسے ہماری مائیں تو جانتی تھیں، مگر اب سائنس بھی اس کی تصدیق کر رہی ہے۔ ہمارے دیہات میں پہنے جانے والے کھڑاؤں کا کیا کہنا! جسکو کبھی "پینڈو” سمجھا جاتا تھا، آج وہی "پرادا” جیسے برانڈز کے شو رومز کی زینت بن چکے ہیں اور ہزاروں روپے میں بیچے جا رہے ہیں۔ وہی کھڑاؤں، جو کبھی ہمارے گاؤں میں ہمارے بزرگ پہنتے تھے اب دنیا میں "فیشن” کے طور پر پیش ہو رہے ہیں۔کیا آپ جانتے ہیں کہ کھڑاؤں میں چلنے سے پاؤں کے تمام ایکو پریشر پوائنٹس دباؤ پاتے ہیں، جو صحت کے لیے بے حد مفید ہے؟ ہاتھ سے بنے ہوئے کپڑوں کی بات کریں تو ہمارے کھدر اور ہاتھ سے بنے کپڑے جو کبھی "غریبوں کا لباس” سمجھے جاتے تھے، اب "ہینڈ میڈ لگژری” کے طور پر ویسٹرن مارکیٹ میں فروخت ہو رہے ہیں۔ اور ہم؟ ہم خاموشی سے یہ سب دیکھ رہے ہیں کہ ہماری چیزیں کس طرح "نئے” نام سے پیش کی جا رہی ہیں۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ کہ ہاتھ سے بنا ہوا کپڑا نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ اسے پہننے والے کے لیے بھی زیادہ آرام دہ ہوتا ہے۔ اب ذرا ہماری روزمرہ کی چیزوں پر نظر ڈالیں۔ دانتوں کا مسواک، جو ہمارے بزرگ استعمال کرتے تھے، اب "نیچرل ٹوتھ برش” کے نام سے مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ مسواک کے درخت کی لکڑی میں قدرتی اینٹی بیکٹیریل خصوصیات پائی جاتی ہیں؟ ہماری صبح کی ورزشیں جیسے یوگا اور پرانے زمانے کے کسرتیں اب دنیا بھر میں "فٹنس ٹرینڈ” بن چکی ہیں۔ حقیقت یہ کہ یوگا صرف جسم ہی نہیں بلکہ ذہن کو بھی صحت مند رکھتا ہے، جسے جدید سائنس بھی تسلیم کرتی ہے۔
کھانے پکانے کے ہمارے روایتی طریقے جیسے مٹی کے برتن میں پکانا، ہانڈی میں پکانا اب "ہیلتھی ککنگ” کے طور پر مشہور ہو رہے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ مٹی کے برتن میں پکا ہوا کھانا نہ صرف ذائقے میں بہتر ہوتا ہے بلکہ اس میں غذائیت بھی زیادہ محفوظ رہتی ہے؟ اب ذرا ہماری شادیوں کی رسومات کی بات کریں۔ مہندی، سہرا بندی، جوتا چھپائی جیسی رسومات جو کبھی "پرانی” لگتی تھیں، اب مغربی ممالک میں "یونیک ویڈنگ آئیڈیاز” کے طور پر اپنائی جا رہی ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ مہندی لگانے سے نہ صرف ہاتھ خوبصورت لگتے ہیں بلکہ یہ جسم کو ٹھنڈک بھی پہنچاتی ہے؟ ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ہماری ثقافت میں موجود یہ تمام چیزیں نہ صرف خوبصورت ہیں بلکہ سائنسی اعتبار سے بھی درست ہیں۔ ۔ ہمارے بزرگوں کے طریقے صدیوں پرانے نہیں، بلکہ صدیوں آگے کے تھے۔ ہمیں اپنے کھانے، اپنے لباس، اپنے قدرتی علاج کو پرانا سمجھنے کے بجائے، انہیں اپنی پہچان بنانا چاہیے۔ کیونکہ آخرکار، دنیا نے وہی سیکھا جو ہم پہلے ہی جان چکے تھے۔
یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی ثقافت کو پرانا سمجھتے تھے، لیکن اب وہی چیزیں دنیا کے "نئے فیشن” کے طور پر سامنے آ رہی ہیں۔ ہم نے کبھی اس بات کو حقیقت میں نہیں سمجھا کہ ہماری ثقافت، ہمارے کھانے، ہمارے لباس، سب ہمیشہ سے جدید تھے، بس ہمیں ان کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا۔
جب کوئی چیز ہمارے ہاں گھریلو طور پر استعمال ہوتی ہے تو وہ دنیا میں "پرانی” کہلاتی ہے، لیکن جب وہی چیز دنیا میں "نیا” بن کر سامنے آتی ہے تو ہم فخر سے کہتے ہیں کہ "یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔” اس لیے اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی ثقافت کو اس کی اصل حالت میں پہچانیں، اس کی اہمیت کو سمجھیں، اور دنیا کو بتائیں کہ ہم کبھی پیچھے نہیں تھے۔ ہم نے جو کچھ بھی کیا تھا، وہ ہمیشہ سے جدید تھا، بس ہمیں کبھی اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوا۔
تو اگلی بار جب آپ اپنے بالوں میں تیل لگائیں اور کوئی آپ کو مذاق اُڑائے، تو مسکرا کر کہیے: "یہ میرا 5000 سال پرانا ‘سپا ٹریٹمنٹ’ ہے. یہ 500 سال پرانا ‘ہیئر گروتھ سیرم’ ہے، آپ نے ابھی اسے ٹرائی کیا ہے!” اور جب کوئی آپ کے گھر کے بنے کھانوں کو "پرانا” کہے، تو با اعتماد انداز میں جواب دیں: "نہیں یار، یہ تو ‘آرگینک، گلوٹن فری، سوپر فوڈ’ ہے جو میری دادی کی ریسیپی سے بنا ہے
اور جب کوئی آپ کے چکن کباب کو "بہت مصالحہ دار” کہے، تو مسکرا کر جواب دیں، "ہاں، یہ ہماری 500 سال پرانی ‘سپر "ڈش’ ہے، آپ نے ابھی اس کا مزہ لیا ہے. آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جس چکن تکا مسالا کو برطانیہ اپنی "قومی ڈش” کہتا پھرتا ہے، وہ دراصل کہاں سے آیا؟ ہاں جی، وہی چکن تکا جس پر آج کل لندن کے ہر کونے پر فخریہ بورڈ لگا ہوتا ہے—”برٹش نیشنل ڈش” مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ڈش ہماری دادیوں کے ہاتھوں کی بنائی ہوئی ہے، بس اس میں تھوڑا سا "انگلش ٹوئسٹ” دے دیا گیا ہے۔ یعنی ہم نے سالوں تک مرچ مصالحے والا کھانا کھایا، اور جب انگریزوں نے چکھا تو انہیں اتنا پسند آیا کہ اسے اپنا ہی بنا لیا۔ مگر کریڈٹ؟ نہیں، وہ تو ہمیں ملنا ہی نہیں تھا کچھ عرصہ پہلے تک امریکہ میں ہمارے چکن کری کو "بہت زیادہ مصالحہ دار” سمجھا جاتا تھا۔ وہ لوگ جس چیز کو "ہاٹ” کہتے تھے، وہ ہمارے لیے تو بس معمولی سی ٹھنڈی چٹنی جتنا تھا! مگر اب؟ اب وہی امریکی "اسپائسی فوڈ ٹرینڈ” کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم نے تو ہمیشہ سے یہ کھایا، اور انہوں نے ابھی ابھی ڈسکور کیا ہے۔
اور ہاں، جب تکا مسالا برطانیہ کی قومی ڈش بن گیا تو کیا ہوا؟ ہم تو یہ کھا رہے تھے جب برطانیہ والے ابھی تک اُبلے ہوئے آلو اور سادہ گوشت پر گزارہ کر رہے تھے۔ مگر اب انہوں نے اسے "اپنا” بنا لیا۔ کیا کبھی انہوں نے کہا کہ یہ اصل میں ہندوستانی ہے؟ نہیں! یاد رکھیں، ہماری ثقافت کوئی پرانی چیز نہیں، بلکہ یہ تو ایک ایسا خزانہ ہے جس کی قیمت اب دنیا بھی سمجھ رہی ہے۔ ہمیں اس پر فخر کرنا چاہیے، اسے سنبھال کر رکھنا چاہیے، اور دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہماری روایات میں کتنی حکمت پوشیدہ ہے۔ ہمیں اب اپنی ثقافت پر فخر کرنا چاہیے، کیونکہ جو چیزیں آج دنیا "نیا” سمجھ رہی ہے، وہ ہماری پرانی روایتیں ہیں۔ ہماری دال، ہمارے کھانے، ہمارے لباس، ہماری ثقافت—یہ سب ہمیشہ سے جدید تھے، اور اب دنیا بھی ان کو سراہ رہی ہے۔ تو اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی ثقافت کو بطور پہچان ساری دنیا کے سامنے لائیں، اور اس پر فخر کریں۔ آخر میں ایک بات ضرور کہوں گی – ہماری نانی دادی کی ہر "پرانی” بات میں کوئی نہ کوئی "نئی” حکمت ضرور چھپی ہوتی ہے۔ بس ہمیں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے!