ڈاکٹر جزبیہ شیریں
پاکستان میں سیاحت کا بڑھتا ہوا رجحان خوش آئند ہے، خاص طور پر جب پنجاب کے لوگ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان جیسے دلکش علاقوں کی طرف رخ کرتے ہیں۔ مگر ایک المیہ دیکھنے میں آ رہا ہے: بہت سے سیاح خاص طور پرپنجاب کے لوگ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان جیسے دلکش علاقوں کی ثقافت، ماحول اور موسمی حالات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ یہ بنیادی معلومات نظرانداز ہوتی ہیں، نتیجتاً حادثات ہوتے ہیں، جانیں جاتی ہیں، اور مقامی ثقافت کے ساتھ بے احترامی بھی ہوتی ہے۔
میرا مشاہدہ ہے کہ جب پنجاب سے سیاح شمالی علاقوں کا رخ کرتے ہیں، تو وہ وہاں کی ثقافت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہر خطے کی اپنی روایات، لباس، زبان اور کھانے پینے کے طور طریقے ہوتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے ساتھ ادب سے پیش آنا، ان کے رسم و رواج کا احترام کرنا، یہ سب سیاحت کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ مگر اکثر سیاح ان تفصیلات کو جانے بغیر وہاں پہنچ جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں نادانستہ طور پر بے ادبی ہو جاتی ہے۔
موسم کا معاملہ تو اور بھی سنگین ہے۔ پہاڑی علاقوں میں دن میں تین بار موسم بدل سکتا ہے۔ اچانک بارش، سیلاب یا برفباری سیاحوں کو گھیر لیتی ہے۔ اگر وہ پہلے سے موسمی حالات سے آگاہ ہوں، گرم کپڑے، پانی اور خوراک کا بندوبست رکھیں، تو بہت سی مشکلات سے بچ سکتے ہیں۔ مگر افسوس، اکثر لوگ موبائل فون کی بیٹری چیک کرنے جتنی توجہ بھی موسم کی پیشگی معلومات پر نہیں دیتے۔
اور پھر وہ المناک "سیلفی کلچر”۔ پاکستان کے پہاڑ، جھیلیں اور گلیشیئر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، صرف کیمرے کے شٹر میں قید کرنے کے لیے نہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ لوگ گلیشیئر کے نیچے، دریا کے کنارے یا کھائی کے دہانے پر کھڑے ہو کر سیلفیاں لیتے ہیں۔ ایک لمحے کی لاپرواہی زندگی بھر کا المیہ بن جاتی ہے۔ یہ نہ صرف اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی خطرہ پیدا کرتا ہے۔
حالیہ مہینوں میں جو کچھ ہوا، وہ دل دہلا دینے والا ہے۔ سوات میں پنجاب کے 15 سیاح دریا کے قریب سیلفیاں بناتے ہوئے سیلابی ریلے کا شکار ہو گئے۔ ان میں بچے بھی تھے۔ حیرت کی بات یہ کہ سیلاب کا الرٹ پہلے ہی جاری کیا جا چکا تھا، مگر انہوں نے اسے نظرانداز کر دیا۔ جب پانی کی شدت بڑھی تو وہ چٹانوں پر چڑھ کر رک گئے، بجائے اس کے کہ کنارے کی طرف بھاگتے۔ پانی نے ان سب کو بہا لیا۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں۔ 3 مئی کو لوئر کوہستان میں راولپنڈی کے ایک خاندان کی گاڑی گہری کھائی میں گر گئی۔ آٹھ افراد جاں بحق ہوئے۔ وجہ؟ گاڑی میں گنجائش سے زیادہ مسافر تھے اور پہاڑی راستوں پر چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ گلگت بلتستان میں گجرات کے چار نوجوان دوست رات کے وقت تھکے ہارے پہاڑی سڑک پر گاڑی چلا رہے تھے۔ وہ لاپتہ ہو گئے۔ دس دن بعد ان کی لاشیں اور گاڑی ایک کھائی میں ملیں۔
28 مئی کو بونیر کی مارٹونگ وادی میں لاہور کا ایک خاندان گاڑی سمیت کھائی میں جا گرا۔ ماں اور اس کے جوان بیٹے ہلاک ہو گئے۔ وجہ؟ پہاڑوں پر ڈرائیونگ سے ناواقفیت۔ 20 جون کو ناران کے قریب تین سیاح (باپ، بیٹا اور کزن) گلیشیئر کے نیچے تصویریں کھنچواتے ہوئے برفانی تودے کے نیچے آ گئے۔ اسی دوران کالام میں کشتی الٹنے سے ایک ہی خاندان کے دس افراد دریا میں ڈوب گئے۔ پانچ کی لاشیں ملیں، جن میں تین معصوم بچے بھی شامل تھے۔ وجہ؟ کشتی کا انجن خراب تھا اور کوئی لائف جیکٹ نہیں پہن رکھی تھی۔
یہ المیے دو باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پہلی یہ کہ سیاح خود اپنی جانوں کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔ ثقافت، موسم اور جغرافیائی خطرات کو سمجھے بغیر سفر کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ دوسری طرف، حکومت کی ناکامی بھی عیاں ہے۔ جن علاقوں میں قدرتی آفات کا خطرہ ہو، وہاں حفاظتی باڑیں، وارننگ بورڈز، لائف جیکٹس اور ریسکیو ٹیموں کا ہونا ضروری ہے۔ خطرناک مقامات پر سیاحت کو عارضی طور پر بند کرنا بھی ضروری ہو سکتا ہے۔
میں تمام سیاحوں سے گزارش کروں گی کہ شمالی علاقے پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں، مگر ان کا احترام کریں۔ سفر سے پہلے مقامی ثقافت، موسم اور خطرناک مقامات کے بارے میں تحقیق کریں۔ سیلفی کے لیے زندگی داؤ پر نہ لگائیں۔ حکومت سے میری اپیل ہے کہ وہ سیاحتی حادثات کو قومی ایمرجنسی قرار دے۔ ہر سیاحتی مقام پر حفاظتی اقدامات یقینی بنائے، خصوصاً دریا، گلیشیئرز اور کھائیوں کے قریب۔
آخر میں، میں ان تمام خاندانوں کے دکھ کا احترام کرتے ہوئے کہوں گی کہ زندگی ایک بار ملتی ہے۔ خوبصورت مناظر آنکھوں میں بسا کر واپس آئیے، موت کو گلے لگا کر نہیں۔ ہم سب مل کر اس المیے کو روک سکتے ہیں۔ بس تھوڑی سی احتیاط، تھوڑی سی معلومات، اور قدرتی قوتوں کے سامنے عاجزی اختیار کرنے کی عادت ڈال لیجیے۔ یہ سرزمین ہمیشہ سے مہمان نواز رہی ہے، مہربانی فرما کر اس کی مہمانی کو اپنی بے احتیاطی سے ماتم میں نہ بدلیں۔