شیرافضل گوجر
دنیا بھر میں میڈیا صنعت اس وقت ایک نازک مرحلے سے گزر رہی ہے۔ روایتی میڈیا جیسے ٹی وی، اخبارات اور نیوز ویب سائٹس اپنی مقبولیت کھوتی جا رہی ہیں، جبکہ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا تیزی سے عوامی معلومات کے بنیادی ذرائع بنتے جا رہے ہیں۔ "ڈیجیٹل نیوز رپورٹ 2025” — جو رائٹرز انسٹیٹیوٹ کی جانب سے شائع کی گئی ہے — اس بدلتی دنیا کا نہ صرف تفصیلی جائزہ پیش کرتی ہے بلکہ خبروں کی کھپت، اعتماد، اور ذرائع کی نئی جہتوں پر گہری روشنی بھی ڈالتی ہے۔
روایتی میڈیا کی زوال پذیر حالت
2025 کی رپورٹ کے مطابق، دنیا کے بیشتر ممالک میں روایتی نیوز ذرائع جیسے ٹی وی، پرنٹ اور ویب سائٹس پر انحصار تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ مثلاً امریکہ میں پہلی بار سوشل میڈیا اور ویڈیو پلیٹ فارمز پر خبروں کے حصول کی شرح (54%)، ٹی وی (50%) اور نیوز ویب سائٹس (48%) سے تجاوز کر گئی ہے
۔
رپورٹ واضح کرتی ہے کہ نوجوان نسل کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ 18 تا 24 سال کے نوجوانوں کی اکثریت اب خبروں کے لیے سوشل میڈیا اور ویڈیو پلیٹ فارمز پر انحصار کرتی ہے، اور پرنٹ یا ٹی وی جیسے ذرائع کو فرسودہ تصور کرتی ہے
۔
متبادل میڈیا کی ابھرتی ہوئی دنیا
ایک نیا رجحان جس پر رپورٹ میں خاص زور دیا گیا ہے، وہ ہے "متبادل میڈیا” کا عروج۔ یوٹیوبرز، پوڈکاسٹرز، ٹک ٹاکرز اور دیگر سوشل میڈیا پرسنالٹیز اب رائے عامہ پر گہرا اثر ڈال رہے ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس میں نوجوان یوٹیوبر HugoDécrypte کی پہنچ 35 سال سے کم عمر افراد میں مین اسٹریم میڈیا جتنی یا اس سے زیادہ ہو چکی ہے
۔
مگر اس رجحان کے ساتھ چیلنج بھی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، جھوٹی یا گمراہ کن معلومات کے بنیادی ذرائع کے طور پر "آن لائن انفلوئنسرز” اور "قومی سیاست دانوں” کو سب سے بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے — یہ دونوں 47 فیصد عوام کی نظر میں بنیادی خطرے کا باعث ہیں
۔
مصنوعی ذہانت (AI) کی آمد: مواقع اور خطرات
2025 کی رپورٹ میں پہلی بار مصنوعی ذہانت کے خبروں میں کردار پر بھی غور کیا گیا ہے۔ اگرچہ AI چیٹ بوٹس کو خبروں کا ذریعہ ماننے والوں کی شرح مجموعی طور پر کم (7%) ہے، لیکن نوجوان نسل (15% انڈر 25) تیزی سے اس طرف راغب ہو رہی ہے
۔
رپورٹ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ لوگ AI کے ذریعے تیار کی گئی خبروں کو کم شفاف، کم قابل اعتماد اور کم درست سمجھتے ہیں، اگرچہ اسے سستا اور تیز تر ذریعہ ضرور مانتے ہیں۔ یہاں انسانی شمولیت کی اہمیت نمایاں ہو جاتی ہے جو صحافتی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
خبری وڈیو اور پوڈکاسٹنگ کا بڑھتا رجحان
ڈیجیٹل رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ ویڈیو اب خبروں کی ترسیل کا اہم ترین ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ 2020 میں 52 فیصد افراد سوشل ویڈیو دیکھتے تھے، جو 2025 میں بڑھ کر 65 فیصد ہو چکا ہے۔ خبروں کی ویڈیوز کی مجموعی کھپت 67 فیصد سے 75 فیصد تک پہنچ چکی ہے
۔
اسی طرح، پوڈکاسٹ بھی ایک اہم ابھرتی ہوئی صنف بن چکی ہے۔ امریکہ میں ہر ہفتے 15 فیصد افراد نیوز پوڈکاسٹ سنتے ہیں، جو پرنٹ یا ریڈیو خبروں کی شرح کے برابر ہے
۔ اس رجحان سے اندازہ ہوتا ہے کہ میڈیا کی نئی شکلیں زیادہ فلیکسیبل، موبائل فرینڈلی اور نوجوان نسل کے لیے موزوں بنتی جا رہی ہیں۔
اعتماد کا بحران اور صحافت کا مستقبل
اگرچہ مجموعی طور پر خبروں پر اعتماد کی شرح 40 فیصد پر مستحکم رہی ہے، مگر اس میں گزشتہ برسوں کی نسبت نمایاں کمی دیکھی گئی ہے، خاص طور پر کووِڈ کے بعد کے عرصے میں
۔ عوامی اعتماد کے اس بحران نے میڈیا اداروں کو نئے ماڈلز اپنانے پر مجبور کر دیا ہے، جن میں شفافیت، مواد کی صداقت، اور انفرادی رپورٹرز کی برانڈ ویلیو شامل ہے۔
رپورٹ میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ مستند، قابل اعتماد اور روایتی میڈیا برانڈز — خصوصاً پبلک سروس براڈکاسٹرز — آج بھی سب سے معتبر ذرائع کے طور پر جانے جاتے ہیں، خاص طور پر جب لوگ کسی خبر کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں۔
ادائیگی پر مبنی خبریں: کامیابی یا ناکامی؟
ڈیجیٹل سبسکرپشن ماڈل کے ذریعے آمدنی حاصل کرنا اب بھی میڈیا اداروں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ صرف 18 فیصد صارفین ایسے ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں آن لائن خبروں کے لیے ادائیگی کرتے ہیں۔ ناروے (42%) اور سویڈن (31%) میں سب سے زیادہ لوگ خبریں خریدتے ہیں، جب کہ دیگر ممالک جیسے یونان، سربیا اور کروشیا میں یہ شرح صرف 6 تا 7 فیصد ہے
۔
یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ اکثریت اب بھی مفت خبری ذرائع کو ترجیح دیتی ہے، اور ادائیگی پر مبنی ماڈلز ابھی بھی بڑی تعداد میں صارفین کو قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
مستقبل کا میڈیا کیسا ہو گا؟
ڈیجیٹل نیوز رپورٹ 2025 میڈیا کی دنیا کے وہ تمام پہلو سامنے لاتی ہے جو تیزی سے بدل رہے ہیں: سوشل میڈیا کی طاقت، AI کا ابھرتا ہوا کردار، متبادل میڈیا کی مقبولیت اور روایتی ذرائع کی بے بسی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بات واضح ہے — "اعتماد” ہی وہ کرنسی ہے جو صحافت کی بقا کی ضمانت ہے۔
صحافیوں، اداروں، اور پالیسی سازوں کے لیے یہ رپورٹ ایک تنبیہ بھی ہے اور ایک رہنما بھی۔ اگر صحافت نے خود کو نئی نسل کے انداز میں ڈھالا، اپنی شفافیت اور دیانتداری برقرار رکھی، اور ڈیجیٹل میدان میں مؤثر حکمت عملی اپنائی، تو یہ بحران نئے امکانات کا دروازہ بھی کھول سکتا ہے۔