شہناز یوسفزئی
پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشرے میں کم عمری کی شادی ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو نہ صرف انسانی حقوق، بلکہ تعلیم، صحت اور معاشرتی ترقی جیسے بنیادی شعبوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اگرچہ ملکی قانون اور بین الاقوامی معاہدے اس عمل کی روک تھام کا تقاضا کرتے ہیں، لیکن ثقافتی روایات، معاشی محرکات اور سماجی دباؤ آج بھی اس رجحان کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
کم عمری کی شادی: تعارف اور پس منظر
کم عمری کی شادی سے مراد ایسے لڑکے یا لڑکی کی شادی ہے جو ابھی قانونی بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچا۔ پاکستان میں "سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013” کے تحت شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر ہے، جبکہ دیگر صوبوں میں یہ حد لڑکیوں کے لیے 16 سال ہے۔حال ہی میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے اس حوالے سے ایک اہم قانونی سازی کی ہے جس میں شادی کے لیے عمر کی حد اٹھارہ سال مقرر کی گئی ہے تاہم، UNICEF کے مطابق پاکستان میں ہر سال لاکھوں لڑکیاں 18 سال کی عمر سے پہلے بیاہ دی جاتی ہیں۔
سماجی عوامل
پاکستانی سماج میں کم عمری کی شادی کا رواج محض ایک انفرادی فیصلہ نہیں، بلکہ خاندانی اور معاشرتی سوچ کا مظہر ہے۔
عزت و غیرت کا تصور
بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کو "غیرت” کے نام پر جلد از جلد بیاہ دینا چاہتے ہیں تاکہ ان کی "عزت” محفوظ رہے۔ اس سوچ میں بچی کی تعلیم، جذبات، یا مستقبل کی خواہشات کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
روایتی رسومات
دیہی علاقوں میں قبائلی، جاگیردارانہ یا مذہبی اثرات کے باعث بچپن کی منگنی، ونی، سوارہ اور بدل کی شادی جیسے رواج عام ہیں، جن میں کم عمر بچیاں بطور "معاوضہ” دی جاتی ہیں۔
سماجی دباؤ اور جہیز کا خوف
والدین کو ڈر ہوتا ہے کہ اگر بیٹی کی عمر زیادہ ہو گئی تو رشتہ مشکل ہو جائے گا یا جہیز کا مطالبہ بڑھ جائے گا۔ اس لیے وہ کم عمری میں ہی بیٹیوں کو بیاہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
معاشی عوامل
کم عمری کی شادی صرف سماجی نہیں بلکہ ایک معاشی مسئلہ بھی ہے:
غربت کا چکر
غریب گھرانوں میں بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، اور والدین ان سے جلد از جلد "جان چھڑانے” کی کوشش کرتے ہیں۔ کم عمر بچیوں کی شادی والدین کے لیے ایک "بچاؤ” کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
تعلیم کی عدم دستیابی
ایسے علاقوں میں جہاں لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں، وہاں شادی کو ہی واحد راستہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ لڑکی نہ صرف اپنی زندگی بہتر بنا سکتی ہے بلکہ مستقبل کی نسلوں کو بھی سمارٹ بنا سکتی ہے۔
معاشی خودمختاری سے محرومی
کم عمر بچیوں کو اگر تعلیم اور ہنر کی سہولت نہ دی جائے تو وہ اپنے شوہروں پر معاشی طور پر انحصار کرتی رہتی ہیں، جس سے عدم برابری اور گھریلو تشدد جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔
نفسیاتی اثرات
کم عمری کی شادی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اور جذباتی صحت پر بھی گہرے اثرات ڈالتی ہے۔
ذہنی دباؤ اور ڈپریشن
نوعمر بچیاں شادی جیسے بڑے رشتے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتیں۔ شوہر کے ساتھ تعلقات، سسرال کا دباؤ، اور ماں بننے کی ذمہ داریاں انہیں شدید ذہنی دباؤ کا شکار بنا سکتی ہیں۔
خود اعتمادی کی کمی
کم عمری میں شادی سے لڑکیوں میں خود اعتمادی کی شدید کمی دیکھی جاتی ہے۔ وہ اپنی رائے دینے سے ڈرتی ہیں اور اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل نہیں بنتیں۔
تشدد کا شکار
UNICEF
اور دیگر اداروں کے مطابق، کم عمر دلہنوں میں گھریلو تشدد، جنسی استحصال اور معاشرتی تنہائی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
صحت پر اثرات
کم عمری میں شادی اور خاص طور پر حمل، ماں اور بچے دونوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
زچگی کے خطرات
WHO کے مطابق، 15 سے 19 سال کی عمر میں حاملہ ہونے والی لڑکیوں میں زچگی کے دوران اموات کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے جسم حمل اور زچگی کے لیے مکمل تیار نہیں ہوتے۔
نومولود کی صحت
ایسی ماؤں کے بچوں میں پیدائشی نقص، غذائی کمی اور کم وزن جیسے مسائل عام ہوتے ہیں، جو آئندہ نسلوں کے صحت مند معاشرے کی تشکیل میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
قانونی اور پالیسی چیلنجز
پاکستان میں قانون موجود ہے، لیکن ان پر عملدرآمد کا فقدان ایک بڑا مسئلہ ہے۔
قانون کا عدم نفاذ
سندھ کے علاوہ باقی صوبوں میں اب بھی شادی کی عمر 16 سال ہے، اور پولیس و عدالتوں میں ایسے کیسز کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
شرعی و مذہبی اعتراضات
کچھ حلقے شادی کی عمر مقرر کرنے کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔ تاہم، حالیہ فیصلہ (2024) میں وفاقی شرعی عدالت نے قرار دیا ہے کہ شادی کی کم از کم عمر مقرر کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں بلکہ مقاصد شریعت کے عین مطابق ہے۔
سماجی مزاحمت
قانونی اصلاحات کے باوجود، عوام میں شعور اور سماجی سوچ میں تبدیلی نہ آنے کے باعث کم عمری کی شادی بدستور جاری ہے۔
ممکنہ حل اور سفارشات:
تعلیم کا فروغ
ہر بچی کو کم از کم ہائی اسکول تک تعلیم دینا ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ تعلیمی ادارے لڑکیوں کے لیے محفوظ، معیاری اور قابلِ رسائی ہوں۔
قانونی اصلاحات
تمام صوبوں میں شادی کی عمر کم از کم 18 سال مقرر کی جائے، اور خلاف ورزی پر سخت سزا کا تعین ہو۔ پولیس اور عدلیہ کو خصوصی تربیت دی جائے تاکہ ایسے کیسز کو حساسیت سے نمٹا جائے۔
عوامی آگاہی
میڈیا، علماء، اساتذہ اور سوشل ورکرز کو چاہیے کہ عوام کو کم عمری کی شادی کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ دینی خطبات اور مدرسوں کے نصاب میں بھی اس موضوع کو شامل کیا جانا چاہیے۔
لڑکیوں کو بااختیار بنانا
ہنر مند تعلیم، ووکیشنل ٹریننگ اور مائیکروفنانس کی سہولیات کے ذریعے لڑکیوں کو معاشی طور پر خود مختار بنایا جائے تاکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود لے سکیں۔
کم عمری کی شادی ایک ایسا مسئلہ ہے جو صرف فرد یا خاندان کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا ہے۔ یہ ہماری اجتماعی سوچ، نظام تعلیم، صحت، قانون اور مذہب سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔ اس کا حل صرف قانون سازی سے نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت معاشرتی تبدیلی سے ممکن ہے۔ اگر ہم واقعی ایک تعلیم یافتہ، صحت مند اور بااختیار پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں تو ہمیں بچیوں کو بچپن دینے، ان کے خوابوں کو پنکھ دینے اور ان کی آزادی کو تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔