ڈاکٹر جزبیہ شیریں
جب کوئی انسان اپنے کیریئر میں چیلنجز کا سامنا کرتا ہے، تو وہ کسی حد تک سماجی حمایت، خاندان اور دوستوں کی ہمدردی پا لیتا ہے۔ مگر جب بات آتی ہے پی ایچ ڈی کے طلباء کی، تو ان کی دنیا بہت الگ اور پیچیدہ ہوتی ہے۔ وہ نہ صرف تعلیمی دباؤ کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں بلکہ ان کی ذاتی زندگی بھی اکثر منتشر ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ذہنی دباؤ، تنہائی، اور غیر یقینی کی کیفیت ان کی روزمرہ کا حصہ بن جاتی ہے۔
یہ ایک ایسا سفر ہے جس میں دن کے کئی گھنٹے کتابوں، تحقیقی پیپرز، تجربات اور لکھائی میں گزرتے ہیں، مگر دل اکثر تنہا، بے چین اور اداس رہتا ہے۔ پی ایچ ڈی کا طالب علم ایک ایسی کشتی میں ہوتا ہے جس کا ساحل دور اور راستہ مشکل ہوتا ہے۔ اس راستے میں اس کی حمایت کرنے والے کم ہوتے ہیں ، کیونکہ یہ دباؤ عام لوگوں کو سمجھ نہیں آتا۔ اکثر لوگ صرف نتیجہ دیکھتے ہیں—ڈگری، مقالہ مکمل ہونا، یا کامیابی کا اعلان۔ مگر وہ وہ بے شمار دن اور راتیں نہیں دیکھ پاتے جب طالب علم خود کو ناکام، تنہا، اور بے مقصد محسوس کرتا ہے۔
پی ایچ ڈی کے طلباء کو اکثر خود کو ثابت کرنے کا ایسا دباؤ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کو چھپانے لگتے ہیں۔ کوئی نہیں چاہتا کہ اس کے سپروائزر یا ساتھی اسے کمزور سمجھے، اس لیے وہ اپنے جذبات چھپانے کے لیے مصنوعی مسکراہٹوں کا سہارا لیتے ہیں۔ مگر جب رات کے سناٹے میں وہ اپنے کمرے کی دیواروں سے بات کرتے ہیں، تو وہی دل کی ٹوٹ پھوٹ نظر آتی ہے جو دن بھر چھپی رہتی ہے۔
سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یہ کشمکش اکثر اندرونی ہوتی ہے، اور اسے باہر کے لوگ سمجھ نہیں پاتے۔ پی ایچ ڈی کا طالب علم کئی بار خود کو ایک جزیرے کی مانند محسوس کرتا ہے جہاں اس کی آواز کسی تک نہیں پہنچتی۔ تحقیقی کام کا تناؤ، مالی مشکلات، فیملی کی توقعات، اور خود پر بڑھتا ہوا دباؤ مل کر اس کے لیے زندگی کو مشکل کر دیتے ہیں۔ اس کے جذبات اور احساسات کو سنبھالنا ایک چیلنج بن جاتا ہے، جس کا اثر اس کی نیند، خوراک اور روزمرہ کی کارکردگی پر پڑتا ہے۔
یہاں بات صرف محنت کی نہیں، بلکہ خود کی دیکھ بھال کی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ذہنی صحت کو لے کر ہمارے معاشرے میں ابھی بھی کئی طرح کی غلط فہمیاں موجود ہیں۔ پی ایچ ڈی کے طلباء کے لیے خاص طور پر یہ بات اور بھی مشکل ہے کیونکہ وہ اپنی فیلڈ میں بہترین بننے کی کوشش میں اپنی صحت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے جذبات پر قابو نہیں پایا تو وہ ناکام ہو جائیں گے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جذباتی دباؤ اور ذہنی بیماری ان کی صلاحیتوں کو متاثر کرتے ہیں۔
اس مسئلے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ذہنی صحت کے حوالے سے بات کرنا اب بھی ہمارے معاشرے میں ایک طرح کی "ٹبُو” ہے۔ جب کوئی کہتا ہے کہ وہ دباؤ میں ہے یا اسے مدد کی ضرورت ہے، تو اکثر جواب میں ندامت یا حقارت آتی ہے۔ "یہ سب تمہارے ذہن کا کھیل ہے، تمہیں ہمت کرنی ہوگی” جیسے الفاظ سن کر بہت سے لوگ خود کو اور بھی زیادہ تنہا محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں پی ایچ ڈی طلباء کے لیے یہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مسائل کا اظہار کریں۔
لیکن اگر ہم حقیقت کو قبول کریں، تو ذہنی صحت کا مسئلہ ہر اس انسان کے لیے اہم ہے جو پی ایچ ڈی کا سفر طے کر رہا ہے۔ ان کے جذبات کی اہمیت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی کہانیاں سنیں، ان کی خاموشی کو سمجھیں، اور ان کی مدد کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کریں جہاں وہ اپنی مشکلات کا اظہار بلا خوف کر سکیں۔ تھراپی، کونسلنگ، اور جذباتی سپورٹ نہ صرف ان کے لیے بلکہ ہمارے معاشرے کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔
آج کا نوجوان جو پی ایچ ڈی کر رہا ہے، اس کا ذہنی دباؤ صرف ایک شخص کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ معاشرتی مسئلہ بھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس موضوع پر کھل کر بات کریں، اور اسے عام کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس طالب علم کو تنہا نہ چھوڑیں، بلکہ اس کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اس کی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کو سراہیں، اور اس کے دکھ کو سنجیدگی سے لیں۔
پی ایچ ڈی کا سفر ایک ایسا راستہ ہے جو عام نظر سے بہت زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہوتا ہے، خاص طور پر ہمارے پاکستانی طلباء کے لیے۔ پاکستان میں تعلیمی نظام کی حالت اور طلباء کی روزمرہ کی زندگی عموماً ایسی نہیں ہوتی جیسا کہ بیرون ملک کی جامعات میں ہوتی ہے۔ یہاں تعلیم کا معیار، سہولیات، اور تعلیمی ماحول کافی مختلف ہوتا ہے۔ جب کوئی طالب علم پاکستان سے باہر کسی ملک میں پی ایچ ڈی کرنے جاتا ہے، تو اسے نہ صرف تعلیمی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ایک نئے معاشرے، نئے رسم و رواج، اور تنہا زندگی کی بھی حقیقت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
پاکستانی طلباء کی زیادہ تعداد ان مضامین میں ہوتی ہے جہاں تجربات، لیب ورک، اور جدید تحقیق کا تقاضا ہوتا ہے، جیسے سائنس، انجینئرنگ اور بایولوجی۔ پاکستان میں اکثر یونیورسٹیوں میں طلباء کو صرف کتابی تعلیم دی جاتی ہے، جبکہ عملی تجربہ اور تحقیق کی جگہ محدود ہوتی ہے۔ وہاں جب یہ طلباء بیرون ملک جاتے ہیں، تو انہیں ایک بالکل مختلف اور مشکل نظام سے گزرنا پڑتا ہے۔ جدید لیبارٹریز، پیچیدہ تجربات، مسلسل تحقیق اور رپورٹس، اور ہر لمحہ معیار کی جانچ انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر تھکا دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، زبان کا مسئلہ، ثقافتی فرق، اور اپنی شناخت تلاش کرنے کا چیلنج ان کے لیے مزید پریشانی کا باعث بنتا ہے۔
اس نئے ماحول میں تنہائی کا سامنا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے۔ پاکستان میں جہاں خاندان اور دوستوں کا ساتھ روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہوتا ہے، وہاں ایک اجنبی ملک میں بسنا، کسی کا سہارا نہ ہونا، اور خود کو خود سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اکثر طلباء کو اپنا کھانا پکانا، بجلی اور پانی کے مسائل، مالی انتظام، اور روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی مشکلات بھی بہت بڑا دباؤ دیتی ہیں۔ ایسے حالات میں ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے، اور بہت سے طلباء اس دباؤ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ اپنی کمزوری ظاہر کریں گے تو لوگ شاید ان کو کمزور یا ناکام سمجھیں گے۔
تعلیمی دباؤ بھی اپنی جگہ بہت سنگین ہے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری صرف کسی مضمون کو پڑھنے کا نام نہیں بلکہ مسلسل تحقیق، نئے آئیڈیاز لانے، تجربات کرنے، اور کئی بار ناکامی کے بعد دوبارہ کوشش کرنے کا نام ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں جہاں اکثر کامیابی امتحان میں اچھے نمبر لانے تک محدود ہوتی ہے، وہاں بیرون ملک پی ایچ ڈی کرنے والے طلباء سے ہر لمحہ اعلیٰ کارکردگی کا تقاضا ہوتا ہے۔ سپروائزرز کا دباؤ، مقالہ مکمل کرنے کی ڈیڈلائنز، اور تحقیقی نتائج نہ ملنے کی صورت میں ذہنی اذیت ان کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔
یہ سب مسائل مل کر ان کے ذہنی اور جذباتی سکون کو برباد کر دیتے ہیں۔ نیند کی کمی، کھانے پینے کی بے ترتیبی، اور مسلسل ذہنی دباؤ کے باعث کئی طلباء ڈپریشن اور دیگر ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مگر چونکہ ہمارے معاشرے میں ذہنی صحت کے مسائل کو اب بھی ایک "کمزوری” سمجھا جاتا ہے، اس لیے بہت سے طلباء مدد لینے سے کتراتے ہیں۔ وہ اپنے درد کو چھپاتے ہیں اور خود کو مزید تنہا کر لیتے ہیں۔
پاکستانی طلباء کے لیے یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ان کے ارد گرد ایسا کوئی نظام نہیں جو ان کی ذہنی صحت کی حمایت کرے۔ یونیورسٹیز میں مناسب کونسلنگ سروسز کی کمی، ہمدرد اساتذہ کا نہ ہونا، اور دوستانہ ماحول کی غیر موجودگی انہیں اور زیادہ مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ نتیجتاً، کئی بار وہ اپنا حوصلہ کھو دیتے ہیں اور اپنی تحقیق یا زندگی سے ہی دستبردار ہو جاتے ہیں۔
یہ سب کچھ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پی ایچ ڈی کے طلباء کو صرف تعلیمی طور پر نہیں بلکہ ایک انسان کے طور پر دیکھیں جو اپنی صلاحیتوں، خوابوں، اور جذبات کے ساتھ اس لمبے اور تنہا سفر پر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیں، ان کے جذبات کی عزت کریں، اور انہیں ایک محفوظ ماحول فراہم کریں جہاں وہ اپنے ذہنی دباؤ کا اظہار بلا خوف کر سکیں۔
اگر ہم حقیقی معنوں میں طلباء کی کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں ان کی ذہنی صحت کو بھی ترجیح دینی ہوگی۔ انہیں یہ سکھانا ہوگا کہ مدد مانگنا کمزوری نہیں بلکہ ہمت ہے، اور کہ زندگی کے اس مشکل دور میں خود کی دیکھ بھال کرنا سب سے اہم کام ہے۔ تھراپی، کونسلنگ، اور جذباتی سپورٹ ان کے لیے طاقت بن سکتی ہے، جو انہیں نہ صرف علمی بلکہ ذاتی طور پر بھی مضبوط بنا سکتی ہے۔
پی ایچ ڈی کا سفر کامیابی اور فخر کا باعث ہوتا ہے، مگر اس کے پیچھے ایک انسان کی جدوجہد بھی چھپی ہوتی ہے جسے سمجھنا اور سہارا دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یہی ہم سب کے لیے اصل سبق اور کامیابی ہے۔