Skip to content

درمیانی راہ

شیئر

شیئر

سید اسد مشہدی

صدرِ پاکستان کی جانب سے کم عمری کی شادی پر پابندی کے بل پر دستخط کے بعد ایک نئی فکری، قانونی اور سماجی بحث نے جنم لیا ہے۔ بظاہر یہ ایک انسانی حقوق کا معاملہ ہے مگر حقیقت میں یہ کئی تہوں پر پھیلا ہوا مسئلہ ہے جس میں مذہب، ثقافت، بین الاقوامی دباؤ اور مقامی نفسیات سب شامل ہیں۔ سماجی علوم اور دین کے سنجیدہ طالب علم جو معاشرتی مطالعے، عالمی ایجنڈوں اور فکری جہتوں سے واقف ہیں اس سادہ دکھائی دینے والے قانون کے پیچیدہ مضمرات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔

سب سے پہلے تو اس بل پر لبرل حلقوں اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بھرپور خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔ پاکستان میں متحرک انسانی حقوق کی تنظیمیں، اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے اور خواتین کے حقوق کی آواز بلند کرنے والے کئی حلقے برسوں سے اس قانون کے لیے کوشاں تھے۔ ان حلقوں کی خوشی اور مہماتی طرزِ بیان اپنی جگہ، لیکن ان کا انداز اکثر روایتی و دینی طبقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیتا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مغرب کی طرف سے آنے والا ہر "سماجی حل” ہمیشہ غیر جانب دار نہیں ہوتا۔ ترقی یافتہ دنیا میں فرد کی آزادی، صنفی برابری اور خاندانی نظام کی تشکیل کا جو ماڈل اپنایا گیا، وہ مسلم دنیا کے خاندانی و سماجی نظام سے بہت مختلف ہے۔ اس پس منظر میں جب مغربی ادارے کسی قانون سازی پر زور دیتے ہیں، تو یہاں کے لوگ اسے صرف اصلاح نہیں بلکہ مداخلت اور تہذیبی استیلاء سمجھتے ہیں۔

اس کے باوجود، تصویر کا دوسرا رخ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے قبائلی اور دیہی علاقوں میں بچیوں کی کم عمری میں شادی ایک عمومی روایت ہے۔ یہ صرف معاشرتی رواج نہیں بلکہ بعض اوقات غربت، غیرت، دشمنی کے فیصلے اور مردانہ بالادستی کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔ ایسی کم عمری کی شادیاں اکثر بچیوں کی صحت، تعلیم، اور ذہنی بلوغت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔
ہم نے یہ منظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک کم عمر لڑکی جو ابھی خود اپنے جسمانی تغیرات سے آگاہ نہیں، اسے بیاہ کر ایک ایسے رشتے میں ڈال دیا جاتا ہے جو نہ صرف اس کی زندگی کی رفتار بدل دیتا ہے بلکہ اسے جلد جسمانی و ذہنی تھکن میں مبتلا کر دیتا ہے۔ تیس سال کی عمر میں وہ گویا بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑی محسوس ہوتی ہے۔
یہ حقیقت اسلامی تعلیمات سے بھی متصادم نہیں کہ نکاح کے لیے بلوغت، رضامندی، اور مناسب وقت کی رعایت ضروری ہے۔ شریعت نے نکاح کے لیے عمر کی کوئی قطعی حد مقرر نہیں کی، لیکن "بلوغت” اور "مصلحت” کی شرائط کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ لہٰذا کم عمری کی شادی کو روکنا بذات خود شرعی ممنوع نہیں، اگر اس کا مقصد ظلم، جبر اور نقصان سے بچاؤ ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف قانونی پابندی سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟ شاید نہیں۔ قانون سازی اگر زمینی حقائق، مذہبی حساسیت اور سماجی شعور کو نظر انداز کر کے کی جائے تو وہ ردعمل، نفرت اور غیر مؤثر نفاذ کا باعث بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علما اور دینی جماعتیں اس قانون کو استعماری سازش اور شریعت میں مداخلت سمجھتی ہیں۔ ان کا خدشہ ہے کہ اس قانون کے پیچھے وہی فکری لہر ہے جو "فیمنزم” کے نام پر خاندانی نظام کو توڑنا چاہتی ہے، جس نے مغرب میں خاندان کو ایک بکھرا ہوا ادارہ بنا دیا ہے۔ ہمارے نزدیک ان کے یہ خدشات بجا طور پر درست ہیں لیکن اگر ہم صرف ان خدشات پر رک جائیں تو وہ بچیاں، جو واقعی ظلم کا شکار ہیں، ان کے لیے کوئی راہ نجات نہیں نکلے گی۔ اسی لیے درمیانی راہ کی ضرورت ہے۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ بچیوں کو ان کے بچپن، تعلیم، جسمانی اور ذہنی نشوونما سے محروم کر کے صرف ایک سماجی ذمہ داری کے طور پر بیاہ دینا ایک ظلم ہے۔ اس ظلم کو روکنے کے لیے قانون تو ہو، لیکن اس قانون کے ساتھ ساتھ ایک ہمہ گیر شعور کی بیداری، سماجی اصلاح، والدین کی رہنمائی، اور مذہبی طبقے کا فعال کردار بھی ہو۔ مثلاً

تعلیم: کم از کم مڈل یا میٹرک تعلیم مکمل کیے بغیر شادی نہ ہو۔ یہ اصول گھریلو سطح پر رائج کیا جائے۔

کونسلنگ: مساجد، مدارس، اسکولز اور کمیونٹی مراکز میں شادی، بلوغت، اور ازدواجی زندگی پر مبنی رہنمائی نشستیں ہوں۔

شراکت داری: دینی طبقے کو اس عمل میں شریک کیا جائے، تاکہ قانون سازی کے خلاف ردعمل کم ہو اور وہ اسے "تحفظِ بنتِ حوا” کے تناظر میں دیکھ سکیں۔

مقامی حل: ہر علاقے کے سماجی، ثقافتی اور معاشی حالات کے مطابق پالیسی اپنائی جائے، تاکہ قانون مسلط نہ لگے بلکہ قابلِ عمل محسوس ہو۔
ظاہر ہے کہ قومیں محض قانون سے نہیں، شعور سے بدلتی ہیں۔ کم عمری کی شادی کا مسئلہ نہ تو صرف مغرب کے خلاف کھڑے ہو جانے سے حل ہوتا ہے، نہ ہی ہر قانون کو تہذیبی حملہ سمجھنے سے۔ اسی طرح مغربی ایجنڈے کے نام پر ہر مقامی رواج کو ظلم کہنا بھی زیادتی ہے۔
اصل کامیابی تب ہے جب ہم ان دونوں انتہاؤں سے نکل کر ایک ایسی درمیانی راہ پر قدم رکھیں، جو دین، دانش، اور دردِ دل کو یکجا کرتی ہو۔ جہاں نہ تو مغرب کی نقالی ہو، نہ روایت کا جبر، بلکہ ایک متوازن، بامقصد اور فکری طور پر باشعور سماج کی تشکیل ہو۔ یہی وہ راہ ہے جو ہمارے بچیوں کو تحفظ بھی دے سکتی ہے اور قوم کو استحکام بھی۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں