سمیعہ رضا
ہزارہ ڈویژن، جو خیبر پختونخواہ کا ایک خوبصورت مگر نسبتاً پسماندہ علاقہ ہے، اپنے دلکش مناظر، ثقافتی ورثے اور تاریخی اہمیت کے باوجود تعلیمی ترقی کے میدان میں خاص طور پر خواتین کی تعلیم کے حوالے سے شدید چیلنجز سے دوچار ہے۔ یہاں کے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے راستے میں ثقافتی، معاشی،من پسند مذہبی تعبیرات اور پالیسی سطح کی ایسی پیچیدہ رکاوٹیں حائل ہیں جو ایک منظم جدوجہد کے بغیر دور نہیں کی جا سکتیں۔
ثقافتی رکاوٹیں: روایت کے شکنجے میں علم کی خواہش
ہزارہ کے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو سب سے بڑا چیلنج روایتی قبائلی سوچ سے درپیش ہے۔ معاشرتی اقدار میں مردانہ بالادستی کا غلبہ، پردے کے سخت تصورات، اور “عورت کی جگہ صرف گھر” جیسے دقیانوسی نظریات نے لڑکیوں کی تعلیم کو گناہ یا بے فائدہ سمجھنے جیسا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔
بعض علاقوں میں لڑکیوں کو محض پرائمری سطح تک پڑھانا کافی سمجھا جاتا ہے۔ جیسے ہی لڑکی بالغ ہوتی ہے، والدین کو یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ زیادہ تعلیم “بغاوت” یا “آزاد خیالی” کو جنم دے سکتی ہے۔
معاشی رکاوٹیں: غربت کے پنجے اور تعلیمی اخراجات
اکثر دیہاتی گھرانے کم آمدنی پر گزر بسر کرتے ہیں۔ جب تعلیم کو سرمایہ کاری کے طور پر دیکھا جاتا ہے تو لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے، جبکہ لڑکیوں کی تعلیم کو وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھا جاتا ہے۔ کتب، یونیفارم، ٹرانسپورٹ، اور ٹیوشن فیس جیسے اخراجات ان والدین کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں جنہیں روزانہ کی دو وقت کی روٹی کا بھی سوچنا پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ، لڑکیوں سے گھریلو کام کاج یا کھیتوں میں مزدوری کی توقع کی جاتی ہے، جو کہ اسکول جانے میں ایک اور رکاوٹ بنتی ہے۔
پالیسی سطح کی رکاوٹیں: ناقص منصوبہ بندی اور عدم ترجیح
اگرچہ حکومت نے “تعلیم سب کے لیے” جیسے نعرے دیے ہیں، لیکن دیہی ہزارہ میں لڑکیوں کے اسکولوں کی شدید قلت ہے۔ جہاں اسکول موجود ہیں وہاں اکثر بنیادی سہولیات کا فقدان ہوتا ہے: ٹوائلٹس نہیں، پانی دستیاب نہیں، خواتین اساتذہ کی کمی ہے، اور کئی اسکول خستہ حال عمارتوں میں قائم ہیں۔ہم نے کے این کے جاپان کے اشتراک سے سماجی تنظیم سوشل ایمپاورمنٹ تھرو ایجوکیشن اینڈ نالج SEEK کے ساتھ ضلع مانسہرہ میں چھجڑ اوگی،میرا مدا خیل تورغر ،ایبٹ آباد حویلیاں اور بٹگرام کے مختلف لڑکیوں کے ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکولوں کے متعدد دورے کرکے زیر تعلیم طالبات اور اساتذہ کے ساتھ مینٹورنگ اور کوچنگ کے سیشنز کیے اس دوران طالبات کی طرف سے جو مسائل ہمارے ساتھ شئیر کیے گیے وہ ہمارے معاشرے ،والدین،پالیسی سازوں ،ماہرین تعلیم ،عالمی ڈونر ایجنسیز،اساتذہ اور محکمہ تعلیم کے زمہ داروں کے توجہ کے متقاضی ہیں۔
ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ ثانوی اور کالج کی سطح پر صورتحال مزید خراب ہے۔ والدین اپنی بیٹیوں کو کئی کلومیٹر دور شہر بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ محفوظ ٹرانسپورٹ کا نظام موجود نہیں۔
نتائج: پرائمری میں اگر ایک سکول میں سو بچیاں زیر تعلیم ہیں تو مڈل اور ہائی میں ان کی تعداد پانچ سے دس رہ جاتی ہے اور کالج میں مزید کم ہو کر دو تین اور پھر یونیورسٹی تک کوئی کوئی ہی پہنچ پاتی ہیں۔۔۔
تعلیم سے دوری کے معاشرتی اثرات
یہ رکاوٹیں صرف لڑکیوں کو اسکول سے محروم نہیں کرتیں بلکہ پورے معاشرے کو ناخواندگی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، اور غربت جیسے مسائل میں دھکیل دیتی ہیں۔ جب ایک عورت تعلیم یافتہ ہوتی ہے، تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بہتر بناتی ہے بلکہ ایک نسل کو شعور دے سکتی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کا فقدان ہزارہ ڈویژن کی مجموعی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
ممکنہ حل: اجتماعی حکمت عملی کی ضرورت
والدین کا کردار: رویے کی تبدیلی
والدین کو سب سے پہلے تعلیم کی افادیت اور لڑکیوں کے مساوی حقوق کا شعور دینا ہوگا۔
کمیونٹی مکالمے، علماء کرام کے ذریعے پیغامات، اور ویژوئل میڈیا مہمات سے ذہنی تبدیلی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
کامیاب خواتین کی کہانیاں مقامی زبانوں میں شیئر کر کے رول ماڈلنگ کا عمل شروع کیا جائے۔
سوسائٹی کا کردار: ماحول سازگار بنانا
سوسائٹی کو چاہیے کہ تعلیم یافتہ خواتین کی عزت کرے اور خواتین اساتذہ کے کردار کو سراہا جائے۔ ایسے خاندان جو لڑکیوں کو تعلیم دلاتے ہیں، انہیں سوشل سطح پر پذیرائی دی جائے۔
ماہرین تعلیم کا کردار: مواد اور تدریس کا معیار
نصاب کو مقامی ثقافت سے ہم آہنگ بنانا چاہیے تاکہ تعلیم اجنبی نہ لگے۔
اساتذہ کی تربیت میں صنفی حساسیت کو شامل کیا جائے تاکہ وہ لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کر سکیں۔
اسکول میں زندگی کی مہارتیں، تکنیکی تعلیم اور صحت و تولیدی تعلیم بھی شامل کی جائے۔
. سوشل ورکرز کا کردار: پُل کا کام
سوشل ورکرز مقامی سطح پر وہ کردار ادا کر سکتے ہیں جو حکومت اور عوام کے درمیان خلا کو پر کرے:
گھر گھر جا کر والدین کو قائل کرنا
اسکول چھوڑنے والی لڑکیوں کی واپسی کی مہم
تعلیمی وظائف اور امداد کی اسکیموں کی رہنمائی
اداروں کا کردار:
مضبوط انفراسٹرکچر اور پالیسی سازی
دیہی علاقوں میں نئے گرلز اسکول اور ٹرانسپورٹ سروس کا قیام ضروری ہے۔
اسکالرشپ، فری لنچ، اور کتابوں کی فراہمی جیسے اقدامات سے داخلے میں اضافہ ممکن ہے۔
موبائل اسکولز یا آن لائن تعلیم کے ماڈل بھی کم آبادی والے علاقوں کے لیے کارآمد ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں چترال، تھرپارکر اور بلوچستان کے چند دیہی علاقوں میں NGOsکی مدد سے کامیاب تعلیمی ماڈلز نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب عوامی شمولیت، خواتین اساتذہ کی فراہمی اور مالی معاونت دستیاب تو لڑکیوں کی تعلیمی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے۔ ہزارہ میں بھی ان ماڈلز کو مقامی ضرورتوں کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔
نتیجہ: تعلیم سے روشنی کا سفر
ہزارہ ڈویژن کی بیٹیاں ذہانت، ہنر اور علم کی پیاسی ہیں، مگر انہیں موقع دینے کے لیے ہمیں ایک ایسا نظام درکار ہے جو انہیں تحفظ، سہولت، اور حوصلہ دے۔ ہمیں صرف اسکول بنانے کی نہیں، بلکہ سوچیں بدلنے کی ضرورت ہے۔
تعلیم محض کتابوں کا علم نہیں، بلکہ عورت کو اپنے آپ سے متعارف کروانے کا نام ہے۔