Skip to content

ھماری قومی نفسیات 

شیئر

شیئر

تحریر: یاسر جیلانی 

ھمارے ہاں بڑا المیہ یہ رھا ہے کہ رائج الوقت نظریات سیاسی ، سماجی، یا معاشی ہوں اس قدر مقدس بنا دئے جاتے ہیں کہ عقیدہ کی حد تک چلے جاتے ہیں۔ اس خطرناک رجحان کا نتیجہ یہ نکلا کہ دوسروں کا ھم سے مختلف زاویہ نگاہ نہ صرف انکے لئے ذہنی اذیت کا سبب بنا بلکہ جان لیوا بھی ثابت ہوا۔ دوسری طرف سماجی نقصان یہ ہوا کہ سماج میں فکری علمی بحث و مباحثہ ،مکالمہ اور سوالات کی گنجائش ختم کر دی ۔ یہ تمام اجزاء کسی بھی سماج کی بقا کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ سوالات سے مکالمہ جنم لیتا ہے اور صحت مند مکالمے سے ہی سماج میں فکری و علمی روئیے پروان چڑھتے ہیں اور ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اھم کردار ادا کرتے ہیں۔ 

معاشروں کی ارتقائی مراحل میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جہاں مسائل کو حل کرنے کے لیے سوالات اٹھائے جاتے ہیں بلکہ متضاد آراء کا احترام کرتے ہوئے معاشرے کے دانشوروں نے پوری فکری دیانتداری اور علمی زمہداری سے جوابات دینے کی کوششیں کیں۔ اس طرح نہ صرف صحت مند معاشروں کا وجود عمل میں آیا بلکہ ان اثرات نے فرد واحد کی ذندگی کو بھی نمایاں مقام بخشا۔ 

اگر ھم اپنے خطہ برصغیر پاک و ہند کی بات کریں تو یہ خطہ صدیوں مطلق العنان حکمرانوں اور مذہبی اشرافیہ کے گھڈ بندن کی وجہ سے جنگ و جدل کا میدان بنا رھا۔ جنگیں ویسے تو وقت کے اشرافیہ کے مفادات کی خاطر لڑائی جاتی رہیں مگر بظاہر ان پر مذہب کلچر اور نیشنل ازم کی چھاپ چڑھائی گئیں تاکہ سماج انکو مقدس مان کر اشرافیہ کی اطاعت گزاری تسلیم کرتا رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اطاعت در اطاعت نے سماج میں فکرو تدبر، علم و تحقیق اور تربیت کا فکری فقدان پیدا کر دیا۔ اطاعت کا یہ بیانیہ مجموعی طور پر ریاست سے لے کر سماج تک ایک مقدس اصول کے طور پر عام آدمی کی زندگی تک کو متاثر کر گیا۔ اس سے سماج جمود کا شکار ہو گیا اور عام آدمی فہم وفراست کی قلت کا۔ اور اگر کہیں معاشرے میں کام ہوا بھی تو وہ فکروعلم سے زیادہ اطاعت اور تقلید کے ہی ذمرے میں لیا گیا۔ اور اختلاف کی صورت میں دلیل سے ذیادہ جذبات کی ترجمانی کی گئی۔ جس سے سماج میں گالی، نفرت ، تشدد اور الزام تراشیوں جیسی روایات اس طرح پوست ہو گئیں کہ آج بھی ھمارے سماج میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ پہلے سے ذیادہ خطرناک رجحانات کے ساتھ سامنے آرہی ہیں ۔ گزشتہ سے پیوستہ صدی جب برصغیر میں جمہوریت اور جدید نیشنل ازم کی سیاست ظہور پذیر ہوئی تو اس وقت کی اشرافیہ نے سیاسی مسائل کے حل کے لیے مذہبی نیشنل ازم کا سہارا لیا تو آذادی کی سیاسی جہدوجہد انگریزوں کے خلاف لڑنے کے بجائے برصغیر میں اکثریت کے خلاف اقتدار کی جنگ نظر آئی۔ اسی موقع پر وہ نفسیات تشکیل پائی جس نے نظریات کو حق اور باطل کے پہلو میں دیکھنا شروع کیا۔ اور قیام پاکستان کے بعد ھمارے اشرافیہ بطور وراثت اپنے ساتھ لے کر ائی۔ ریاست پاکستان کی پیدائش اس دور میں ہوئی جس دور کو جدید قومی ریاستوں کا دور کہا جاتا ہے مگر اشرافیہ نے اسی نفسیات کو قومی نفسیات کے طور نہ صرف اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا بلکہ روز بروز اس کو مضبوط تر مضبوط بھی کیا ۔ اسی نفسیات کے ذریعے اس سماج کو ہپناٹائزڈ کر کہ عام عوام کو حق وباطل کی لڑائی لڑنے پر چھوڑ دیا۔ اور یہاں حق وہ ہے جو اشرافیہ کے مفادات کی اطاعت گزاری ہے۔ یہ اشرافیہ کے ٹرک کی وہ بتی ہے جو پیچھے لگ گیا وہ حق پر ہے وگرنہ جس نے اختلاف کیا تو اشرافیہ اپنے نظریات کو حق سمجھتے ہوئے اپنا جائز اختیار سمجھتی ہے کہ وہ طاقت کا استعمال کرے۔ اس کا نتیجہ سماج میں اس صورت نظر آ رھا ہے کہ پھر گروہ سیاسی ہوں ، مسلکی ہوں یا پھر عام آدمی وہ اپنے نظریات کو حق جان کر گالی، نفرت ، اور طاقت کے استعمال کو دوسروں کے خلاف اپنا جائز حق سمجھتا ہے۔ 

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں