Skip to content

پاکستان میں کم عمری کی شادی کا مسئلہ

شیئر

شیئر

ڈاکٹر جزبیہ شیریں


پاکستان میں بچیوں کی کم عمری میں شادی کے خلاف اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری چائلڈ میرج رسٹرینٹ بل 2025 کی منظوری نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ یہ بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہو کر قانون کا حصہ بن چکا ہے، جس کا مقصد کم عمری میں بچیوں کی شادیوں کو روکنا اور ان کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔ لیکن اس بل کو مذہبی حلقوں، مولویوں اور مذہبی اداروں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا ہے، جنہوں نے اسے اسلام کے خلاف قرار دیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان، جو کہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ ہیں، نے اس بل کو غیر اسلامی اور غیر ضروری قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں کم عمری میں شادی کے حوالے سے کوئی واضح قانون یا پابندی نہیں ہے اور ریاست کو اس معاملے میں مداخلت کا حق حاصل نہیں۔ انہوں نے اسے اسلامی احکام کے منافی بتایا اور کہا کہ شریعت میں کم عمری کی شادی کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ ان کے علاوہ کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی (CII) نے بھی اس بل کی مخالفت کی اور کہا کہ اسلام میں شادی کی کوئی مخصوص عمر مقرر نہیں ہے اور حکومت کو بچیوں کی شادی کے لیے عمر کی حد متعین کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔

یہ مخالفت صرف چند افراد یا اداروں تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے مختلف مذہبی حلقے، بشمول دیوبندی، بریلوی اور دیگر مسالک کے علماء بھی اس بل کے خلاف ہیں۔ ان کی یہ رائے ہے کہ کم عمری میں شادی کرنا ایک دینی اور معاشرتی رواج ہے جسے روکنا مذہب کی توہین ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ شادی کی عمر کا تعین خاندان اور معاشرتی اقدار کے مطابق ہونا چاہیے نہ کہ ریاستی قوانین کے تحت۔

دوسری جانب، نیشنل کمیشن برائے حقوقِ اطفال (NCRC) نے اس بل کی بھرپور حمایت کی ہے اور اسے بچوں کے حقوق کی حفاظت کا ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ NCRC کا کہنا ہے کہ کم عمری میں شادی بچوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، جو ان کی تعلیم، صحت اور ذہنی و جسمانی نشوونما کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ کم عمری میں شادی کرنے والی بچیاں تعلیم سے محروم ہو جاتی ہیں، ان کی صحت متاثر ہوتی ہے اور وہ ازدواجی ذمہ داریوں کے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتیں۔ کمیشن نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ایسے قوانین کو یقینی بنائے جو بچیوں کو تحفظ فراہم کریں اور ان کے حقوق کا تحفظ کریں۔

2023 میں وفاقی شریعت کورٹ نے بھی  آ رزو کیس کے تناظر میں واضح کیا ہے کہ ریاست کو حق حاصل ہے کہ وہ شادی کی کم از کم عمر مقرر کرے، اور بلوغت کے ساتھ ساتھ ذہنی پختگی بھی شادی کے لیے ضروری ہے۔ اس فیصلے نے واضح کر دیا کہ کم عمری میں شادی کو روکنا صرف قانون کی بات نہیں بلکہ شریعت کے اصولوں کے مطابق بھی ہے۔

پاکستان میں بچیوں کی کم عمری میں شادی ایک سنگین اور پھیلا ہوا مسئلہ ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف بچیوں کی تعلیم اور صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ ان کی ذاتی آزادی اور حقوق بھی پامال ہوتے ہیں۔ مختلف علاقوں میں اس کی شرح بڑھ رہی ہے، اور اگر اس کا فوری حل نہ نکالا گیا تو ملک کی آنے والی نسلوں کی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

پاکستان کا آئین اور بین الاقوامی معاہدے جیسے اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کا کنونشن (UNCRC)، جسے پاکستان نے قبول کیا ہے، بچیوں کے حقوق کی حفاظت کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان دستاویزات کے مطابق، ریاست پر لازم ہے کہ وہ بچوں کو ہر قسم کے استحصال، تشدد اور نقصان سے بچائے۔ اس حوالے سے کم عمری میں شادی کی قانونی عمر کا تعین کرنا ایک اہم ذمہ داری ہے تاکہ بچوں کو ایک محفوظ، صحت مند اور تعلیمی ماحول فراہم کیا جا سکے۔

مگر پاکستان میں مذہبی جماعتوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ جماعتیں مذہب کے نام پر ریاستی قوانین اور اصلاحات کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ اپنی سیاسی طاقت کو قائم رکھ سکیں۔ مولوی حضرات کا ماننا ہے کہ بچیوں کی شادی کا فیصلہ خاندان اور مذہب کا معاملہ ہے، نہ کہ حکومت کا، اور وہ ہر ایسے قانون کی مخالفت کرتے ہیں جو ان کے روایتی نظریات کو چیلنج کرے۔

یہی مولوی حضرات پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ دنیا کے کئی اسلامی ممالک جیسے تیونس، مصر، مراکش، اور اردن نے کم از کم شادی کی عمر 18 سال مقرر کر کے بچیوں کو تحفظ دیا ہے، لیکن پاکستان میں مولوی حضرات اس قانون کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی مخالفت صرف مذہب کی نہیں، بلکہ ان کی اپنی سیاسی و سماجی طاقت کے تحفظ کی کوشش ہے۔

مولوی حضرات کی یہ منافقت اور انتہا پسندی پاکستان کی جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے زہر ہے۔ وہ اپنے نظریات کے تحت بچیوں کو تعلیم سے محروم کر کے انہیں غلام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کم عمری میں شادی کا رواج ان کے مفادات میں ہے کیونکہ اس سے وہ اپنی برتری قائم رکھ سکتے ہیں، اور بچیاں اپنی زندگی کے فیصلے خود نہیں کر سکتیں۔

یہ وقت ہے کہ ہم ان زہر آلود نظریات کا مقابلہ کریں جو پاکستان کو جاہل اور پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بچوں، خاص طور پر بچیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی۔ کم عمری میں شادی کو روک کر ہم نہ صرف ایک ظالمانہ رسم کو ختم کریں گے بلکہ پاکستان کی ترقی یافتہ اور روشن نسل کی بنیاد رکھیں گے۔

پاکستان کی عوام کو سمجھنا ہوگا کہ مولویوں کی مخالفت صرف ایک سیاسی حربہ ہے جس کا مقصد اسلام کی بدنامی نہیں بلکہ ملک کی ترقی کو روکنا ہے۔ اگر ہم نے آج بچیوں کی کم عمری میں شادی کو روک دیا تو کل ہمارا ملک تعلیم یافتہ، آزاد اور خوشحال ہوگا۔ ورنہ مولویوں کے ہاتھوں یہ ملک ہمیشہ پسماندگی اور جہالت کی زنجیروں میں جکڑا رہے گا۔

پاکستان کو مولویوں کے قبضے سے آزاد کر کے ایک روشن، تعلیم یافتہ، اور ترقی یافتہ ملک بنانا ہوگا۔ ہمیں مولویوں کے ان غیر انسانی اور انتہا پسند نظریات کو مسترد کرنا ہوگا ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم بچیوں کی تعلیم، صحت، اور تحفظ کے لیے آواز اٹھائیں۔ اگر ہم آج اس مسئلے کو حل کر لیں تو کل ہمارا پاکستان ایک مضبوط، آزاد، اور خوشحال ملک ہوگا۔ ورنہ مولویوں کے قبضے میں یہ ملک ہمیشہ پسماندگی اور جہالت کی زنجیروں میں جکڑا رہے گا، جہاں بچے اور بچیاں اپنے حقوق سے محروم رہیں گے اور معاشرتی ترقی رک جائے گی۔

  اس وقت جب میں یہ لکھ رہی ہوں، ایک اور اہم خبر سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں 18 سال سے کم عمری کے افراد کی شادی پر پابندی لگا دی گئی ہے! صدر زرداری نے اس نئے قانون پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس قانون کے تحت نکاح پڑھانے والے کو ایک لاکھ روپے جرمانہ اور ایک سال کی قید کی سزا دی جائے گی۔ یہ ایک خوش آئند اور مثبت قدم ہے، لیکن اس کے کامیاب نفاذ کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس قانون پر سختی سے عملدرآمد کیا جانا ضروری ہے تاکہ اس کے مکمل اثرات سامنے آئیں اور بچیوں کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں