Skip to content

رٹا سسٹم کی نئی شکلیں : روشن خیالی، ایلیٹ تعلیم اور نقالی

شیئر

شیئر

وحید مراد

رٹا سسٹم سے مراد عام طور پر وہ عمل لیا جاتا ہے جس میں معلومات کو بغیر سمجھے، بغیر تنقیدی جائزے اور بغیر عملی اطلاق کے محض یاد کیا جاتا ہے۔ روایتی طور پر یہ تصور مذہبی مدارس، سرکاری تعلیمی اداروں اور قدامت پسند ماحول سے منسلک سمجھا جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ اس کی شکلیں بدل گئی ہیں۔ آج کی دنیا میں بھی رٹا سسٹم ختم نہیں ہوا بلکہ اس نے نیا روپ اختیار کر لیا ہے۔ اب یہ ایلیٹ تعلیمی اداروں، مغربی نقالی، اور مختلف نظریات جیسے لبرل ازم،سائنٹزم، فیمینزم، انسانی حقوق اور صنفی مساوات کے نعروں کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے۔

لوگ ان نظریات کو فیشن کے طور پر اپناتے ہیں بغیر یہ سمجھے کہ ان کا اصل مفہوم، تاریخی پس منظر اور معاشرتی و فکری نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟ ان نظریات کو اس طرح دہراتے ہیں جیسے امتحان کی تیاری میں سبق یاد کیا جاتا ہے ۔ نعرہ یاد ہے، مفہوم کی کوئی خبر نہیں۔ یہ لوگ رٹا سسٹم کی مذہبی یا روایتی شکلوں پر تنقید کرتے ہیں لیکن اکثر خود اس کی جدید شکلوں میں جکڑے ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر جنوبی ایشیا کا وہ امیر طبقہ جو اپنے بچوں کو مہنگے انگلش میڈیم یا کیمبرج اسکولز میں بھیج کر فخر محسوس کرتا ہے۔ ان اسکولوں کی فیسیں حیران کن حد تک زیادہ ہوتی ہیں۔ ماہانہ 50 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک اور داخلے کی فیس پانچ لاکھ تک۔ یومیہ ٹرانسپورٹ، لنچ، ڈرائیور، اور دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ بیشتر بچے 3 سے 5 مضامین کی ٹیوشن بھی لیتے ہیں جن کی مجموعی لاگت ماہانہ 50 ہزار سے زائد بنتی ہے۔ کیمبرج کے امتحانات کے لیے بیس پرچے ہوتے ہیں جن کی مجموعی فیس تین لاکھ روپے تک پہنچتی ہے۔ گویا یہ والدین ہر لفظ، ہر فارمولا اور ہر سطر کے بدلے سینکڑوں روپے ادا کر رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی ایلیٹ طبقہ جو مغربی نقالی اور مہنگی تعلیم پر اندھا دھند خرچ کر رہا ہے جب اپنی آمدن، کاروبار یا پیشہ ورانہ زندگی کی بات آتی ہے تو نہایت ذہین، حساب دان اور موقع شناس بن جاتا ہے۔ یہ لوگ بڑے کاروباری، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشہ ور ماہرین ہوتے ہیں۔ ہر دن لاکھوں روپے کمانے والے یہ افراد ہر کاروباری فیصلوں پر گھنٹوں غور کرتے ہیں، لاگت کم کرنے کے طریقے نکالتے ہیں، منافع بڑھانے کی حکمت عملی بناتے ہیں، اپنے ملازمین سے مکمل فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے حریفوں کے ساتھ چالاکیوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔

کاروبار اور پروفیشنل لائف میں ان کا رویہ کسی طور پر بھی رٹا لگانے والا نہیں ہوتا بلکہ مکمل تجزیاتی اور سٹریٹیجک ہوتا ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر فیشن، طرزِ زندگی یا بچوں کی تعلیم جیسے معاملات میں تو گویا ان کی تجزیاتی صلاحیتیں معطل ہو جاتی ہیں۔ وہ بغیر کسی سوال کے مہنگی اشیاء خریدتے ہیں، نقالی پر مبنی رویے اختیار کرتے ہیں اور مغربی تہذیب کے نمائشی پہلوؤں پر بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ وہ نہ خود سے سوال کرتے ہیں کہ اس خرچ کا کوئی فائدہ بھی ہے یا نہیں نہ ہی بچوں کے تعلیمی نتائج اور ذہنی نشوونما کا تجزیہ کرتے ہیں۔

یہ رویہ بالکل اسی رٹا لگانے والے طالبعلم جیسا ہے جو محض نمبر لینے کے لیے سبق رٹتا ہے یہ سوچے بغیر کہ اس کا مفہوم کیا ہے۔اور نتیجہ؟ ایک پرنٹ شدہ سند۔ ایک کاغذ کا ٹکڑا۔ ایک ایسا سرٹیفکیٹ جس کی معلومات کا 70 فیصد حصہ بچے ایک سال کے اندر بھول جاتے ہیں۔ یہ نہ تنقیدی سوچ کی تربیت ہے اور نہ ہی تخلیقی ذہن کی نشوونما ۔ یہ محض سماجی فیشن اور طبقاتی شناخت کی نمائش ہے۔

اسی طبقے کی اکثریت کاروباری دوروں، چھٹیوں یا مستقل قیام کے لیے یورپ اور امریکہ جاتی ہے۔ لیکن ان کا مغرب سے تعلق صرف مصنوعات، فیشن، برانڈز اور بیرونی چمک دمک تک محدود ہے۔ وہ مغرب کی اصل قدریں جیسے انسانی حقوق، فلاحی ریاست کا تصور، عقلی استدلال، قانون کی حکمرانی، انفرادی آزادی، ثبوت پر مبنی پالیسی سازی اور علمی انکساری کو نہ اپناتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں۔ وہ صرف مغربی جسم کو اپناتے ہیں روح کو نہیں۔ اور یہ بھی رٹا لگانے کی ہی ایک شکل ہے۔

یہی نقالی انسانی حقوق، صنفی مساوات اور فیمینزم کے نعروں میں بھی نظر آتی ہے۔ اپنے معاشرتی مسائل سے بے خبر اکثر مقامی کارکنان مغرب کے نعرے دہراتے ہیں۔ ان کا عمل نمائشی، سطحی اور فکر سے خالی ہوتا ہے۔ گویا کسی اور کی زبان بول رہے ہوں اپنے دل کی نہیں۔ یہ نعرے مغرب کی خاص تاریخ اور سیاق و سباق سے جڑے ہیں مگرجنوبی ایشیا میں یہ بغیر سمجھے دہرائے جاتے ہیں۔ محض نقل نہ روشن خیالی ہے نہ تبدیلی لا سکتی ہے۔حقیقی روشن خیالی یہ ہے کہ اپنے لوگوں کو سمجھا جائے،ان کی ضروریات اور مسائل پر تحقیق کی جائے۔ اصلاح تب ہی ممکن ہے جب بات تناظر، حل اور مقامی ضرورت کے مطابق ہو۔

رٹا سسٹم کی ایک خطرناک شکل قوم پرستی کے بیانیوں میں بھی نمایاں ہے جہاں عوام کو شعور، تنقید اور مکالمے سے دور رکھ کر کچھ مخصوص نعرے، جذباتی جملے اور تاریخی مغالطے ازبر کرا دیے جاتے ہیں۔ ان تحریکوں کا مقصد اکثر حقیقی سماجی مسائل جیسے غربت، تعلیم ، معاشی جبر اور محرومی سے توجہ ہٹانا ہوتا ہے۔ قومی شناخت کے نام پر تعصب، نفرت اور تقسیم کو فروغ دیا جاتا ہے۔یہ سب محض رٹا ہے فخر کالبادہ اوڑھے ہوئے۔ ایسے بیانیے حقیقی تبدیلی نہیں لاتے بلکہ فکری جمود کو مضبوط کرتے ہیں اور نوجوانوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑتے کہ وہ دنیا کو ایک منصفانہ اور بامعنی نگاہ سے دیکھ سکیں۔

آج کل الحاد اور سائنٹزم کے دعوے بھی رٹے بازی کی جدید شکلیں ہیں۔ وہ افراد جو تعلیم کے ذریعے تخلیق یا انسانی خدمت کی راہ اختیار نہیں کر پاتے وہ اکثر ردِّ عمل کے انکاری رویوں میں خود کو چھپا لیتے ہیں۔ خدا کا انکار اصل میں خودشناسی، احسان مندی اور عاجزی سے فرار ہوتا ہے۔ یہ رویہ تحقیق یا سچ کی تلاش سے زیادہ اپنے وجود کو دوسروں پر مسلط کرنے اور ممتاز دکھائی دینے کی ایک چال ہے۔ انا کا یہ دہرا کھیل ایسا نفسیاتی رٹا ہے جو دلیل اور سوال کی آڑ میں دلوں کو زخمی کرتا ہے اور خود کو ہی مرکزِ علم و عقل سمجھتا ہے۔

سائنس، اگرچہ تنقیدی سوچ کا علمبردار ہے مگر یہاں بھی ذاتی مفاد، گروہی تعصب اور علمی گھمنڈ اکثرغالب آ جاتا ہے۔ جب تنقید، سوال اور تجزیہ صرف سائنسی یا تکنیکی دائرے تک محدود رہ جائے اور سماجی و اخلاقی سطح پر انسان تعصب، ضد اور خودفریبی سے آزاد نہ ہو تو وہ علم کا سچا متلاشی نہیں بلکہ ایک ملبوس خود پرست بن جاتا ہے۔ مخلص محقق وہ ہوتا ہے جو سچائی کو اپنی ذات، نظریے، مقام یا شناخت سے بالاتر ہو کر قبول کرے۔ وہ نہ صرف علمی سطح پر غیر جانب دار ہوتا ہے بلکہ سماجی اور روحانی سطح پر بھی سچ کے سامنے جھکنے کی جرأت رکھتا ہے۔ اگر کوئی انسان بظاہر سائنسی، تجزیاتی یا لبرل ہو مگر اندر سے اپنے تعصبات اور مفادات کا اسیر ہو تو وہ محض الفاظ کا جادوگر ہے، سچائی کا مخلص سالک نہیں۔ شناخت اگر علم، عقل اور سچائی کی راہ میں دیوار بن جائے تو وہ علم نہیں، محض انا کا پردہ ہے۔ اور یہی وہ رٹا ہے جو صرف الفاظ بدلتا ہے، زاویہ نہیں۔

یہ تمام باتیں اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ تعلیم اور شعور کا اصل مسئلہ وسائل یا معلومات کی مقدار نہیں، بلکہ نیت، ترجیحات اور سمت کا ہے۔ چاہے رٹا مذہبی شکل میں ہو، روشن خیالی کے لبادے میں چھپا ہو، سائنس کی آڑ میں ہو یا سائنٹزم اور الحاد کی جدید شکلوں میں ظاہر ہو۔ جب تک تعلیم کا مقصد سچ کی تلاش کے بجائے صرف برتری، انا یا گروہی تفوق رہتا ہے وہ اصل تعلیم نہیں بن سکتی۔

سوال اب بھی وہی ہے کہ ہم اصل تعلیم کو اس گمراہ کن رٹے سے کیسے الگ کریں؟ سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اپنے مسئلے کو پہچانیں اور اس کا اعتراف کریں۔ جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ہمارا تعلیمی نظام نقالی، سطحیت اور جعلی وقار پر قائم ہے، ہم کسی بہتری کی طرف بڑھ ہی نہیں سکتے۔

مزید یہ کہ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ صرف بین الاقوامی اداروں کے تجویز کردہ تعلیمی ماڈلز اور فریم ورک ہمارے مسائل کا حل نہیں۔ کیونکہ یہ اکثر ہمارے مقامی، سماجی، روحانی اور تہذیبی تناظر سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس لیے ہمیں اپنی بنیادوں پر سوچنا ہوگا، اپنے تجربات سے سیکھنا ہوگا اور اپنی فکری خودمختاری بحال کرنی ہوگی۔

ہمیں اپنی ترجیحات ازسرنو متعین کرنی ہیں۔ تعلیم کو محض روزگار، سماجی مقام، یا سند کے حصول کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے، سچ، فہم، باہمی احترام اور انسانی بھلائی کا راستہ سمجھنا ہوگا۔ جب تک ہم علم کو دل، ضمیر اور کردار سے جوڑنے کے بجائے صرف چمک دمک اور ظاہری کامیابی سے جوڑتے رہیں گے ہم صرف جدید انداز میں رٹا لگانے والے ہی رہیں گے۔ خواہ لباس، زبان اور نظریات کتنے ہی ترقی پسند یا مہذب کیوں نہ دکھائی دیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں