عائلی عدالتوں کی جانب سے تنسیخ نکاح بوجہ ظلم و زیادتی کو تنسیخ نکاح بزریعہ خلع میں تبدیل کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا ایک نہایت ہی اہم فیصلہ !
فیصلے کی تفصیل میں جانے سے پہلے کیس کے مختصر حقائق کچھ یوں ہیں کہ:
سات اگست دو ہزار چودہ کو صائمہ نامی ایک عورت نے ایبٹ آباد کی مقامی عائلی عدالت یعنی فیملی کورٹ میں ابراہیم خان نامی ایک شہری کے خلاف مندرجہ ذیل دو کیسز جمع کیے :
پہلا دعویٰ : تکذیب نکاح یعنی کہ ابراہیم خان ، صائمہ کا شوہر ہونے کا جھوٹا دعویدار ہے اور اگر یہ بات ثابت نہیں ہوپاتی تو متبادل کے طور پر تنسیخ نکاح بوجہ ظلم و زیادتی کا فیصلہ اور اس کے ساتھ ساتھ سامان جہیز اور مہر کے دلاپانے کا دعویٰ۔
دوسرا دعویٰ : دوسرا دعویٰ صائمہ کی طرف سے یہ دائر کیا گیا کہ اس کو نان نفقہ دیا جائے اور متبادل کے طور پر مکان کا قبضہ یا اس کی موجودہ بازاری قیمت اس کو ادا کی جائے۔
یاد رہے کہ صائمہ کی جانب سے مندرجہ بالا دونوں کیسز کے جواب میں نہ صرف جواب دعویٰ جمع کرایا جاتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ دعویٰ اعادہ حقوق زن آشوئ بھی جمع کرایا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا دونوں کیسز کا فیصلہ فیملی کورٹ کی جانب سے چھبیس نومبر دو ہزار پندرہ کو کیا جاتا ہے جس کے مطابق عدالت نے نہ صرف صائمہ کو تنسیخ نکاح بزریعہ خلع بشرط معافی مہر کا فیصلہ بلکہ ساتھ ہی ساتھ نان نفقے بشمول عدت کے دورانیے اور سامان جہیز بھی واپس کرنے کا فیصلہ دے دیتی ہے جبکہ دوسری طرف شوہر کی جانب سے کیے جانے والے دعویٰ اعادہ حقوق زن آشوئ کو خارج کر دیا جاتا ہے۔ عائلی عدالت کے اس فیصلے کو ضلعی عدالت کی جانب سے بھی اپیل کے موقع پر برقرار رکھا جاتا ہے لیکن خاتون کے نان نفقے کی رقم میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ صائمہ کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ سے بدیں وجہ رجوع کیا جاتا ہے کہ اس نے کیس میں کہیں پر بھی خلع کی استدعا نہیں کی بلکہ اس کا دعویٰ تو تنسیخ نکاح بوجہ ظلم و زیادتی تھا۔ عدالت عالیہ نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد نچلی دونوں عدالتوں یعنی عائلی جج اور ضلعی جج کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ چونکہ اس کیس میں تو ابراہیم خان پہلے ہی صائمہ کو طلاق دے چکا ہوتا ہے تو پھر خلع کی ضرورت کہاں سے آگئی اور اسی وجہ سے عدالت نے ابراہیم خان کو حکم دیا کہ وہ صائمہ کو حق مہر ادا کرے۔
عدالت عالیہ کے اس فیصلے کے خلاف ابراہیم خان نے عدالت عظمی سے اس لئے رجوع کیا کہ نہ صرف فیملی کورٹ بلکہ ضلعی عدالت کا فیصلہ اس لئے درست تھا کیونکہ صائمہ ، میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھی تو اس لئے عدالت نے اس کو خلع دیا اور دوسرا چونکہ ابراہیم کا دعویٰ یہ تھا کہ اس نے صائمہ کو طلاق نہیں دی تو اس لئے صائمہ مہر کی حقدار نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے سامنے فیصلے کی تفصیل میں جانے سے پہلے ایک اہم سوال رکھا ہے اور وہ یہ کہ اس کیس میں اصل تنازعہ یہ ہے کہ کیا شوہر نے طلاق دی ہے یا نہیں لیکن شوہر یعنی ابراہیم کی خیال میں عدالت کی جانب سے خلع دینا درست ہے لیکن اس کی جانب سے طلاق دینا متنازعہ ہے تو اس لئے عدالت نے اپنے سامنے مسئلہ صرف یہ رکھا ہے کہ کیا جب ایک کیس میں عورت کی جانب سے تنسیخ نکاح بزریعہ ظلم و زیادتی مانگی ہو تو کیا عدالت عورت کے اس استدعا کو تنسیخ نکاح بزریعہ خلع میں خود سے تبدیل کر سکتی ہے اور خاص کر جب عورت نے خلع مانگی ہی نہ ہو۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کا آغاز محمڈن لا کے پیراگراف نمبر تین سو انیس ( دو ) سے کیا ہے جس کے مطابق خلع بنیادی طور پر میاں بیوی کے درمیان ایک لین دین ہے جس کی ابتداء بیوی کی جانب سے ہوتی ہے جس میں وہ شوہر کو اس کو آزاد کرنے کی خاطر معاوضہ آفر کرتی ہے تو جس کو اگر شوہر تسلیم کرتا ہے تو یہ طلاق بزریعہ خلع کہلائے گا جو کہ ایک طلاق بائن کے برابر ہے۔ مندرجہ بالا تمہید کے بعد عدالت نے خلع کی تاریخ پر مشتمل ایک خوبصورت بحث مرتب کیا ہے جس کا آغاز عدالت نے مشہور زمانہ فیصلے خورشید بی بی بنام بابو محمد امین سے کیا ہے جب کہ اختتام وفاقی شرعی عدالت کے حال ہی میں آنے والے فیصلے حاجی سیف الرحمان کیس پر کیا ہے۔ اس پیراگراف کا خلاصہ یہ ہے کہ خلع عورت کا ایک ایسا بنیادی حق ہے کہ جس کے حصول کے لئے عورت کا کوئ وجہ بتانا ضروری نہیں ہے بلکہ عورت کا صرف یہ کہنا کافی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور عدالت عورت کو خلع شوہر کی بغیر کسی غلطی کے بھی دے سکتی ہے۔
خلع پر ایک طویل بحث کے بعد عدالت نے تنسیخ نکاح بوجہ ظلم و زیادتی کا رخ کیا ہے اور اس ضمن میں عدالت نے ڈزالوشن آف مسلم میرج ایکٹ انیس سو انتالیس کی تاریخ و مقصد پر ایک لمبی بحث لکھی ہے۔ عدالت نے مختلف کتب و آرٹیکلز کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ اس ایکٹ کو معرض وجود میں لانے کے پیچھے ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ چونکہ حنفی فقہاء کے نزدیک خلع میں بھی شوہر کی رضامندی لازمی ہے تو یہ بات کولونیل دور کے قانون دانوں کو قدرتی انصاف کے اصولوں کے خلاف لگ رہی تھی تو مندرجہ بالا باتوں کو دیکھتے ہوئے اس ایکٹ کا قیام انیس سو چھتیس میں عمل میں لایا گیا۔
ڈزالوشن آف مسلم میرج ایکٹ اور خلع کے حوالے سے بحث پر مشتمل پیراگراف کا نتیجہ عدالت نے یہ نکالا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے مکمل مختلف وہ حقوق ہیں جن کے تحت ایک عورت اپنی شادی کا اختتام کر سکتی ہے۔ ڈزالوشن آف مسلم میرج ایکٹ کے تحت تنسیخ نکاح اور خلع کے زریعے تنسیخ نکاح میں فرق مندرجہ ذیل ہے:
الف ) ڈزالوشن آف مسلم میرج ایکٹ کے نیچے جب کوئ عورت عدالت کا رخ کرتی ہے اور عدالت سے کسی گروانڈ ( ظلم و زیادتی وغیرہ ) کی بناء پر نکاح کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کو فسخ کہا جاتا ہے جب کہ دوسری طرف خلع کے لئے کوئ بھی وجہ ضروری نہیں ہے۔
ب ) ڈزالوشن آف مسلم میرج ایکٹ کے تحت تنسیخ نکاح کے لئے عورت کی جانب سے بتائی جانی والی وجہ کو جب عورت ثابت کر لیتی ہے تو عورت کا حق مہر برقرار رہتا ہے جب کہ خلع کی صورت میں عورت کو اپنا حق مہر معاف کرنا پڑتا ہے۔
ج ) خلع کی صورت میں فریقین کے درمیان ابتدائی ثالثی ناکام ہونے کے بعد عدالت پر لازمی ہے کہ وہ فورا بیوی کو خلع کی ڈگری دے جب کہ ڈزالوشن آف مسلم میرج ایکٹ کے تحت فیصلہ صرف تب دیا جا سکتا ہے جب شہادت مکمل ہو جائے۔
خلع ، تنسیخ نکاح ، فسخ اور ڈزالوشن آف مسلم میرج ایکٹ پر بحث کے بعد عدالت اپنے سامنے موجودہ سوال پر آئ ہے اور قرار دیا کہ چونکہ اس کیس میں عورت کی جانب سے تنسیخ نکاح بوجہ ظلم و زیادتی کا کیس تھا اور یہ بات ریکارڈ سے بھی صاف ظاہر ہے تو چونکہ خلع کے حوالے سے مندرجہ بالا بحث کے بعد اب ظاہر ہے کہ عدالت خلع تب تک خلع نہیں دے سکتی جب تک عورت خود صراحت کے ساتھ خلع کا مطالبہ نہ کرے تو اس لئے عائلی عدالت اور ضلعی جج کی جانب سے خلع کا فیصلہ دینا غلط تھا۔
یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ حل کرنے کے بعد عدالت نے اپنے سامنے موجود دوسرے مسئلے کا رخ کیا ہے کہ کیا ابراہیم خان ، صائمہ کو طلاق دے چکا تھا یا نہیں تو اس بابت عدالت نے صائمہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے اس نکتے کو تسلیم کیا ہے کہ ابراہیم خان نے اسے نہ صرف پولیس تھانے میں طلاق دی تھی بلکہ جرگہ کے سامنے بھی طلاق دی تھی جس کے گواہ بھی موجود ہیں اور انھوں نے شہادت کے موقع پر گواہی بھی دی۔ تو اس لئے عدالت نے طلاق کے معاملے میں عدالت عالیہ کے فیصلے کو درست تسلیم کیا ہے۔ جس کے بعد عدالت نے ابراہیم خان کو حکم دیا کہ وہ صائمہ کو حق مہر کی ادائیگی کرے جو کہ گھر کا آدھا حصہ بنتا ہے۔
اس اہم کیس کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں فاضل جسٹس صاحبہ نے ہمارے استاد محترم ڈاکٹر محمد منیر صاحب کے خلع کے حوالے سے لکھئے گئے آرٹیکل کا جا بجا حوالہ دیا ہے جب کہ ہمارے ایک اور استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر زبیر عباسی صاحب اور پروفیسر ڈاکٹر شہباز چیمہ صاحب کی مشترکہ کتاب فیملی لاز ان پاکستان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
اس انتہائی اہم کیس کا خلاصہ یہ ہے کہ عدالتوں کی جانب سے از خود تنسیخ نکاح بوجہ ظلم و زیادتی کے مقدمات کو تنسیخ نکاح بوجہ خلع کے مقدمے میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
یاد رہے کہ یہ اہم فیصلہ جسٹس عائشہ ملک صاحبہ نے لکھا ہے جن کے ساتھ بینچ میں موجود جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب اور جسٹس امین الدین خان نے اتفاق کیا ہے اور یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔
تحریر ذوالقرنین ایڈوکیٹ
بشکریہ قانون و انصاف۔