Skip to content

”کیا یہ دور ذہانت کا ہے؟“

شیئر

شیئر

ندا اسحاق

چونکہ ہم ایسی مخلوق ہیں جس پر ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے اس لیے ہم انسانوں کے لیے دور کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ آج سے پہلے کا دور (ہنٹر گیدرر اور ذراعت کا وقت) جسمانی محنت کا تھا۔ انسان کا جسم ہی اسکا سرمایہ تھا۔ جو جسمانی طور پر جتنا طاقتور ہوتا اتنا ہی اس کے لیے مواقع ہوتے۔ پھر جب سائنس نے ترقی کی اور مشینیں بنیں تو انسان کی ذہانت (intelligence) کی قدروقیمت اس کی جسمانی طاقت پر سبقت لے گئی۔ انیسویں، بیسویں اور اکیسویں صدی تک پہنچتے یوں کہیے کہ انسان نے اپنی ذہانت کو بھرپور استعمال کیا اور اب بات یہاں تک آپہنچی ہے کہ مصنوعی ذہانت (artificial intelligence) کے سامنے انسانوں کی ذہانت کی زیادہ قدر نہیں (محض انوکھے اور انقلابی آئیڈیاز کی ہی قدر کی جائے گی)۔ اب علم ہونا، نالج ہونا یا ذہانت ہونا کوئی بڑی بات نہیں رہی۔

ہم انسانیت کے اس دور میں پہنچ چکے ہیں جہاں ”چِت“ جو کہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور اسکا مطلب ہوتا ہے ”احساسات/نیت“ (feelings/intention) اہمیت رکھے گی۔ آپ کے کسی بھی عمل، بات اور سوچ کی گہرائی میں کیا احساسات اور نیت ہے۔ حدیث ’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے‘ کا اصل عملی جلوہ آپ آنے والے وقت میں دیکھیں گے۔ آپ کی نیت اور احساسات ہی آپ کو اپنے کام کو بہتر طور پر انجام دینے میں مدد کرسکتے ہیں۔

جذبات اور احساسات کا علم ہونا اس دور میں نہایت اہم ہے، کیونکہ سرمایہ دار ہوں یا سیاست دان سب نے انسانوں کے دماغ کے جذبات والے ایلگوریتھم کو ٹارگٹ کیا ہوا ہوتا ہے۔ لوگ اپنی ذات اور جذبات کوسمجھنے کے لیے مذہب کا سہارا لیتے ہیں اور یقیناً مذہب میں اتنی طاقت ہے کہ وہ آپ کو سہارا دے سکے لیکن اس کے ساتھ نفسیات کا علم شامل کرنا بہت اہم ہے کیونکہ مذہب معروضی ہے جبکہ نفسیات موضوعی اور انفرادیت کو مدِ نظر رکھ کر آپ کی انفرادی شخصیت اور مسائل کو سمجھتی ہے۔ مثال کے طور پر مذہب آپ کو صرف یہ بتاسکتا ہے کہ غصہ حرام ہے جو کہ یقیناً درست بات ہے، لیکن مذہب آپ کو آپ کے غصے کی جڑ میں نہیں لے کر جاتا، مذہب آپ کو یہ نہیں سمجھا پاتا کہ کیوں اور کس صورت میں حرام ہے، کیونکہ کچھ جگہوں پر جارحیت یا غصے کا اظہار کرنا غلط نہیں۔ ٹروما یا تلخ تجربات کی وجہ سے غصہ اور جارحیت کا اظہار کرنے اور ناانصافی کے رویہ پر اپنے غصہ کا اظہار کرنے میں یقیناً فرق ہے، جو غصہ آپ کے ساتھ کسی کی ناانصافی سے سطح پر آئے وہ غلط نہیں اسے ہم ”بائیو فیڈ بیک“ کہتے ہیں جو آپ کو یہ بتاتا ہے کہ اس وقت آپ کے ساتھ غلط ہورہا ہے۔ مذہب یقیناً معروضی ہونے کی وجہ سے اتنی گہرائی میں نہیں جاسکتا، اس لیے میں آپ کو نفسیات کو سمجھنے کی تلقین کروں گی، تاکہ آپ اپنے ٹروما سے ملنے والی بے فضول کی جارحیت اور حقیقی غصے میں فرق کرنا سیکھ سکیں۔ مذہب کے ساتھ نفسیات کو بھی زندگی میں جگہ دینا ایک بہتر عمل ہوسکتا ہے۔

اس نئے دور میں آپ کو اپنے جذبات اور نیت کو سمجھنا ہے تاکہ آپ حقیقت کو فسانہ سے الگ کرسکیں، آپ جان سکیں کہ کیا آپ کی زندگی میں اہم ہے اور کیا محض آپ کے ذہن نے میڈیا، ثقافت/بچپن کے تجربات سے سیکھا ہے۔ آپ کوئی کام کیوں کررہے ہیں؟ آپ اس کام سے کیا چاہتے ہیں؟ آپ کی نیت کیا ہے؟ آپ کے کونسے جذبات جڑے ہیں اس کام/انسان سے؟ یہ سب جاننے کے لیے گہرائی میں جانا ہوتا ہے، جہاں آپ بنا کسی ججمنٹ کے دیکھتے ہیں کہ آپ کی چاہ کیا ہے۔ آپ کی نیت کیا ہے۔

مثال کے طور پر میرے ایک کلائنٹ کو دو سال کا عرصہ لگا یہ جاننے میں کہ وہ چاہتے کیا ہیں، کیونکہ وہ جب بھی اپنی حقیقی نیت اور خواہش پر جانے لگتے تو ایک دم سے انکار کرتے کہ یہ غلط ہے اور میں یہ سب چاہ بھی کیسے سکتا ہوں، میں برا انسان ہوں۔ نیت کو صحیح غلط میں تقسیم کرنے کا عمل بعد میں تشکیل پاتا ہے، پہلے کو آپ کو محض ان جذبات اور نیت کو جاننا ہوتا ہے جو گہرائی میں ہوتی ہے۔ آپ نے جان لیا، قبول کرلیا، پھر آپ فیصلہ کرپاتے ہیں کہ آپ نے اس نیت کو بدلنا ہے یا نہیں۔

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہم جو بھی کررہے ہیں انسانیت کی بھلائی کے لیے ہے، لیکن جب میں انکی شخصیت کا جائزہ لیتی ہوں ان سے بات کرتی ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ گہرائی میں کچھ اور پنپ رہا ہے۔ میں یہی مشق اپنے ساتھ بھی کرتی ہوں کہ اگر میں کوئی کام کرنے والی ہوں تو آخر میں چاہتی کیا ہوں؟ نیت کیا ہے؟ یا پھر مجھے غصہ آرہا ہے تو غور کرتی ہوں حقیقی غصہ ہے یا پھر انا کو ٹھیس پہنچنے کی وجہ سے ہے۔ اسی کو خود-تحقیقات (self-inquiry) کہتے ہیں جس سے آپ کو روزمرہ کی زندگی میں فائدہ ہوتا ہے اور آپ کسی حد تک جذباتی اور غلط فیصلے کرنے سے رک جاتے ہیں۔ آپ کو اپنی ذہنی صحت کو بہتر کرنے کے لیے اپنی نیت اور جذبات کا علم ہونا ضروری ہے۔

انسانوں کی ایک خاص بات بتاتی چلوں کہ ہمارا نروس سسٹم (nervous system) ہماری اجازت/شعور کے بغیر اپنے فعل انجام دیتا ہے، مثال کے طور پر اگر آپ کسی ایسے انسان کو متاثر کرنا چاہ رہے ہیں جو ایک ایسے گھرانے میں پرورش پایا ہے، جہاں صحتمندانہ رویے تھے، تو ایسا انسان آپ کی جانب کشش محسوس نہیں کرے گا، اسکا نروس سسٹم آپ کی مصنوعیت کا پتہ لگا لے گا، اور بنا اس انسان کے شعور میں آئے آپ کے متعلق اسے کچھ عجیب (off) محسوس ہوگا جبکہ اس کے برعکس وہ انسان جو ٹروما یا نرگسیت پسند والدین کے ساتھ رہا ہوگا وہ اس مصنوعیت کی جانب کشش محسوس کرے گا کیونکہ اس کے نروس سسٹم نے یہی دیکھا اور محسوس کیا ساری زندگی، پوری دنیا اس کو کہے گی کہ یہ انسان صحیح نہیں لیکن اس کا نروس سسٹم کہتا ہے کہ ہم اس انسان سے واقفیت (familiarity) رکھتے ہیں، یہی تو صحیح ہے۔ آپ کا نروس سسٹم صحیح اور غلط میں فرق نہیں کرسکتا، اس کے لیے اسکا ”سچ“ اور ”صحیح“ اس کے ”تجربات“ ہوتے ہیں۔

ہم انسانیت کی تاریخ کے ایسے دہانے پر کھڑے ہیں جہاں ایک طرف اے-آئی سے تخلیق کردہ ہر شے حقیقت لگتی ہے جہاں اصلیت اور مصنوعیت میں فرق مدھم پڑتا جارہا ہے، لیکن اسی دور میں انسان بہت اسمارٹ اور آگاہ بھی ہورہے ہیں، ایک طرف لوگوں کو اے-آئی سے بیوقوف بنانا آسان ہوتا جارہا ہے تو دوسری جانب علم اور شعور کی فراوانی انسانوں کو اسمارٹ بھی کررہی ہے، ایک طرف ہمیں رشتوں کی نفسیات اور یہ کہ اچھے رشتے کیسے پنپتے ہیں معلوم ہورہا ہے اور دوسری جانب افیئر اور طلاق کا تناسب بھی بڑھتا جارہا ہے، ایک طرف بچوں کی پرورش پر بیش بہا کتابیں اور کورس موجود ہیں وہیں بچوں کے لیے والدین کے پاس وقت نہیں…… ایسی کئی متضاد صورتِ حال اپنے ارد گرد آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

اس دور میں خود کو جاننا، اپنی نیت، جذبات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اپنے ساتھ وقت گزارا جائے، ہر چیز کو جاننے اور قابو کرنے کی بجائے کائنات کی قوتوں پر بھی کسی حد تک ایمان رکھا جائے۔ زیادہ دماغ چلائیں گے، ہیر پھیر کریں گے تو بہت عرصہ چل نہیں پائیں گے، لوگ اسمارٹ ہورہے ہیں آپ کی ہیر پھیر پکڑ میں آئے گی۔ انسانیت داخل ہورہی ہے روحانیت اور نیت کے دور میں، ہم گہرائی میں جارہے ہیں، امریکن نفسیات دان ابراہم میسلو کے پیش کردہ مخروطی مینار (pyramid ) کے اوپر والے حصے یعنی کہ ”خود-افروزی“ (self-actualisation ) کی جانب بڑھ رہے ہیں، جب انسان کی جسمانی اور مالی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں تبھی وہ ”روحانیت“ (جذبات، معنی خیز زندگی، ذہنی سکون وغیرہ) کی جانب بڑھتا ہے جیسے کہ ہندو-ازم میں دھرما (کام، ڈیوٹی، ذمہ دریاں اخلاقیات)، ارتھا (معاشی، جسمانی ضروریات)، کاما (پلیژر، محبت، نفسیاتی ضروریات) اور آخر میں ”موکشا“ یعنی کے زندگی کا چکر مکمل کرکے آپ روحانیت کی جانب جاتے ہیں، یہی چکر یقیناً انسانیت بھی پورا کرے گی۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں