وحید مراد
آج مسلم معاشرہ جس فکری جمود، مذہبی منافرت اور شدید عدم برداشت کا شکار ہے اس کی جڑیں صرف فرقہ وارانہ تقسیم یا سیاسی حالات میں نہیں بلکہ اس سوچ اور نظامِ تعلیم میں ہیں جو رٹا کلچر کے گرد گھومتا ہے۔ یہ وہ طرزِ تعلیم ہے جو انسان کو حریت فکر، تنقیدی شعور اور وسیع النظر رویے سے محروم کر دیتا ہے۔ جب ہر فرقہ یا گروہ اپنے محدود زاویۂ نظر کو حتمی سچائی سمجھ کر دوسروں کے لیے سوچنے اور اختلاف کرنے کی گنجائش ختم کر دیتا ہے تو معاشرہ سخت گیر رویوں اور بانجھ پن کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسے معاشروں میں سوالات ناپسندیدہ اور مکالمہ ممنوع ہو جاتا ہے۔ علم وہی ہے جو غور و فکر کو جنم دے، تنوع کو قبول کرے، اخلاقی تربیت کرے اور انسانوں کو قریب لائے۔ مخصوص تشریحات کی بے سمجھی تکرار، بغیر تحقیق کے قبولیت اور جبری نفاذ تعلیم نہیں بلکہ ذہنی قید ہے۔
یہ واضح رہے کہ قرآن و حدیث، ذکرواذکار، دینی متون کی تعلیم اور حفظ و تلاوت دین کا اصل نور اور روحانی اعمال ہیں جو ہر مسلمان کے دل سے جُڑے ہیں۔ یہ امت مسلمہ کا وہ ورثہ ہے جو سب کوعزیز ہے اور اس پر کسی اعتراض کی گنجائش موجود نہیں۔ اصل مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں مقدس متون کو مخصوص گروہی، مسلکی یا سیاسی مفادات کے تحت ایک محدود اور جابرانہ تعبیر میں قید کر دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ دین کی اصل روح یعنی وسعت، برداشت، صبر، حلم اور حکمت کے خلاف ہے۔ قرآن مجید اور سنتِ نبویؐ نے ہمیں غور و فکر، مشورہ، نرمی اور علم کے ساتھ بلانے کی دعوت دی ہے نہ کہ سختی، جبر اور الزام تراشی کے ساتھ۔
امتِ مسلمہ کو قدرت نے مختلف ذہنی، لسانی، فقہی اور فکری رنگ عطا کیے تاکہ علم کے تنوع سے وسعت پیدا ہو لیکن ہم نے ان اختلافات کو دشمنی، تکفیر اور مسلکی غرور کی بنیاد بنا لیا۔ آج ہر فرقہ اپنے مخصوص علما، مخصوص تعبیرات، مخصوص متون اور مخصوص اندازِ فکر کو دین کی اصل سمجھتا ہے اور باقی سب کو گمراہ یا دشمن۔ اس رویے نے دین کو علم و اخلاق کی دعوت سے نکال کر سخت گیر نعرہ بازی اور اندھی وفاداری کا کھیل بنا دیا ہے۔
قرآن مجید بار بار تدبر، تفکر اور تعقل کی دعوت دیتا ہے کیونکہ انسان کی فطرت سوال، تحقیق، تجزیہ، اختلاف اور مکالمے پر استوار ہوتی ہے۔ جب کہ رٹا کلچر اس فطرت کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کئی اسلامی ممالک میں نہ مکالمے کی روایت زندہ ہے، نہ نئی فکر پیدا ہو رہی ہے، نہ نرم زبان میں دین کی تعبیر کی کوشش۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہم نے دینی تعلیم کو ایسے سانچوں میں قید کر دیا ہے جہاں اختلاف، اجتہاد، تحقیق اور تخلیق جرم بن چکے ہیں۔ نتیجتاً نہ دین کی روح کو سمجھا جا رہا ہے نہ معاشرے میں کوئی فکری مکالمہ پنپ رہا ہے۔
اس تناظر میں "وسعتِ مشربی” وہ فکری رویہ ہے جو نہ صرف حقیقی تعلیم بلکہ روحانی بالیدگی اور دینی فہم کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ رویہ انسان کو صرف سننے یا برداشت کرنے کی نہیں بلکہ دوسروں کے زاویۂ نظر کو عزت دینے کی بھی ترغیب دیتا ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو صوفیائے کرام کے کردار، شاعری اور تعلیمات میں نظر آتی ہے۔ صوفیائے کرام کا پیغام محض خانقاہی رسومات نہیں بلکہ انسانی دلوں کو جوڑنے، نفرت کو مٹانے اور علم کو تجربے، اخلاق اور محبت سے آراستہ کرنے کی دعوت ہے۔ افسوس کہ برصغیر کے اکثر صوفیاء نے بھی وقت کے سیاسی تقاضوں اور درباری میلانات کے تحت اس اصل روح سے دوری اختیار کی لیکن اس کے باوجود چند روشن چراغ ایسے ضرور ہیں جنہوں نے وسعت قلبی اور انسان دوستی کو دین کی اصل تعبیر بنا کر پیش کیا۔
حضرت بابا فرید الدین گنج شکر، حضرت نظام الدین اولیاء، امیر خسرو، شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست، لعل شہباز قلندر، شاہ حسین، وارث شاہ ، بلھے شاہ اور رحمان بابا وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے وسعتِ مشربی کو نہ صرف اپنایا بلکہ اپنی شاعری، تعلیم اور عمل سے اسے زندہ رکھا۔ ان کا مذہب صرف تبلیغ تک محدود نہیں بلکہ انسانوں کے دلوں کو جوڑنے، دوسروں کو سننے، سمجھنے، قبول کرنے اور محبت کے ساتھ جینے کا نام تھا۔
وسعتِ مشربی کوئی مجرد نظریہ نہیں بلکہ دین کا وہ جوہر ہے جو قرآن کی آیت "لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ” میں جھلکتا ہے۔ اس کے برعکس جب مذہب کو ایک سخت گیر، جابرانہ اور انتقامی آلے میں ڈھال دیا جائے، جب دین کی تبلیغ درشت لہجے، تکفیر یا جذباتی نعرہ بازی سے کی جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دین کا اصل جمال ماند پڑ جاتا ہے اور معاشرہ تشدد، منافرت اور خوف کا گڑھ بن جاتا ہے۔
رٹا کلچر صرف ایک تعلیمی بحران نہیں بلکہ فکری غلامی ہے۔ یہ غلامی انسان کو سوچنے، سوال کرنے اور نئی جہتیں دریافت کرنے سے روکتی ہے۔ یہی کلچر ہمیں اسکولوں، مدرسوں، یونیورسٹیوں اور مذہبی حلقوں میں یکساں طور پر نظر آتا ہے۔ جہاں طلبا متن کو دہراتے ہیں لیکن مفہوم، سیاق و سباق اور اخلاقی پیغام سے لاعلم ہوتے ہیں۔ یہ صورت حال صرف علمی تنزلی نہیں بلکہ روحانی زوال بھی ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں دین کو صرف سختی یا مسلکی جنگوں کی عینک سے نہ دیکھیں بلکہ اسے ایک زندہ حقیقت، اخلاقی رہنمائی، اور فکری روشنی کے طور پر سمجھیں تو ہمیں وسعتِ مشربی کو اپنے تعلیمی نظام کا حصہ بنانا ہو گا۔ ہمیں سکھانا ہو گا کہ اختلاف گناہ نہیں، مکالمہ برکت ہے، تحقیق عبادت ہے اور انسان کی اصل عظمت اس کے اخلاق، برداشت، سچائی، علم اور حسنِ سلوک میں ہے۔
دین کسی فرد یا فرقے کی جاگیر نہیں، یہ خالقِ کائنات کی طرف سے تمام انسانیت کے لیے رحمت ہے۔ اس رحمت کو پھیلانے کے لیے ہمیں دلوں کو وسیع، ذہنوں کو کھلا اور زبان کو نرم رکھنا ہوگا۔ یہی وسعتِ مشربی کا راستہ ہے، یہی علم کی اصل روشنی ہے، یہی روحِ اسلام ہے۔