Skip to content

عوام کے اصل دشمن

شیئر

شیئر

عمرخان جوزوی

کچھ دن پہلے ہمارے کزن خاطب اللہ کی گاؤں میں شادی تھی جس میں دوراورقریب کے اکثررشتہ دار شریک رہے۔گاؤں اوردیہات کے اندرچونکہ شادی ہال والاکام نہیں اس لئے ولیمہ والے کھانے کے معاملات وانتظامات مقامی دیگ پکائی کاریگروں کے ذریعے چلایاجاتاہے۔ہمارے آبائی گاؤں جوزوملحقہ چھوٹے موٹے علاقوں میں شادی بیاہ اورختم خیرات کے موقع پردیگ پکائی کاکام حبیب اللہ سرانجام دیتے ہیں اوراس کی پکائی دیگ خوشی کی ہویاغمی کی چاول کارنگ پیلاہی ہوتاہے۔ اس بارہم نے باتوں باتوں میں حبیب اللہ کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ یہ کیامذاق آپ نے بنایاہواہے کہ شادی ہویاماتم چاول آپ کے پیلے ہی ہوتے ہیں کم ازکم شادی یاماتم دونوں میں ایک کارنگ تو تبدیل کردیں۔خیرچاول رنگ کے پیلے ہوتے ہیں لیکن ذائقہ دار۔کزن کاولیمہ توحبیب اللہ کی دیگوں پرگزرگیاپرولیمے کے اگلے دن بھی مہمان زیادہ تھے جن کے لئے ایک دیگ کاانتظام ضروری تھا۔حبیب اللہ کے نہ آنے پرکزن بہرام خان اوربھائی مومن خان دونوں نے آگے بڑھ کریہ کہتے ہوئے کہ ہم حبیب اللہ سے کوئی کم ہیں سینہ چوڑاکرتے ہوئے دیگ پکانے والاکام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔وہ دیگ جس میں پندرہ کلوچاول مشکل سے پکتے ہیں ان دونوں جوانوں نے اس میں پورے پچیس کلوچاول ڈال دیئے اورصرف چاول نہیں ڈالے ساتھ دیگ والابڑاچمچہ بھی ڈال دیاجس سے وہ چاول کوپھرآخرتک حلوہ سمجھ کر ہلاتے رہے۔اس چمچے نے چاول کاجوحال کیاوہ بیان کرنے سے باہرہے۔اس دن ہمیں پتہ لگاکہ یہ چمچے کس طرح کام خراب کرکے تباہی پھیلاتے ہیں۔اس وقت ملک کے اندرجہاں جوبھی خرابی ہوگی آپ دیکھیں اس کے پیچھے کسی چمچے یاچمچوں کاہی ہاتھ ہوگا۔لوگ حکمرانوں اورسیاستدانوں کوبرابھلاکہہ کرگالیاں دیتے ہیں لیکن ہرغلط اوربراکام یہ چمچے ہی کرتے ہیں۔اب بجلی بلوں میں دوسویونٹ والاظلم دیکھ لیں۔ کیایہ سلیب اورپالیسی وزیراعظم شہبازشریف نے بنائی ہوگی۔ نہیں ہرگزنہیں۔حکمران کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں۔ان کے ذہن،دل ودماغ کے اندر اس طرح کے بے ہودہ آئیڈیازاورخیالات نہیں آ سکتے۔یہ کام کسی خاندانی چمچہ گیرکاہی ہوسکتاہے جوعوام کولوٹنے اوران کی زندگی عذاب بنانے کے لئے اس قدرگہرائی میں جاسکتاہے۔اس طرح کے بعض آئیڈیاز،منصوبے اورپالیسیاں دیکھ کرسرگھوم جاتاہے کہ ایسے ننگے تخلیق کاربے زبانوں کے اس دیس میں کہاں سے آجاتے ہیں۔؟یہ کونساطریقہ،کیساقانون اورکہاں کاانصاف ہے کہ بجلی کاوہ بل جودوسویونٹ پردوتین ہزارروپے ہوگادوسوایک یونٹ پروہ آٹومیٹک پانچ چھ ہزارروپے میں چلاجائے گا۔ایک یونٹ پربجلی صارفین کوفوراًسولی پرچڑھانایہ غریب عوام کے لئے ریلیف ہے یالوٹنے کاعجیب طریقہ۔جولوگ پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہوں اورجن کی زندگی مشکل سے گزررہی ہوان لوگوں کے لئے کوئی حکمران اورسیاستدان ایسے عجیب وغریب سلیب متعارف اورایجادنہیں کراسکتا۔ایسے طریقے وہی لوگ ایجادکرتے ہیں جنہیں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداربننے کاشوق اورہردیگ کاچمچہ بننے کی عادت ہو۔آپ ریکارڈاٹھاکردیکھ لیں یہ وہی لوگ ہوں گے جوساٹھ سترسال سے اپنی ایسی ہی پالیسیوں،آئیڈیاز،منصوبوں،سلیب اورطریقوں سے عوام کی گردن کبھی ایک طرف اورکبھی دوسری طرف مروڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ ایسے عجیب عجیب طریقے نکالتے اورپالیسیاں بناتے ہیں کہ ان سے شیطان بھی پناہ مانگتاہوگا۔ایک یونٹ پراتنی سخت سزاکہ غریب بجلی کے بل دیکھ کرپاگل ہورہے ہیں۔ایسے نمونوں اورچمچوں نے خیبرپختونخواسے بھی انصاف کاجنازہ نکال دیاہے۔یہ انصاف والوں کے صوبے میں سرکاری ملازمین کے ساتھ جوکھیل کھیل رہے ہیں اس کھیل کودیکھ کریہاں انصاف بھی منہ چھپاتاپھررہاہے۔وفاق نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کے ڈی آراے میں تیس فیصداضافہ کیا۔ادھران چمچوں نے ملازمین کے ساتھ پہلاہاتھ تویہ کیاکہ وہ اضافہ یہاں پندرہ فیصدکرکے ساتھ اپنی وہ اصلیت بھی ظاہرکردی کہ پندرہ فیصداضافہ بھی دوہزارسترہ کی بیسک پے پرہوگا۔اب سوچنے کی بات ہے ملازمین دوہزارپچیس میں جی رہے ہیں۔ان سے ہرماہ ٹیکس بھی یہ دوہزارپچیس کے حساب سے لیاجارہاہے۔ماچس کی ڈبی سے لیکرآٹا،چینی،دال اورگھی تک ہرچیز ان سرکاری ملازمین کودوہزارپچیس کے ریٹ پرمل رہی ہے۔جب سب کچھ دوہزارپچیس کے حساب کتاب پرچل رہاہے توپھرسرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ دوہزارسترہ اوربائیس کے بیسک پے پرکیوں اورکیسے۔؟اپنی تنخواہوں اورمراعات کی بات ہوتویہ ظالم پھردن اوررات نہیں دیکھتے لیکن جب عام عوام کے ریلیف یاسرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی کوئی بات آتی ہے توپھران کی خشک کھوپریوں سے ایسے ایسے سلیب،منصوبے،پالیسیاں اورطریقے نمودارہوتے ہیں کہ الامان والحفیظ۔نئے نئے سلیب،پالیسیوں اورطریقوں پرکاعذکالے کرنے والے ان چمچوں اورنمونوں نے نہ صرف خیبرپختونخوابلکہ اس پورے ملک کابیڑہ غرق کرکے رکھ دیاہے۔یہ پہلے بھی عوام کے دشمن تھے اوریہ آج بھی عام لوگوں کے دشمن ہیں۔ایسے ظالموں کے ہوتے ہوئے اس ملک میں عام عوام کی تقدیرنہیں بدل سکتی۔اپنے پاؤگوشت کے لئے انہوں نے کل بھی عوام کی پوری بھینس ذبح کی اوریہ آج بھی عوام کے حصے کانوالہ ہڑپ کرنے کے لئے ہرجگہ تیاربیٹھے ہیں۔عجیب وغریب پالیسیاں،منصوبے اورطریقے یہ ایجادکرتے ہیں لیکن لوگ برابھلاپھرحکمرانوں اورسیاستدانوں کوکہتے ہیں،ان لوگوں کواللہ کااورقبرحشرکاذرہ بھی کوئی خوف نہیں۔اس لئے تویہ ایسی حرکتیں کررہے ہیں،مٹھی بھران لوگوں نے اپنی اوچھی حرکتوں اورشیطانی ذہن سے نہ صرف سرکاری ملازمین بلکہ چوبیس کروڑعوام کاجیناحرام کررکھاہے۔ایسے ظالموں سے اللہ ہی اس ملک وقوم کی حفاظت فرمائے۔آمین ثم آمین

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں