Skip to content

آئی ایم ایف کا ڈیزائن شدہ بجٹ اور عوامی فلاح

شیئر

شیئر

عمار علی جان

یہ بجٹ پاکستان نے نہیں، آئی ایم ایف کے ملازمین نے بنایا ہے۔ حکومتی نمائندوں کو بھی آئی ایم ایف کے ملازم ہی سمجھنا چاہئے۔ تنخواہ دار طبقے پر تقریبا 500 ارب روپے کا ٹیکس لگا کر اشرافیہ کی عیاشیوں کا بوجھ ان پر ڈالا گیا ہے۔ اس بجٹ کو سمجھنے کے لئے بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے غلبے کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ 46 فیصد بجٹ قرضے جات کی واپسی کے لئے مختص کیا گیا ہے۔

1973 کے عالمی مالیاتی بحران اور 1979 میں امریکہ حکومت کی طرف سے قرضوں پر شرح سود بڑھانے کی وجہ سے تیسری دنیا میں معاشی مشکلات شدید ہوگئیں۔ اس کے حل کے طور پر 1980 کی دہائی میں Neoliberalism کے نام سے ایک نیا عالمی نظریہ متعارف کروایا گیا جس میں کہا گیا کہ حکومتوں کا کام صرف بزنس کو سہولت دینا ہے جبکہ "آزاد مارکیٹ” خود ہی معیشت کو ٹھیک کرلے گی۔ پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب جب کہتے ہیں کہ "its not the business of the government to be in business” تو وہ اسے سوچ کی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں۔

لیکن سرمایہ داری نظام مارکیٹ کا نظام نہیں بلکہ طبقاتی کشمکش کا نظام ہے جس میں ایک طبقہ دوسرے طبقات پر حاوی ہوتا ہے۔ آزاد منڈی کا تصور درحقیقت محنت کش تحریک کے دباؤ سے سرمایہ دار کو آزاد کرنے کا نام تھا۔ بیسویں صدی کے اندر سامراج مخالف اور مزدور تحریکوں کی وجہ سے حکومتوں پر پر دو پریشر موجود تھے۔ ایک یہ کہ وہ صنعتی ترقی کے زریعے ملکی وسائل بڑھا سکے اور باقی دنیا کے ساتھ مقابلہ کرسکے۔ دوسرا، اپنے سماج کے اندر طبقاتی تضاد کو کم کرسکے۔ لیکن نیولبلزم نے اس جدوجہد کو ناکام بنا دیا اور اس کی جگہ تیسری دنیا کی حکومتوں کو یہ تلقین کی کہ وہ عالمی سرمائے سے مقابلہ کرنے کے بجائے بیرونی سرمایہ کاری کا تحفظ کرے، چاہے وہ سرمایہ کاری آئی پی پیز کی طرح کے استحصالی منصوبوں میں ہی کیوں نہ ہو۔ جو ملک ایسا کرنے سے انکار کردیتا تھا تو اس کے حصے میں پابندیاں، فوجی بغاوتیں اور جنگیں آتی تھیں۔

اسی نظام کو 1980 کی دہائی میں پاکستان میں متعارف کروایا گیا اور دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اس کی وجہ سے صنعت تباہ ہوگئی۔ مثال کے طور پر 1988 میں آئی ایم ایف نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ بینکوں کی نجکاری کی جائے اور ان پر قدغنیں ختم کی جائیں، یعنی ان کی Deregulation کی جائے۔ اس سے پہلے بینک زراعت اور صنعت کے لئے بڑے پیمانے پر قرضے مختص کرتے تھے۔ لیکن Deregulation کے بعد زراعت اور بڑی صنعت کے لئے قرضے تقریبا ختم ہوگئے جبکہ حکومت مہنگے داموں پر اپنی ہی بینکوں کی سب سے بڑی گاہک بن گئی۔ صنعت اور زراعت نیچے جاتے گئے اور حکومت کو پیسے جمع کرنے کے لئے مسلسل مقامی اور عالمی بینکوں سے رجوع کرنا پڑا جس کی وجہ سے قرضوں کا بوجھ بھی بڑھتا گیا۔

ستم ظریفی یہ یے کہ بزنس مین، سیاستدان اور عسکری قیادت بھی بینکوں کے کاروبار میں اتر گئی اور حکومتی قرضوں سے پیسے بنانے لگی۔ دوسری جانب رضا باقر، شوکت عزیز، حفیظ شیخ جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ملازمین وزیر خزانہ اور شٹیٹ بینک کے گورنر بننا شروع ہوگئے۔ ان لوگوں کا سب سے اہم کام آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مذاکرات کرنا ہوتا ہے لیکن ملازم کیا مذاکرات کرے گا؟ یعنی نجی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ جعلی مذاکرات کا سلسلہ چلتا رہا جس سے قرضے بھی بڑھتے گئے اور اشرافیہ کی عیاشیاں بھی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پاکستان کی اشرافیہ نے پیسہ صنعت اور زراعت سے نکال کر بینکوں اور رئیل اسٹیٹ میں لگانا شروع کیا اور پاکستان میں ڈی ایچ اے سے لے کر دبئی میں ہاوسنگ سوسائٹیوں میں سرمایہ کاری کی یا پھر آئی پی پیز جیسے استحصالی منصوبوں سے منافع کمائے۔

لیکن جب صنعت اور زراعت تباہ ہورہے ہوں تو پھر ان قرضوں کو واپس کس نے کرنا تھا؟ یہاں پر اشرافیہ کی عیاشیوں کو قائم رکھنے کے لئے محنت کش عوام نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جب بھی بینک قرضے واپس مانگتے ہیں تو تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کمی کے ساتھ ساتھ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگادیا جاتا ہے۔ اگر معاملات وہاں پر بھی ختم نہ ہوں تو دریا، پہاڑ، معدنیات اور دیگر وسائل کو بیرونی کمپنیوں کو بیچنے کی کوشش کی جاتی ہے چاہے ماحولیات اور عوام تباہ ہوجائیں۔ اور اگر پھر بھی بات نہ بنے تو سامراجی جنگوں میں حصہ داری لی جاتی ہے تاکہ تباہی کے ذریعے جلد از جلد ڈالر بنائے جاسکیں۔

اس سب کا مطلب یہ ہے کہ غریب عوام اپنی زندگیاں اور بچوں کے مستقبل کو قربان کرکے ان قرضوں کا بوجھ اٹھارہی ہے جو ان تک کبھی نہیں پہنچے اور جو اشرافیہ کی اندرونی بندر بانٹ کا نتیجہ ہیں۔ بجٹ سے پہلے آئی ایم کے دو درجے کے ملازمین ہمارے لیڈران کو بتارہے ہوتے ہیں کہ بجٹ میں کیا لکھا جا سکتا ہے اور کیا نہیں۔ یہ آج طبقاتی حملے کی ایک اہم ترین شکل ہے جس میں عوام سے سہولیات چھین کر قرضے واپس کئے جاتے ہیں جس کی ذریعے چند لوگ منافع کماتے ہیں۔ محمد اورنگزیب انہی لوگوں میں سے ہیں جو اس بدترین استحصالی نظام کے ذریعے اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔

نیولبرلرزم مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ 45 فیصد عوام اب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے پاس ایک راستہ یہ ہے کہ اسی طرح قرضوں اور بینکوں کے ذریعے حکومت چلتی رہے جس میں عالمی سرمائے کے ملازم ملک اور عوام کو بیچتے رہیں۔ دوسرا راستہ ایک عوامی پروگرام کے اردگرد جدوجہد ہے جس کے زریعے معیشیت کو آئی ایم ایف اور بینکوں کے چنگل سے نکال کر ایک بار پھر اجتماعی مفادات اور صنعتی و زراعت کی ترقی کی طرف لے کر جایا جائے۔ پہلا راستہ مزید مہنگائی، چھ کینال، اور معدنیات کی جنگ کی طرف جاتا ہے۔ دوسرا تعلیم، صحت، امن اور روزگار کی طرف بڑھتا ہے۔ ایک سرمایہ داری کا راستہ ہے اور دوسرا سوشلزم کا۔ پاکستان کی محنت کش عوام کے لئے یہی دو آپشن موجود ہیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں