وحید مراد
پاکستان میں بورڈ امتحانات کا نظام رَٹے اور نمبروں کی دوڑ میں ایسا جکڑا ہوا ہے کہ طلبہ کے پاس سوچنے اور سمجھنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ حالیہ برسوں میں پرائمری اور مڈل سطح تک بورڈ امتحانات کا دائرہ بڑھانا اس دباؤ کو مزید گہرا کر رہا ہے جہاں بچے کم عمری میں ہی رٹے کے بوجھ تلے دبنے لگتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں جماعت پنجم کے بورڈ امتحان کا اعلان اسی سوچ کا تسلسل ہے جو تعلیم کو وقتی تیاری، عددی نتائج اور ظاہری کامیابی تک محدود کر دیتی ہے جبکہ سیکھنے کا عمل پیچھے رہ جاتا ہے۔
تین جون کو خیبر پختونخوا حکومت نے چیف سیکرٹری شہاب علی شاہ کی صدارت میں ایک اجلاس میں فیصلہ کیا کہ اگلے سال جماعت پنجم اور ہشتم کے سالانہ امتحانات تعلیمی بورڈ کے تحت منعقد ہوں گے۔ اس فیصلے میں تعلیمی بورڈز کے چیئرمینز اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران بھی شامل تھے۔ دوسری جانب پنجاب میں ایجوکیشن کرکولم ٹریننگ اینڈ اسسمنٹ اتھارٹی (PECTA) نے جماعت پنجم اور ہشتم کے بورڈ امتحانات کو منسوخ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ طلبہ کی تشخیص مسلسل اسکول کی سطح پر کی جائے گی تاکہ ان پر امتحانی دباؤ کم ہو اور حقیقی تعلیم کو فروغ دیا جا سکے۔ یہ فیصلہ پنجاب اسکول ایجوکیشن بورڈ (PSEB) کے اُس اعلان کی نفی ہے جو مارچ میں خیبر پختونخوا کی طرز پر شفافیت کے نام پر کیا گیا تھا۔
ایک ہی ملک میں دو مختلف صوبے، بچوں کی فلاح و بہبود کے نام پر متضاد پالیسیاں اپنا رہے ہیں۔ پنجاب حکومت ماضی میں بھی ایسے تجربات کر چکی ہے، جن کے نتائج ہمیشہ مایوس کن اور تباہ کن نکلے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ ہم تاریخ سے سیکھتے ہیں، نہ تجربات سے۔ ہم بار بار وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں، جیسے کوئی سبق سیکھنا ہی نہ چاہتے ہوں۔
یہ ساری صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں تعلیم کو رَٹا کلچر سے آزاد کرنے کے بجائے اسی کی جڑیں مزید مضبوط کی جا رہی ہیں۔ یہ نہایت تشویشناک بات ہے کہ جب دنیا تعلیم کو خوشگوار، تخلیقی اور بچے کی دلچسپی سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کر رہی ہے، ہم تعلیم کو سخت امتحانات اور نمبروں کے دباؤ میں جکڑ رہے ہیں۔ یہاں کا تعلیمی نظام صرف امتحانات، نمبر اور رزلٹ شیٹ پر مرکوز ہو کر بچوں کی تخلیقی، تنقیدی اور اخلاقی صلاحیتوں کو کچل رہا ہے۔ نقل، کرپشن اور جعلسازی جیسے مسائل اس نظام کے سائے میں پروان چڑھ رہے ہیں، اور تحقیق و جستجو پس منظر میں جا چکے ہیں۔
کم عمر بچوں پر بورڈ امتحانات کا بوجھ ڈالنا ایک ایسا رجحان ہے جو نہ صرف تعلیمی عمل کو متاثر کرتا ہے بلکہ بچوں کی نفسیاتی صحت پر بھی منفی اثر ڈال رہا ہے۔ بچے، والدین اور اساتذہ تینوں مسلسل دباؤ میں رہتے ہیں، جس کا نتیجہ اکثر تعلیم سے بیزاری، امتحانات سے خوف، اور اعتماد کی کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔ بچے جو عمر سیکھنے، دریافت کرنے اور مشاہدہ کرنے کی ہوتی ہے، وہ دباؤ اور خوف کے ماحول میں گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان میں سوال کرنے کی عادت ختم ہو جاتی ہے، اور وہ محض رَٹنے کو ہی تعلیم سمجھنے لگتے ہیں۔
تعلیم ایک تخلیقی، فطری اور مسلسل عمل ہے جسے بورڈ امتحانات نے ایک مقابلہ بنا دیا ہے۔ نمبر کم آنے پر شرمندگی، والدین کی ناراضگی اور اساتذہ کا سخت رویہ بچوں میں خوداعتمادی کی کمی اور سیکھنے سے خوف پیدا کرتا ہے۔ جس عمر میں بچوں کو خود کو پہچاننے، اپنی صلاحیتیں دریافت کرنے اور آزادی سے سیکھنے کے مواقع ملنے چاہئیں، اس عمر میں ہم انہیں صرف امتحانی مشینیں بنا رہے ہیں۔
میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات بھی مخصوص سوالات، اہم نکات اور لیک ہونے والے پرچوں تک محدود ہو چکے ہیں۔ سارا زور رَٹے پر ہے، اور تنقیدی سوچ، تجزیاتی مہارت اور عملی زندگی سے جڑا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ تعلیمی ادارے اور کوچنگ سینٹرز بچوں کو صرف پاس کروانے کی فیکٹریاں بن چکے ہیں، جہاں اساتذہ کا کردار بھی صرف گیس پیپرز اور پرچے حل کروانے تک محدود ہو گیا ہے۔ اس سارے عمل میں تعلیم کی اصل روح، یعنی شخصیت سازی، تخلیق اور عملی مہارت، دفن ہو چکی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک بھی ابھی تک رَٹے کے کچھ محرکات سے باہر نہیں آسکے کیونکہ تعلیم ایک انڈسٹری بن چکی ہے اور جب تک اسے سوشل ورک اورخدمت انسانیت کا درجہ نہیں دیا جاتا رٹا کلچر کے تمام عناصر کو ختم کرنا ممکن نہیں ۔مگر ان ممالک نے وقت کے ساتھ ساتھ رٹا کلچر کے کچھ عناصر پر قابو پالیا۔ وہاں بہتر کلاس رومز، جدید تدریسی طریقے، تربیت یافتہ اساتذہ، تحقیق کے مواقع اور بچوں کے لیے کم امتحانی دباؤ جیسے اقدامات نے تعلیم کو خوشگوار اور بامقصد بنایا۔ اگر ہم کہیں کہ رَٹا کلچر کے پچاس بڑے عوامل ہیں، تو ان ممالک نے ان میں سے بیس سے تیس کو ختم یا کم کر دیا ہے۔
مثال کے طور پر فن لینڈ میں ابتدائی جماعتوں میں کوئی رسمی گریڈنگ یا امتحان نہیں ہوتا، بلکہ تعلیم کا مرکز بچوں کی فطری تجسس اور سیکھنے کی خوشی ہوتی ہے۔ امریکہ میں بھی مہارت پر مبنی تشخیص کے نظام کو فروغ دیا جا رہا ہے، جہاں تخلیقی صلاحیت، تنقیدی سوچ، تعاون اور عملی کام کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ کئی ریاستوں نے ہائی اسکول میں معیاری امتحانات ختم کر دیے ہیں اور سیکھنے کے دوسرے انداز متعارف کروائے ہیں۔
اگر ہم واقعی تعلیم کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں امتحان پر مبنی سوچ سے باہر نکلنا ہوگا۔ ہمیں تعلیم کو سیکھنے، تخلیق اور شخصیت کی تعمیر کا ذریعہ بنانا ہوگا۔ جب تک ہم تعلیم کو نمبروں کی دوڑ سے آزاد نہیں کرتے، ہم ایک باشعور، تخلیقی اور ترقی یافتہ قوم نہیں بن سکتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تعلیم کو محض امتحانات، رَٹے اور گریڈز تک محدود نہ کریں۔ ہمیں ایسے تعلیمی نظام کی طرف بڑھنا ہے جو بچوں کی دلچسپی، فطری تجسس، تخلیقی صلاحیت اور اخلاقی تربیت کو فروغ دے۔ اساتذہ کی تربیت، نصاب کی اصلاح، اور بہتر تعلیمی ماحول جیسے اقدامات کے ذریعے ہی ہم ایک ایسا نظام تشکیل دے سکتے ہیں جو نہ صرف عالمی معیار پر پورا اترے، بلکہ ہمارے بچوں کو ایک روشن اور بامقصد مستقبل کی جانب بھی لے جائے۔