Skip to content

شادی کے لیے عمر کی کم از کم حد مقرر کرنے کے قانون پر فیڈرل شریعت کورٹ کا اہم فیصلہ!

شیئر

شیئر

اسلام آباد

اس پٹیشن میں فیڈرل شریعت کورٹ کے دو رکنی بنچ، جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور (فیصلہ کے مصنف جج) اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ کے سامنے بنیادی سوال یہ تھا کہ کیا Sindh Child Marriage Restraint Act 2013 کے تحت شادی کی عمر کی کم از کم حد مقرر کرنا اسلامی احکامات کے خلاف ہے یا نہیں۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ کراچی کے ایک شہری علی اظہر نے آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 203-D کے تحت یہ شریعت پٹیشن دائر کی۔ اس آرٹیکل کے تحت فیڈرل شریعت کورٹ از خود یا وفاقی و صوبائی حکومتوں کی درخواست پر یا کسی بھی شہری کی پٹیشن پر اس سوال کا جائزہ لے سکتی ہے کہ کوئی بھی قانون قرآن اور سنت رسول کے خلاف ہے یا نہیں۔
اس پٹیشن میں پٹیشنر نے اپنی بیوی، آرزو فاطمہ، صوبہ سندھ اور متعلقہ سرکاری اداروں اور محکموں کو فریق مخالف بنایا ہے اور کچھ گذارشات کیں۔ عدالت نے صرف تین گذارشات کو قابلِ غور سمجھا اور ان پر فیصلہ دیا جبکہ باقی گذارشات میں پٹیشنر نے ذاتی ریلیف مانگا تھا۔ چونکہ ذاتی ریلیف دینا فیڈرل شریعت کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، اس لیے باقی گذارشات فیڈرل شریعت کورٹ کے لیے قابلِ سماعت نہ تھیں۔ جو گذارشات قابلِ سماعت ٹھہریں مندرج ذیل ہیں:
(الف) یہ ڈکلیئر کیا جائے کہ Sindh Child Marriage Restraint Act 2013 کا دائرہ اثر و اطلاق اسلامی احکامات اور آئین کے خلاف ہے۔ اس لیے اس کا اطلاق سندھ کے مسلمانوں پر نہ ہو گا۔
(ب) یہ ڈکلیئر کیا جائے کہ اس ایکٹ کے سیکشن 2(a) میں Child کی دی گئی تعریف کا اطلاق ہر اس مسلمان پر ہوگا جس میں بلوغت کے آثار موجود ہوں۔
(ج) یہ ڈکلیئر کیا جائے کہ اس ایکٹ کا سیکشن 8 اسلامی و شرعی احکامات کے خلاف ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس پٹیشن میں ذاتی ریلیف مانگتے ہوئے پٹیشنر نے درخواست کی کہ آرزو فاطمہ سے میرا نکاح قانون و شرعی قرار دیتے ہوئے اس کا اجرا کیا جائے اور آرزو فاطمہ کو بیوی تسلیم کیا جائے۔ ساتھ ہی سندھ حکومت کو حکم دیا جائے کہ آرزو فاطمہ کی کسٹڈی مجھے دی جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پٹیشنر نے آرزو فاطمہ نامی کسی لڑکی سے نکاح کیا جبکہ اس کی عمر Sindh Child Marriage Restraint Act 2013 میں شادی کے لیے مقرر کردہ حد سے کم تھی جس پر سندھ حکومت نے ایکشن لیا اور متعلقہ اداروں نے اپنی کاروائی کی۔ ان ذاتی گذارشات کو عدالت نے اپنے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا اور متذکرہ بالا تین گذارشات پر فیصلہ سنایا۔
مزید تفصیل سے پہلے مذکورہ ایکٹ کے سیکشن 2(a) اور سیکشن کا 8 کا حوالہ لازمی ہے کہ بات سمجھنا آسان ہو۔
“2. In this Act, unless there is anything repugnant in the subject or context –
(a) "child” means a person, male or female, who is under eighteen years of age.
“8. Notwithstanding anything contained in the Code, an offence punishable under this Act shall be cognizable, non-bailable and non-compoundable.”
مذکورہ بالا ایکٹ کے ان سیکشنز کو چیلنج کرتے ہوئے پٹیشنر نے نکاح کے متعلق کچھ قرآنی آیات (سورۃ الروم: 21، سورۃ النساء: 1 اور 129، سورۃ النور: 32-33، سورۃ الفرقان: 74 اور سورۃ البقرہ: 187) اور احادیث کو بطورِ دلیل پیش کیا۔
عدالت نے ان دلائل پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ان کا تعلق شادی کے لیے عمر کی حد مقرر کرنے سے نہیں، جو کہ اصل سوال ہے، بلکہ یہ نکاح/شادی کی بطورِ معاہدہ اہمیت کے ضمن میں ہیں۔
عدالت نے نکاح کو معاشرے کی تشکیل کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں نکاح صرف جنسی تعلق کو قانونی جواز فراہم نہیں کرتا بلکہ یہ زن و شو پر کچھ حقوق و فرائض عائد کرتا ہے۔ لہذا محض جسمانی بلوغت کو نکاح کی شرط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں عدالت نے زن و شو کے تعلق کی نوعیت بیان کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس رشتے میں مرد اور عورت دونوں کی حیثیت برابر ہے۔ البتہ شوہر پر اضافی ذمہ عائد کیا گیا ہے کہ بیوی کے نان و نفقہ پورا کرے اور اس کی حفاظت کرے۔
جملہ باتوں کو بنیاد بنا کر عدالت نے اس ضرورت کو واضح کیا کہ اس تعلق کی کامیابی کے لیے جسمانی بلوغت کے ساتھ ساتھ ذہنی بلوغت/ رشد، نفسیاتی استحکام اور مضبوط معاشی حالت بھی ضروری شرائط ہیں۔ اس ضمن میں فیصلہ میں سورۃ البقرہ آیت نمبر 228 اور 187 کا حوالہ دیا گیا ہے، جب کہ ذہنی بلوغت کی ضرورت کو خصوصاً واضح کرنے کے لیے سورۃ النساء آیت نمبر 6 پر انحصار کیا گیا ہے۔
اس کے بعد عدالت نے رشد کی عمر کا تعین کرتے واضح کیا کہ فقہ حنفی میں جسمانی بلوغت کی عمر زیادہ سے زیادہ پندرہ سال اور رشد کی عمر زیادہ سے زیادہ 25 سال ہے۔ (بحوالہ المبسوط از سرخسی، قاموس الفقہ از مولانا سیف اللہ رحمان، احکام القرآن از جصاص)۔
نکاح کے لیے جسمانی بلوغت اور رشد کو بنیادی شرط قرار دیتے ہوئے اس کی تفصیل کے لیے عدالت نے معارف القرآن، تفہیم القرآن اور ضیاء القرآن کے تفسیری حوالے دیے۔
عدالت نے یہ اصول واضح کیا کہ نکاح کوئی مطلق حق نہیں بلکہ یہ موضوعی حق ہے جو کئی پہلوؤں پر منحصر ہے۔ فقہا کے نزدیک کچھ خاص شرائط کی عدم موجودگی میں نکاح قرآن و سنت میں موجود اسلامی احکامات کے مطابق قابلِ قبول نہ ہوگا۔ لہذا نکاح کی شرعی و قانونی حیثیت بہت سے عوامل پر منحصر ہے۔ کبھی یہ فرض ہوگا، کبھی واجب، مستحب، مکروہ اور کبھی تو حرام ہو گا۔
متذکرہ بالا مختلف پہلوؤں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے عدالت نے سورۃ النساء آیت نمبر 25 اور 33، صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5066 اور ایک عدالتی نظیر PLD 2022 FSC 1 کا حوالہ دیا۔
اس عدالتی نظیر میں مختلف احادیث اور مختلف علماء و فقہاء کی آراء اور کتب کے حوالہ جات سے واضح کیا گیا تھا کہ مقاصد شریعت کو مدنظر رکھیں تو علم ہوتا ہے کہ نکاح کا مقصد حفظ النسل ہے یعنی آئندہ نسل کی ہر پہلو سے حفاظت اور نشونما کے اقدامات۔ اور یہ بات واضح کی گئی حفظ النسل کے لیے تحصیل علم اور حفظ العقل کی ضرورت ہے۔ لہذا یہ بھی نکاح کے لیے مقاصد شریعت کا حصہ ہیں۔ حفظ العقل سے مراد ذہن کی علمی و عقلی نشونما ہے۔
ان تمام دلائل کی بنیاد پر عدالت نے فیصلہ کرتے ہوئے قرار دیا کہ نکاح کے لیے کم از کم حد مقرر کرنا اسلامی احکامات کے منافی نہیں ہے۔ یہ مباح (جائز) ہے کیوں کہ اس سے کسی بھی شخص خصوصاََ لڑکیوں کو تحصیل علم اور حفظ العقل کا پورا موقع ملتا ہے اور شریعت کے مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ Sindh Child Marriage Restraint Act 2013 کے سیکشن 8 پر اعتراض کے حوالے سے عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ سد الذرائع کے تحت کسی بھی حرام کاری اور سماجی برائی کو روکنے کے لیے نہ صرف اس حرام کاری اور برائی کو اصلاََ بلکہ ان تک جانے کے ذرائع کو بھی ممنوع قرار دیا جا سکتا ہے اور اسلامی فقہ کے اصول، مصالح مرسلہ، کے تحت ریاست کو اختیار ہے کہ اس قسم کی قانون سازی کر سکے۔
فقہ میں مصالح مرسلہ سے مراد کسی بھی امر میں اسلامی ریاست کا مقاصد شریعت کی حفاظت اور مفاد عامہ کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کرنا ہے۔
عمر کی کم از کم حد مقرر کرنے کے حوالے سے ایک اعتراض پٹیشنر نے یہ اٹھایا تھا کہ اس سے ضعیف العمر والدین، جو بچیوں کی ذمہ داری سے جلد از جلد سبک دوش ہونا چاہتے ہیں، کے لیے کئی مثال جنم لیتے ہیں۔ عدالت نے خصوصی حالات (exceptional circumstances) کے ضمن میں اس اعتراض کو تسلیم کیا اور ہدایت کی کہ اس کے لیے موزوں پلیٹ فارم سندھ کی صوبائی حکومت ہے کہ خصوصی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس حوالے سے قانون سازی کرے۔
آخر میں کچھ مسلم ممالک، جہاں شادی کے لیے کم از کم عمر کی حد موجود ہے، کی مثال دیتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ اس ایکٹ کا سیکشن 2(a) قرآن و سنت میں بیان کردہ اسلامی احکامات سے متصادم نہیں ہے اور یہ پٹیشن خارج کر دی گئی۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں