تحریر : شیرافضل گوجر
فکری ارتقاء کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر بڑا مفکر اپنے عہد کی طاقتور ترین آئیڈیالوجی، ریاستی جبر اور مذہبی رجعت پرستی کے خلاف تنقید کرتا رہا ہے۔ ژاں پال سارتر نے نوآبادیاتی استعمار کے خلاف فرانسیسی پالیسیوں کو للکارا، برٹرنڈ رسل نے جنگی جنون کے خلاف آواز اٹھائی، نوم چومسکی نے امریکی ریاستی دہشت گردی پر سوالات اٹھائے، اور دریدا نے طاقت کی تعبیرات پر تنقید کے در کھولے۔ ان سب مفکرین کا نقطۂ آغاز وہی آئیڈیالوجی تھی جس سے وہ وابستہ تھے — لبرل ازم، سیکولر ازم، یا روشن خیالی۔ مگر ان کی تنقید اصولی تھی، شخصی یا گروہی مفاد پر مبنی نہیں۔
لبرل ازم محض مغرب کی سیاسی یا سماجی آئیڈیالوجی نہیں بلکہ ایک فکری روایت ہے جو شخصی آزادی، عقلیت پسندی، جمہوریت، اور آزادی اظہار کو بنیادی اقدار مانتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے اندر موجود سچے لبرلز خود اپنے ملکوں کی سامراجی یا جنگی پالیسیوں پر سب سے زیادہ آواز بلند کرتے ہیں۔ روشن خیالی کے پروجیکٹ سے لے کر ما بعد جدید مفکرین تک، تمام نے اپنی تہذیب پر سوال اٹھایا اور اس کی داخلی تضادات کو بے نقاب کیا۔پاکستان میں بدقسمتی سے "لبرل” کا مطلب ایک گالی بن چکا ہے، یا تو اسے مغرب نواز ایجنٹ کہا جاتا ہے یا دین بیزار۔ لیکن اس سے بھی خطرناک تر رجحان یہ ہے کہ بعض "لبرل” کہلانے والے خود بھی فرقہ پرستی کے آلۂ کار بن چکے ہیں، خاص طور پر جب معاملہ شیعہ مت اور ایران کی ریاستی پالیسیوں کا ہو۔ وہ تمام انسانی اقدار، انصاف پسندی، اور جنگ کی مخالفت کو بالائے طاق رکھ کر، صرف اپنے فرقے کی بنیاد پر پوزیشن لیتے ہیں۔
ایران، جہاں ایک تھیو کریٹک ریاست مذہب کے نام پر اپنے عوام کو دبائے ہوئے ہے، انسانی حقوق کو کچلے ہوئے ہے، اور علاقائی سطح پر عسکری پراکسیز کے ذریعے جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے، وہاں کا دفاع صرف اس لیے کرنا کہ وہ "شیعہ ریاست” ہے — یہ لبرل ازم یا انسانیت نہیں بلکہ کھلی فرقہ پرستی ہے۔
ان "لبرلز” کی ساری "انسانیت” اس وقت جاگتی ہے جب شام، یمن، یا سعودی عرب میں اہل تشیع کے خلاف کارروائی ہو، لیکن جیسے ہی ایرانی یا عراقی ملیشیائیں کسی سنی بستی پر بمباری کرتی ہیں، یا حوثی باغی کسی سعودی قصبے پر حملہ کرتے ہیں، یہ لوگ خاموش ہو جاتے ہیں یا جشن مناتے ہیں۔ یہ منافقت دراصل لبرل ازم کی تردید ہے، نہ کہ اس کی توسیع۔
جنگ ایک اصولی مسئلہ ہے، نہ کہ فرقہ وارانہ۔
جنگ کوئی ایسا فعل نہیں جسے عقیدے، نسل، یا سیاست کے تناظر میں توجیہ دی جا سکے۔ جنگ کا مطلب ہوتا ہے عام انسانوں کی تباہی۔ بم نہ شیعہ پہچانتا ہے، نہ سنی، نہ یہودی، نہ بدھ۔ جنگ کی حمایت کسی بھی بنیاد پر ہو — خواہ وہ قومی ہو، مذہبی ہو، یا سیاسی — وہ ظلم ہے۔
اسی اصول کے تحت اسرائیل اور ایران کی ممکنہ جنگ کو دیکھنا چاہیے۔ ایران کا دفاع صرف اس لیے کہ وہ "مسلمان” ہے یا "شیعہ” ہے، اور اسرائیل کی مخالفت صرف اس لیے کہ وہ "یہودی ریاست” ہے — یہ دونوں فکری دیوالیہ پن کی مثالیں ہیں۔ دونوں ریاستیں اپنی اپنی جگہ مظالم کی مرتکب ہیں۔ دونوں فاشسٹ عناصر کے زیر اثر ہیں۔ دونوں جنگ کو بطور طاقت کا مظاہرہ استعمال کرتے ہیں۔
اگر ایران فاشسٹ ہے تو اسرائیل بھی ہے، اور دونوں کی مخالفت ہونی چاہیے:
لبرل یا انسان دوست فکر کا تقاضا ہے کہ ہم ظلم کے خلاف کھڑے ہوں، چاہے وہ کسی بھی عقیدے یا قوم سے وابستہ ہو۔ اگر آپ اسرائیل کی نسل پرستی، نوآبادیاتی قبضے اور فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف ہیں، تو ایران کی مذہبی آمریت، اقلیتوں پر جبر، اور علاقائی پراکسی جنگوں کی بھی اسی شدت سے مخالفت کرنی چاہیے۔
لیکن اگر کوئی شخص اسرائیل پر تنقید کرتا ہے مگر ایران کے جنگی اقدامات کی توجیہ دیتا ہے، تو وہ لبرل نہیں بلکہ فرقہ پرست ہے۔
پاکستانی شیعہ فرقہ پرست لبرل ازم کی روایت کے خلاف کیوں ہیں؟
پاکستان میں کچھ حلقے، جو خود کو فکری طور پر "ترقی پسند” ظاہر کرتے ہیں، لبرل ازم کے نام پر ایران کی حمایت کرتے ہیں، مگر پاکستان میں اگر کوئی سنی عالم لبرل اقدار کی بات کرے، تو اس کی بات کو مسترد کر دیتے ہیں۔ ان کے لیے لبرل ازم بھی ایک فرقہ ہے، جس میں صرف وہی لوگ شامل ہو سکتے ہیں جو ان کی فرقہ وارانہ پوزیشن سے متفق ہوں۔
یہ لوگ سچے لبرلز، جیسے اروندھتی رائے، ایڈورڈ سعید، یا چومسکی سے کچھ نہیں سیکھتے، جو اپنی ریاستوں کی پالیسیوں پر اصولی تنقید کرتے رہے۔ بلکہ وہ ان کی تنقید کو اپنے مذہبی و فرقہ وارانہ مفادات کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔
جنگ ایک انسان دشمن سرگرمی ہے وہ کسی بھی حالت میں جائز نہیں، چاہے اس کا آغاز ایران کرے یا اسرائیل، سعودی عرب کرے یا امریکہ۔ اگر انسانی زندگی کو کسی اصول کے تحت بچانا ہے، تو جنگ کی بطور سرگرمی مخالفت ہونی چاہیے۔
یہ بات اہم ہے کہ کسی بھی ملک کے مفکرین کا اصل فرض اپنی ریاست کے ظلم اور پالیسیوں پر سوال اٹھانا ہے، نہ کہ دوسروں کے ظلم کو اپنی ریاست کے مظالم کی توجیہ کے طور پر پیش کرنا۔
ایران ایک مذہبی آمریت ہے۔ وہاں عورتوں پر بدترین جبر ہے، اقلیتیں بدترین حالت میں ہیں، اختلاف رائے کو کچلا جاتا ہے، اور مذہب کو ریاستی طاقت کا آلہ بنایا گیا ہے۔ اگر آپ واقعی انسانیت کے حامی ہیں تو آپ کو اس ظالمانہ نظام پر تنقید کرنی ہوگی۔فرقہ پرست ایرانی نظام کے دفاع میں جو دلیل دیتے ہیں، وہ اصل میں انسانی اقدار کی نفی ہے۔ یہ وہی رویہ ہے جو داعش اور طالبان کو جائز قرار دیتا ہے، مگر ایک فرقہ وارانہ لیبل کے ساتھ۔ہم اس تحریر کے ذریعے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جنگ، فسطائیت، اور فرقہ واریت چاہے وہ کسی بھی نام یا ریاست سے منسلک ہو — انسان دشمن ہیں۔ جو لوگ لبرل ازم کی آڑ میں ایران کی جنگی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں، وہ دراصل لبرل نہیں بلکہ اپنے مخصوص فرقہ کی بالادستی چاہتے ہیں۔ ان کی انسانیت صرف مخصوص مواقع پر جاگتی ہے، اور ان کا "امن پسندی” صرف ان کے فرقے کے تحفظ تک محدود ہے۔اصل انسانیت یہ ہے کہ ہم جنگ کو بطور سرگرمی رد کریں، ریاستوں کی مذہبی اور فرقہ وارانہ آمریت پر تنقید کریں، اور اصولی طور پر ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں — بغیر دیکھے کہ وہ کس مذہب یا قوم سے تعلق رکھتا ہے۔