Skip to content

سوات سانحہ۔۔حادثہ نہیں قتل

شیئر

شیئر

عمرخان جوزوی

دریاکے کنارے بھوک سے مرنے والے کتے کے بارے میں اگرخلیفہ وقت سے پوچھ ہوگی توکیادریاکے کنارے حکمرانوں کی غفلت اورلاپرواہی کے باعث مرنے والے ایک نہیں سترہ قیمتی انسانوں کے بارے میں کسی سے پوچھ نہیں ہوگی۔؟انسان یہ تواشرف المخلوقات ہیں۔ایک انسان کے قتل کواللہ نے پوری انسانیت کاقتل قراردیاہے۔ایک کتے کے مرنے پراگرخلیفہ وقت سے سوال کاامکان ہے توکیاپوری انسانیت کے قتل پربادشاہ خیبرسے کوئی سوال اورکوئی پوچھ نہیں ہوگی۔؟سانحہ سوات یہ حادثہ نہیں بلکہ یہ سترہ افرادکاوہ قتل ہے جس کاجواب ریسکیوانچارج سے لیکراسسٹنٹ کمشنرتک،کمشنرسے ڈپٹی کمشنرتک اورچیف سیکرٹری سے لیکرخیبرپختونخواکے وزیراعلیٰ اوروزیراعظم تک سب کودیناہوگا۔دریائے سوات کی تیزلہروں اورموجوں میں بے بسی کی تصویربن کرپتوں کی طرح بہنے والے ڈسکہ کے بدقسمت اورغریب خاندان نے دنیاسے جاتے جاتے خیبرپختونخواحکومت کی انسانیت سے محبت کے جھوٹے دعوؤں اوروعدوں کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔پنجاب اورخیبرپختونخواسمیت ملک کے دیگرحصوں اورعلاقوں میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی محنت اورکوششوں سے بننے والی شاہراہوں،پل اورموٹرویزسے جھیلس ہوکرتحریک انصاف کے بڑے کہاکرتے تھے کہ ہم پلوں اورشاہراہوں پرنہیں انسانوں پرپیسہ لگائیں گے۔کیا انسانوں پرپیسہ لگانایہ ہے کہ اٹھارہ افراددریاکے درمیان گھنٹے تک چیختے،چلاتے رہے اورانسانوں پرپیسہ لگانے والوں کاکوئی بندہ ان کے پاس نہیں آیا۔خیبرپختونخوامیں تیرہ سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ان تیرہ سالوں میں یہاں کے حکمرانوں نے انسانوں پرجوپیسہ لگایاہے وہ پوری دنیاکے سامنے ہے۔سوات سانحے کے بعدتواب یہ یقین پختہ ہوگیاہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت کاانسان اورانسانیت سے کوئی لینادینانہیں۔دریاکے درمیان پھنسنے والے اٹھارہ انسانوں کی چیخوں،آہوں اورسسکیوں کاجن پرذرہ بھی اثرنہ ہوان کے بارے میں کیسے کہاجاسکتاہے کہ انہیں انسانیت سے کوئی پیاریاکوئی لینادیناہے۔انسانیت سے محبت کرنے والے توایک انسان کی پکارپربھی پھرمشرق سے مغرب اورشمال سے جنوب تک پہنچ جاتے ہیں اوریہ سوات تک نہیں پہنچے۔سوات میں ہونے والے اس ظلم کوحادثے کانام دے کرحکمران اپنے گناہوں کودھونہیں سکتے۔یہ حادثہ نہیں سترہ قیمتی انسانوں کاوہ اجتماعی قتل ہے جس کاجواب یہاں نہیں تواس جہان کے اندرہرحال میں ہمارے ان حکمرانوں کودیناہوگا۔سننے میں آرہاہے کہ دریامیں پھنسنے والے وہ لوگ ایک گھنٹے تک بچاؤ،بچاؤکی دہائیاں دیتے رہے اگرایساہی ہے توایک گھنٹہ یہ کوئی کم ٹائم نہیں۔جن حکمرانوں کورعایاکااحساس اورخیال ہو۔جن کے دلوں میں انسانیت کی قدراوردردہو۔وہ لوگ پھرگھنٹہ نہیں پانچ دس منٹ میں بھی زمین وآسمان اوپرنیچے کرلیتے ہیں۔ہمارے ان حکمرانوں کی طرح جن کوانسانیت اوررعایاکی کوئی فکر،خبراورکوئی پرواہ نہ ہوان کے سامنے ایک گھنٹہ نہیں ایک سال بھی کوئی آہیں اورسسکیاں بھرکرچیختاوچلاتارہے ان پراس کاکوئی اثرنہیں پڑتا۔سانحہ سوات خداکرے کہ یہ آخری غم ہولیکن یہ کوئی پہلاواقعہ بھی نہیں اس سے پہلے کوہستان کے اندربھی اسی طرح کئی لوگ پانی کے درمیان پھنس گئے تھے وہ بھی کافی ٹائم تک امداداوربچاؤکے لئے چیختے وچلاتے رہے لیکن آخرمیں وہ بھی صوبائی حکومت کی غفلت،لاپرواہی اوربے حسی پرآنسوبہاتے ہوئے اس دنیاسے رخصت ہوئے۔باہرکے حکمران اپنی رعایاکے لئے جان کی بازی تک لگادیتے ہیں مگرہمارے حکمرانوں کوجھوٹے دعوے کرنے،بڑھکیں مارنے اورایک دوسرے کوگالیاں دینے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔سترہ افرادکااس طرح آنکھوں کے سامنے دریامیں بہہ کرموت کے منہ میں چلا جانایہ کوئی چھوٹی اورمعمولی بات نہیں۔ایساواقعہ اگرباہرکے کسی ملک میں ہوتاتووہاں پوری ریاست حرکت میں آتی۔ہیلی کاپٹرکیا۔؟وہاں پھرسارے وسائل ان لوگوں کوبچانے پرلگادیئے جاتے پرافسوس یہاں اٹھارہ افرادایک گھنٹے تک دہائیاں دیتے رہے۔حکمرانوں کوپکارتے اوربلاتے رہے مگرافسوس ان کی یہ دہائیاں اورآوازیں نہ تخت پشاورسے ٹکراسکیں اورنہ ہی اسلام آبادتک پہنچ سکیں۔جولوگ سترہ افرادکوپانی سے بچانہیں سکے وہ ہزاروں ولاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں کوسیلاب،مہنگائی،غربت اوربیروزگاری سے کیاخاک بچائیں گے۔؟خیبرپختونخواکوپیرس بنانے کے دعوے کرنے والوں کے پاس کیااتنے بھی وسائل نہیں کہ یہ ناگہانی آفات،حادثات اوراس طرح کے واقعات میں پندرہ بیس انسانوں کوبچاسکیں۔حکومتی وزیروں اورمشیروں کے لئے توہیلی کاپٹرتیارکھڑے ہوتے ہیں کیاصوبے میں ایساکوئی ہیلی کاپٹرنہیں جواس طرح کے حالات میں عوام کے زخموں پرمرہم رکھنے کے لئے ہوامیں ایک اڑان ہی بھرلے۔عوام کی جان ومال کی حفاظت یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ریاست کوویسے ماں کانام نہیں دیاجاتا۔ریاست کاکام ہی ماں والاہے۔ماں توایک بچے کوبچانے کے لئے بھی آسمان سرپراٹھالیتی ہے۔پھریہ کیسی حکومت اورکیسی ماں ہے کہ جواپنے سترہ بچوں کے لئے بھی حرکت میں نہیں آئی۔سانحہ سوات یہ حادثہ نہیں یہ ہمارے منہ پروہ طمانچہ ہے جس کی چھاپ وداغ اب ہم اپنے ماتھے سے کبھی دھونہیں سکیں گے۔دریامیں بہنے والے ان سترہ افرادکاخون ہمارے سرپرہے۔اس دنیامیں ہویااگلی جہان میں اس ناحق اوربے گناہ خون کاجواب ہرحال میں ہمیں دیناہوگا۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں