Skip to content

کیا واقعی کیمبرج کے ڈیجیٹل امتحانات تعلیمی انقلاب لائیں گے؟بظاہر ٹیکنالوجی کا خیرمقدم، لیکن حقیقت میں صرف تاثر!

شیئر

شیئر

وحیدمراد

حال ہی میں یہ خبر منظرِ عام پر آئی ہے کہ اگلے سال سے کیمبرج چند ممالک اور خطوں میں جزوی طور پر ڈیجیٹل امتحانات کا آغاز کرنے جا رہا ہے۔ اس اعلان نے والدین، اساتذہ اور طلبہ میں ایک خوش گمانی پیدا کر دی ہے کہ اب شاید رٹا کلچر کا خاتمہ ہو جائے گا، نقل کی روک تھام ممکن ہو جائے گی اور تعلیمی نظام میں بنیادی بہتری آ جائے گی۔ مگر حقیقت اس خوش فہمی کے برعکس ہے۔ صرف امتحان دینے کا ذریعہ بدلا جا رہا ہے یعنی قلم اور کاغذ کی جگہ اب کمپیوٹر اور کی بورڈ آ جائے گا لیکن امتحان کی ساخت، طریقہ کار اور مقصد بدستور وہی پرانا ہے۔

اگر کسی طالبعلم سے پوچھا جائے کہ ڈیجیٹل امتحان سے کیا فرق پڑے گا تو شاید وہ خوشی کا اظہار اس طرح کرے کہ اب کاغذ پر نہیں بلکہ کمپیوٹر پر لکھنا ہوگا۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ نہ نصاب بدلا، نہ سوالات کی نوعیت، نہ امتحان کا محدود وقت، نہ سیکھنے کا انداز تو پھر صرف ظاہری تبدیلی سے بھلا بہتری کیسے آ سکتی ہے؟ یہ منظرنامہ بالکل یوں ہے جیسے کسی ریستوران میں پہلے کاغذی مینو سے کھانے کا آرڈر دیا جاتا تھا اور اب وہی کام ڈیجیٹل ٹچ اسکرین سے کیا جا رہا ہو مگر نہ باورچی بدلے، نہ مصالحے، نہ ذائقہ تو صرف آرڈر دینے کا طریقہ بدلنے سے کھانے کا معیار کیسے بدل سکتا ہے؟ بالکل یہی صورتحال ڈیجیٹل امتحانات کی ہے، باہر سے جدید اور پرکشش مگر اندر سے وہی فرسودہ رٹا سسٹم۔

ان نئے امتحانوں کے بارے میں یہ خبر بھی ہے کہ ڈیجیٹل پرچے ایم سی کیوز پر مشتمل ہونگے۔ صرف ملٹی پل چوائس سوالات (MCQs) کے اضافے سے رٹّا کلچر کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر تعلیمی اصلاحات کو مجموعی طور پر نافذ نہ کیا جائے تو MCQs خود ایک نئے قسم کے رٹا کلچر کو جنم دیتے ہیں۔ طلبہ اکثر پاسٹ پیپرز کے MCQs کے جوابات زبانی یاد کر لیتے ہیں بغیر یہ سمجھے کہ درست جواب کیوں ہے اور پھر پاس بھی ہوجاتے ہیں۔

آج کے امتحانات بھی محدود وقت میں یاد شدہ معلومات کو تیزی سے دہرانے کی مشق ہیں، چاہے وہ کمپیوٹر پر دیے جائیں یا کاغذ پر۔ اگر کوئی بچہ کتاب سے دیکھ کر جواب لکھے یا وقتی طور پر یاد کر کے امتحان دے اور فوراً بعد بھول جائے تو دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ امتحانات بچوں کی سوچنے، سمجھنے، سوال اٹھانے یا مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت جانچنے کی بجائے محض ان کی یادداشت کو آزماتے ہیں۔ نہ ان میں تنقیدی سوچ کی گنجائش ہے، نہ تخلیقی حل کی، نہ باہمی اشتراک یا عملی زندگی سے کوئی ربط۔ بس کاغذ کی جگہ اسکرین لے رہی ہے باقی سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے۔

کچھ افراد یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کوچنگ سینٹرز اور ٹیوشن کلچر اب دم توڑ دے گا لیکن درحقیقت اب یہ ادارے ڈیجیٹل لیبز قائم کر کے بچوں سے اضافی فیس لیں گے۔ کمپیوٹر، ٹیکنیکل اسٹاف اور ڈیجیٹل تربیت کی مد میں مزید کاروباری مواقع پیدا ہوں گے۔ پاسٹ پیپرز اور ماڈل امتحانات اب ڈیجیٹل فارمیٹ میں مہنگے داموں فروخت ہوں گے۔ نتیجتاً تعلیمی نظام کی بنیاد میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، صرف اس کی ظاہری شکل جدید انداز میں ڈھال دی جائے گی تاکہ دیکھنے میں سب کچھ ترقی یافتہ نظر آئے۔

تعلیم میں اصل انقلاب تب ہی ممکن ہے جب نصاب محض معلومات یاد کروانے کے بجائے فہم، تجزیے اور گہرے مفہوم پر مبنی ہو۔ ایسا نصاب جو بچوں میں رٹے کے بجائے سوچنے، سمجھنے اور علم کو زندگی سے جوڑنے کی صلاحیت پیدا کرے۔ ایسےامتحانی سوالات جو منطق، استدلال اور مسائل کے حل پر زور دیں ۔ اساتذہ کی جدید خطوط پر تربیت کی جائے اور طلبہ کو محض نمبروں اور گریڈز کے تعاقب سے نکال کر سیکھنے کی لگن پیدا کی جائے۔ جب تک یہ بنیادی تبدیلیاں نہیں ہوتیں امتحان چاہے کاغذ پر ہو یا اسکرین پر نتیجہ ایک جیسا ہی رہے گا۔

حقیقی ڈیجیٹل امتحان وہ ہوتا ہے جہاں طالبعلم کو انٹرنیٹ، AI، گوگل، ریسرچ آرٹیکلز، یوٹیوب ویڈیوز اور مختلف ایپلیکیشنز تک رسائی حاصل ہو اور اس کے باوجود اسے ایک حقیقت پر مبنی مسئلے کا حل تجویز کرنا ہو۔ مثلاً اُسے کہا جائے کہ ایک دیہی علاقے میں پانی کی قلت ہے، محدود وسائل میں اس کا حل پیش کرو۔ یا یہ کہ اسکولوں میں طلبہ ریاضی میں کیوں کمزور ہیں اور اس کا دیرپا حل کیا ہو سکتا ہے؟ ایسے سوالات میں صرف علم کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے استعمال، تحقیق، تخلیقی سوچ، تجزیہ اور عملی تجاویز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں نہ رٹا مددگار ہوتا ہے، نہ نقل، نہ پرانے پیپرز۔ طالبعلم کو واقعی سیکھنا، سمجھنا، ٹیم ورک کرنا اور تحقیق سے نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے۔

ایسے امتحانات دنیا کے بعض ترقی یافتہ اداروں میں تجرباتی سطح پر رائج ہیں مگر کیمبرج جیسے ادارے اس سمت اس لیے نہیں جاتے کیونکہ ان کے مالی مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ اگر وہ حقیقی ڈیجیٹل آزادی دے دیں تو ان کا موجودہ نظام جو مخصوص کتابوں، مہنگے کورسز، کوچنگ سینٹرز اور امتحانی فیسوں پر مشتمل ہے، بیکار ہو جائے گا۔ ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ختم ہو جائے گا۔ اسی لیے وہ صرف امتحان کی ظاہری شکل بدلتے ہیں اس کی روح کو ہاتھ نہیں لگاتے تاکہ تبدیلی کا تاثر دیا جا سکے جبکہ اصل نظام ویسا ہی روایتی، رٹا زدہ اور منافع بخش رہے۔ یہی وہ سچ ہے جو عوام سے چھپایا جاتا ہے۔

کیمبرج بورڈکا معاملہ تو یہ ہےکہ ایک طرف ڈیجیٹل امتحانات کا اعلان کرکے دنیا کو یہ تاثر دے رہا ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کی جانب بڑھ رہا ہے اور رٹا سسٹم کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے تاکہ دنیا سمجھے کہ یہ ادارہ "حقیقی تعلیم” کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہر سال کیمبرج کے امتحانی پرچے بڑے پیمانے پر لیک ہو رہے ہیں۔ ان لیک ہونے والے پرچوں سے سب سے زیادہ متاثر وہ بچے ہوتے ہیں جو دن رات کی محنت سے یاد کر کے امتحانات میں بیٹھتے ہیں۔ چونکہ رٹا لگا ہوا علم وقتی ہوتا ہے، اس لیے دوبارہ امتحان کی صورت میں نہ صرف انہیں نئے سرے سے سب کچھ یاد کرنا پڑتا ہے بلکہ دوبارہ اس ذہنی دباؤ، وقت کے نقصان، اور نجی ٹیوشن کی بھاری فیسوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ اگر کیمبرج واقعی تعلیم کی بہتری اور ٹیکنالوجی کے فروغ کا خواہاں ہوتا تو سب سے پہلے وہ امتحانی سیکیورٹی کو بہتر بناتا تاکہ اصل طلبہ کے ساتھ انصاف ہو۔

یہ تضاد صرف پیپرز کے لیک ہونے تک محدود نہیں بلکہ ڈیجیٹل امتحان اور نان کیلکولیٹر پیپر زکا بھی ہے۔ ایک طرف کیمبرج کمپیوٹر اور کی بورڈ کے ذریعے ڈیجیٹل امتحان دینے کا اعلان کر رہا ہے، جو کہ جدید ٹیکنالوجی کی جانب قدم ہے لیکن دوسری طرف وہی کیمبرج آئی جی سی ایس ای کے میتھس پیپر سے کیلکولیٹر نکال کر "نان کیلکولیٹر” پیپر بنا رہا ہے۔ اس سال ایڈ میتھس کے پیپر1 کو بھی "نان کیلکولیٹر” کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دنیا ہر روایتی علم کو ڈیجیٹل بنا رہی ہے تو کیمبرج اس کے برعکس پرانے انداز کو واپس کیوں لا رہا ہے؟کیا کیمبرج یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ جدید تعلیم صرف ٹیکنالوجی دکھا کر اپنائی جائے لیکن عملی طور پر بچوں کو پھر وہی پرانا رٹا اور حسابی مشقت دی جائے؟

کیمبرج برسوں سے GCE اور IGCSE دو الگ الگ برانڈز کے تحت امتحانات لے رہا ہے۔ پچھلے سال انہوں نے دونوں برانڈز کے مختلف مضامین میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا اعلان کیا، جیسے یہ قدم "تعلیمی بہتری” کے لیے اٹھایا جا رہا ہو۔ لیکن حقیقت تب سامنے آئی جب طلبہ امتحان دے کر واپس آئے اور بتایا کہ GCE اور IGCSE میں کئی مضامین کے پرچے بالکل ایک جیسے تھے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ کیمبرج کا اصل مقصد صرف "اخراجات میں کمی” اور "منافع میں اضافہ” تھا۔ یہ تبدیلیاں دراصل پرچہ بنانے والے ماہرین (item writers)، پرچہ چیکرز، اور دیگر انتظامی اخراجات بچانے کے لیے کی گئیں نہ کہ تعلیم کی بہتری کے لیے۔ اگر مقصد واقعی تعلیمی ہم آہنگی اور بہتری ہوتا تو دونوں برانڈز کو مکمل طور پر یکجا کر دیا جاتا۔

یہ ساری مثالیں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کیمبرج بورڈ کی اصل ترجیح "تعلیم میں بہتری” نہیں بلکہ "منافع میں اضافہ” ہے۔ چاہے وہ ڈیجیٹل امتحانات کا دکھاوا ہو، نان کیلکولیٹر پیپرز کی واپسی ہو یا برانڈز کو الگ رکھ کر وسائل کا کھیل ہو، سب کچھ کاروباری سوچ کے گرد گھومتا ہے۔ اگر واقعی تعلیم اہم ہوتی توپرچے محفوظ کیے جاتے، بچوں کو ذہنی سکون دیا جاتا، مشقت اور رٹے کے بجائے سیکھنے کو ترجیح دی جاتی اور سسٹم کو شفاف و مساوی بنایا جاتا۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں