وحیدمراد
ہم میں سے اکثر رٹا کلچر کا الزام صرف تعلیمی نظام پر ڈال دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ والدین بھی اس کلچر کے فروغ میں برابر کے شریک ہیں۔ زیادہ تر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے صرف زیادہ نمبر اور اعلیٰ گریڈ حاصل کریں چاہے اس کے لیے انہیں سمجھے بغیر رٹنا پڑے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے امتحان میں اچھے نمبر لینے کے چکر میں محض یاد کرنے کی مشق کرتے ہیں اور علم کو سمجھنے اور اس کا عملی استعمال سیکھنے سے محروم رہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں یہ سوچ جڑ پکڑ چکی ہے کہ کامیابی کا واحد پیمانہ اچھے نمبر ہیں۔ اسی سوچ کے تحت والدین لاشعوری طور پر اپنے بچوں کو سیکھنےکے بجائے یاد کرنے کی دوڑ میں دھکیلتے ہیں۔ اگر بچہ کسی سوال کا جواب غلط دے تو والدین ناراض ہو جاتے ہیں۔ اسے سیکھنے اور غلطی سے سیکھنے کا موقع دینے کے بجائے ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں۔ امتحانات کے دنوں میں تو گھر کا ماحول ہی بدل جاتا ہے۔ والدین بھی بچوں کے ساتھ مل کر طوطے کی طرح رٹوانے میں لگ جاتے ہیں۔ گویا نمبر آنا ہی سب کچھ ہو، چاہے علم دل و دماغ تک پہنچے یا نہ پہنچے۔
اگر کوئی بچہ ریاضی میں نوے، پچانوے فیصد نمبر لے آئے تو والدین خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں۔ لیکن کتنے والدین یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا بچہ واقعی اس مضمون کو سمجھ پایا ہے یا بس مخصوص سوالات یاد کر کے آیا ہے؟ یہی بچہ جب مختلف صورتحال میں کسی اصلی مسئلے اورسوال سے دوچار ہوتا ہے تو گھبرا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس رٹے کا مواد تو ہوتاہے ،سوچنے اور مسئلہ حل کرنے کی مہارت نہیں ہوتی۔
اکثر والدین اپنے بچوں کو نصاب سے باہر سیکھنے کا موقع بھی نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک صرف وہی علم کارآمد ہے جو امتحان کے پرچے میں آئے۔ اگر بچہ کسی سبق کے دوران یہ پوچھ بیٹھے کہ "یہ زندگی میں کہاں کام آئے گا؟” تو فوری جواب ملتا ہے ” فضول باتوں میں اپنا وقت ضائع مت کرو!” ۔ جب کوئی بچہ پائیتھاگورس تھیورم پڑھتے ہوئے پوچھے کہ "یہ اصل زندگی میں کس کام آتا ہے؟” تو اکثر والدین اور اساتذہ اسے خاموش کرا دیتے ہیں کہ "بس تھیورم یاد کرو اور سوال حل کرو!” نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے کے اندر علم کی وسعت اور تخلیقی سوچ پروان نہیں چڑھتی۔
ہمارے تعلیمی اور گھریلو ماحول میں بچوں کی غلطیوں کو سیکھنے کے مواقع کے بجائے کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ جب بچہ کوئی آسان سا سوال غلط کر بیٹھتا ہے تو والدین اکثر کہہ دیتے ہیں: "یہ اتنا آسان تھا تم سے یہ بھی نہیں ہوا؟” حالانکہ بہتر رویہ یہ ہوتا کہ نرمی سے کہا جائے "چلو دیکھتے ہیں کہاں غلطی ہوئی اور اسے کیسے درست کیا جا سکتا ہے ” ۔ یہی انداز بچے کی خوداعتمادی کو بڑھاتا ہے اور اسے تجزیاتی اور تنقیدی سوچ سکھاتا ہے۔ غلطی سیکھنے کا پہلا زینہ ہے مگر بدقسمتی سے ہم اسے ناکامی کا لیبل بنا دیتے ہیں۔
میرے بیس سالہ تدریسی تجربے میں مجھے صرف ایک ماں ملی جو اس رٹے اور حقیقی علم کے فرق کو بخوبی سمجھتی تھی۔ چند سال پہلے وہ اپنے دو بچوں کو میرے پاس ریاضی پڑھوانے کے لیے لے کر آئیں۔ باتوں ہی باتوں میں انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق روس کے شہر ماسکو سے ہے، ان کی شادی ایک پاکستانی شہری سے ہوئی اور اب وہ کراچی میں مقیم ہیں۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا: "آپ ریاضی کے استاد ہیں، میرا تجربہ ہے کہ ریاضی کے استاد ذرا خشک اور جبر کرنے والے ہوتے ہیں۔ براہِ کرم میرے بچوں پر ایسا بوجھ نہ ڈالیں۔ میں نے خود ماسکو یونیورسٹی سے بیچلرز کیا، ریاضی میں اتنے رٹے لگائے کہ اب کچھ یاد نہیں۔ علم وہی ہوتا ہے جو زندگی میں کام آئے، جب آخر میں سب بھول ہی جانا ہے تو بچوں کو ابھی سے کیوں ستایا جائے؟ ہاں، جو سبق روزمرہ زندگی میں کام آتے ہیں وہ ضرور سکھائیں اور اتنا خیال رکھیں کہ یہ اسکول میں پاس ہوتے رہیں ورنہ اسکول والے مجھے پریشان کریں گے!” ان کی بات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ شاید سیکھنے کا یہی توازن ہونا چاہیے، علم کا حصول بھی اور زندگی کا سکون بھی۔
اگر والدین اپنی ساری توجہ صرف رپورٹ کارڈ کے نمبروں پر مرکوز رکھیں گے اور حقیقی علم کو نظرانداز کریں گے تو پھر وہ خود بھی اس رٹا کلچر کو فروغ دے رہے ہوں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ بیٹھیں، ان سے بات کریں اور یہ سمجھائیں کہ علم صرف رٹنے کے لیے نہیں بلکہ سمجھنے اور زندگی میں استعمال کرنے کے لیے ہے۔ امتحانات میں اگر نمبر کم آئیں تو مایوسی کے بجائے بچوں کی حوصلہ افزائی کریں، ان سے سوالات پوچھیں اور انہیں نئے زاویے سے سوچنے کی آزادی دیں۔ یہی آزادی ان کی تخلیقی اور تجزیاتی صلاحیتوں کو نکھارے گی۔
تعلیم کا مقصد صرف ڈگریاں اور گریڈز حاصل کرنا نہیں بلکہ اصل کامیابی اس میں ہے کہ بچے میں سیکھنے کی لگن پیدا ہو، اس کے اندر مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت ہو اور وہ علم کو اپنی زندگی میں بروئے کار لانا سیکھے۔ اگر والدین واقعی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے رٹے کے جال سے نکلیں تو سب سے پہلے انہیں خود اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔ سیکھنے کے عمل کو دباؤ کے بجائے ایک خوشگوار اور دلچسپ سفر بنائیں تاکہ بچے علم کو صرف امتحان کی تیاری نہ سمجھیں بلکہ زندگی کا حصہ بنا سکیں۔