معاشروں کی نفسیات اور مزاج کا مطالعہ کیے بغیر ان کے متعلق رائے قائم کرنا ایسا ہی ہے جیسے(Four blind men and one elephant) کی مشہور کہانی ہے جس میں چار اندھوں نے ایک ہاتھی کو پکڑ لیا اور جس اندھے کے ہاتھ میں ہاتھی کا جو حصہ آیا اس نے اپنے اندھے پن سے اس کی وہی تشریح کی مثلاً ایک کے ہاتھ میں ہاتھی کی دم تھی تو دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھی کا کان جبکہ تیسرے کے ہاتھ میں اس کی ٹانگ اور چوتھے نے اس کی سونڈ پکڑ رکھی تھی اور وہ ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ یہ کیا ہے۔ جس کے ہاتھ میں اس کی دم تھی تو وہ کہہ رہا تھا کہ اس وقت میرے ہاتھ میں ایک رسی ہے جب کہ کان والا کہہ رہا تھا کہ یہ رسی نہیں یہ ایک دستی پنکھا ہے اور جس کے ہاتھ میں اس کی ٹانگ تھی تو اس نے کہا کہ یہ دستی پنکھا نہیں بلکہ ایک ستون ہے اور جس کے ہاتھ میں اس کی سونڈ تھی تو اس نے کہا نہیں یہ پانی کا پائپ ہے۔ دراصل چاروں اندھے تھے اور ایک ہاتھی تھا جس کو وہ اپنے اندھے پن کے حساب سے بیان کر رہے تھے۔
سوشیالوجی (Sociology) کے ماہرین کے مطابق معاشرے کی نفسیات اور مزاج کا تجزیہ ایک پیچیدہ علمی میدان ہے جو اس کی تاریخ، جغرافیہ، مذہب/ثقافت اور اجتماعی تجربات کے گہرے تحمل سے تشکیل پاتا ہے. لیکن کوئی بھی معاشرہ جامد نہیں رہ سکتا وقت کے ساتھ ساتھ نئے تجربات اس معاشرے کی نفسیات کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہ بات بھی بڑی حد تک درست اور قابل فہم ہے کہ قومیں اپنے تاریخی زخموں کو یا تو تخلیقی توانائی میں بدل دیتی ہیں یا پھر انتقامی نفسیات کا شکار ہو جاتی ہیں۔
ایران براعظم ایشیا (مغربی ایشیا/مشرق وسطیٰ) جسکا رقبہ تقریباً 1,648,195 مربع کلومیٹر(دنیا کا 17 واں سب سے بڑا ملک) ہے۔ ایران کے شمال میں آرمینیا، آذربائیجان، ترکمانستان اور بحیرہ کیسپین (دنیا کا سب سے بڑا جھیل)۔مشرق میں پاکستان اور افغانستان اس کے مغرب میں ترکی اور عراق جبکہ جنوب کی طرف خلیج فارس اور بحیرہ عمان ہے۔
ایران کا محل وقوع تاریخی اور جدید تجارتی راستوں (جیسے شاہراہ ریشم) کا اہم مرکز رہا ہے۔ آبنائے ہرمز (خلیج فارس کا منہ) پر اس کا کنٹرول عالمی تیل کی ترسیل کے لیے انتہائی اہم ہے، جہاں سے دنیا کا ایک تہائی سمندری تیل گزرتا ہے۔
ایران کا جغرافیہ پہاڑوں، سطح مرتفع، وسیع صحراؤں، محدود زرخیز میدانوں (خاص کر بحیرہ کیسپین کے ساحل اور مغربی پہاڑی دامنوں میں) اور اہم آبی ذخائر (بحیرہ کیسپین، خلیج فارس) کا امتزاج ہے۔ اس کی خشک اور نیم خشک آب و ہوا، ارضیاتی طور پر متحرک محل وقوع (زلزلے، تیل/گیس) اور اہم جغرافیائی پوزیشن اس کے ماحول، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات کو گہرائی سے متاثر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کی تہذیب اپنے اندر پہاڑ جیسی استقامت اور صحرا جیسی ہمت کو اپنا قومی تشخص سمجھتی ہے
ایرانی معاشرے کی اپنی ایک طویل تاریخ اور قدیم تہذیب ہے 678 قبل مسیح میں مدائن سلطنت سے لے کر صفوی اور پہلوی دور تک پھیلی ہوئی ہے جو اس دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ایرانیوں نے ہزاروں سال کے دوران اس نسلی، لسانی اور ثقافتی تنوع کو رواداری اور لچک کے ساتھ اپنے اندر سمویا ہے۔ اس وقت بھی ایران میں تقریباً 50 کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں اور سرکاری طور پر آٹھ کے نسلی گروہ ہیں جن میں فارسی، آذربائیجانی ، عرب ، ترک، کرد اور بلوچ مازیدرانی موجود ہیں۔ جو ملکر ایک نئی قومی شناخت کی تشکیل کرتے ہیں یہ تنوع ایرانی نفسیات میں ہم آہنگی اور استحکام کی عکاسی کرتا ہے اور ایرانی مزاج میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
مذہبی اعتبار سے قدیم ایرانی تہذیب زرتشتی اقوام سے متاثر تھی جس میں "آہورا مزدا” یعنی (خیر کی قوت) اور اخلاقیات پر زور دیا جاتا تھا دین اسلام کی دعوت اور غلبے نے ایرانی معاشرے کو ایک نئی جہت عطا کی جس کے نتیجے میں ایرانیوں نے ترقی کی نئی راہ کا انتخاب کیا۔ وقتاً فوقتاً ایرانی معاشرہ مختلف مذہبی تبدیلیوں سے ہمکنار ہوتا رہا ہے جیسا کہ 1906 میں نجف کے مراج تقلید (اخوند خراسانی، مرزا حسین تہرانی اور عبداللہ مازندرانی) کے پارلیمنٹ کی حمایت میں فتویٰ جاری کیا تھا جس کے مطابق پارلیمنٹ اسلام کے اصولوں پر ہے اور اس کی حمایت ہر مسلمان پر فرض ہے یہ واقعہ ایرانی نفسیات میں مذہب اور جمہوریت کے ملاپ کی علامت بن گیا۔
اسی طرح 1979 میں استعمار مخالف جذبے کے تحت مذہبی رہنماؤں کی قیادت میں ایرانی قوم نے بادشاہت کا تختہ الٹ کر ایک نئی انقلابی حکومت قائم کی جو ان کے مزامحتی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔ آج بھی ایران میں اسی انقلابی پارٹی کی حکومت قائم ہے اور استعماری طاقتوں کے مقابلے میں ہمت اور جرات کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔
اسلامی عہد میں ایرانیوں نے مختلف علمی شعبہ جات مثلاً طب، فلکیات، ریاضی اور فلسفے میں غیر معمولی خدمات انجام دیں ہیں۔ ابن سینا، الرازی اور عمر خیام جیسے سائنسدانوں پر آج بھی ایرانی قوم فخر کرتی ہے۔ اسی طرح سائنسی علوم ،جدید ٹیکنالوجی اور جوہری ایندھن کی خود کفالت اور کینسر جیسی موذی مرض کی ادویات کی تیاری کے اقدامات مغربی استعماری طاقتوں کی پابندیوں کے باوجود ایرانیوں کی خود انحصاری کی ایک علامت ہے۔
شاعری، ادب اور فن تعمیر میں ایرانی معاشرہ اپنی مثال آپ ہے جیسے سعدی شیرازی، رومی اور فردوسی کے ساتھ جذباتی گہرائی اور فلسفیانہ سوچ اور تقدیر پر یقین رکھتی ہے۔ فن تعمیر جیسے شاہ چراغ کے حرم اور پرسپولس کے آثار قدیمہ اور اصفحان کی مساجد ایرانی قوم کے صبر، محنت اور جمالیاتی حس کی ظاہری شکلیں ہیں۔ نوروز جیسے تہوار جس کو تین ہزار سال سے منایا جا رہا ہے یہ ایرانیوں کی روایت میں امید، تجدید اور خاندانی اتحاد کی علامتیں ہیں۔
بار بار بیرونی حملوں نے جیسے یونانی، عرب،منگول اور ترک حملوں کے حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت نے ایرانیوں میں حریت پسندی اور قومی خودداری کو فروغ دیا۔1906 میں روس اور برطانیہ کے معاشی استحصال کے خلاف ایران نے آئینی انقلاب برپا کیا جو انصاف اور خودداری کے جذبے کی عکاسی کرتا ہے اور اسی طرح آج بھی مغربی پابندیوں کے باوجود ایرانیوں نے لچک اور تخلیقی حال کو ہمیشہ اپنایا ہے جو ان کی موجودہ سائنسی اور معاشی ترقی کو مضبوط کر رہا ہے۔
ایرانیوں کا یہ اجتماعی قومی مزاج ان کے تہذیبی تسلسل، مذہبی گہرائی، سائنسی جستجو اور مزاحمتی روح کا امتزاج ہے ایرانی معاشرہ باوجود اپنی ثقافتی جڑوں سے گہری وابستگی کے آج بھی تغیر کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آج جہاں عالمی استعماری طاقتوں نے میڈیا کے ذریعے سے لوگوں کی رائے اپنی مرضی کے مطابق بنانے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ اس پروپیگنڈے کے ماحول میں واقعات کو اجتماعی نقطہ نظر سے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنا مزید ضروری ہے۔ یاد رکھیے جنگیں محض جذبات اور اسلحے کے زور سے نہیں جیتی جاسکتیں بلکہ قومیں اپنی اخلاقی اقدار سے کامیابی حاصل کرتی ہیں۔