وحید مراد
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم اس وقت ایک شدید بحران کا شکار ہے اور اس کا سب سے خوفناک منظر یونیورسٹی ریسرچ کے نام پر ہونے والی دکھاوا بازی، رٹّا کلچر اور جعلی مقالہ سازی ہے۔ افسوس کہ جو ادارے علم تخلیق کرنے اور سماجی مسائل کا حل نکالنے کے مراکز ہونے چاہیئے تھے وہ آج ڈگری بیچنے والی فیکٹریوں میں بدل چکے ہیں۔ تھیسس لکھوانے کے لیے آن لائن بازار لگے ہیں۔ بیچلرز سے لے کر پی ایچ ڈی تک ہر سطح کا تحقیقی مقالہ پیسوں کے عوض خریدا جا سکتا ہے۔ طالبعلم خود نہ مطالعہ کرتا ہے نہ سوال اٹھاتا ہے اور نہ تنقید کرتا ہے، بس ریڈی میڈ مواد جمع کروا کر ڈگری حاصل کر لیتا ہے۔ یہی جعلی علم آج ہمارے تعلیمی نظام کی شناخت بن چکا ہے۔
یونیورسٹیوں میں جو تحقیق ہو رہی ہے وہ بھی رٹّے پر مبنی ہے۔ نئے خیالات یا تخلیقی سوچ کی حوصلہ افزائی کے بجائے پرانی تحریریں حوالہ در حوالہ نقل کی جاتی ہیں۔ تھیسس کا مطلب بس اتنا رہ گیا ہے کہ پراناعلم نئے الفاظ میں دہرا دو۔ طالبعلم کا ذہن سوچنے کے بجائے یاد رکھنے کی ایسی مشین بن چکا ہے جو آواز تو نکالتی ہے لیکن کسی مسئلے کا حل نہیں بتاتی اسی لیے انڈسٹری اورکاروباری ادارے بار بار شکایت کرتے ہیں کہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ میں نہ سوچنے کی صلاحیت ہے نہ مسائل حل کرنے کی اور نہ ہی تکنیکی مہارت۔ انہیں صرف نصابی کتابوں کے اسباق یاد ہیں، دنیا کے بدلتے تقاضوں کا کوئی علم نہیں۔
ہزاروں پاکستانی ریسرچ اسکالرز ایسے مقالے تیار کرتے ہیں جو پیسے لے کر شائع کرنے والے جعلی جرائد میں چھپتے ہیں۔ ان میں نہ کسی مقامی مسئلے کا کوئی حل پیش کیا جاتا ہے اور نہ ہی یہ عالمی معیار پر پورا اترتے ہیں۔ ان جعلی مقالوں کے ذریعے پاکستان کے تعلیمی معیار کا سودا کیا جا رہا ہے تاکہ ترقی، گرانٹ اور عہدے حاصل کیے جا سکیں۔ ریسرچ اب صرف مقالہ جات کی گنتی تک محدود ہو چکی ہے۔ اس دوڑ میں نہ معیار کا خیال رکھا جاتا ہے نہ حقیقی علم کا۔ پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کی فوج تیار ہو رہی ہے مگر ان کے پاس اصل علم کم اور چُرایا ہوا مواد زیادہ ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ادارے عالمی سطح پر بدنامی کا شکار ہو چکے ہیں۔
جو طلبہ واقعی تحقیق کرنا چاہتے ہیں ان کے پاس نہ سہولتیں ہیں، نہ راہنمائی، نہ جدید لائبریریاں اور نہ مخلص اساتذہ۔ وہ بھی مجبور ہیں کہ رٹا اور پیسٹ کلچر کا حصہ بنیں ورنہ ڈگری ہاتھ سے جاتی ہے۔ بدقسمتی سے اساتذہ نے بھی ریسرچ کو ترقی اور مشہوری کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ کئی اساتذہ خود طلبہ سے مقالے لکھوا کر اپنے نام سے شائع کرتے ہیں۔ اساتذہ اور طلبہ کا یہ گٹھ جوڑ تحقیق کو ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کر چکا ہے۔
میری زندگی کا بڑا حصہ اسکول، کالج ایڈمنسٹریشن اور ٹیچنگ میں گزرا۔ ابتدا میں انتظامی ذمہ داریاں سنبھالیں پھر سوچا کہ ٹیچنگ میں تحقیق اور آزاد خیالی کے زیادہ مواقع ہیں اس لیے اُدھر کا رُخ کیا۔ دوست احباب اور سینئرز نے مشورہ دیا کہ اسکول ٹیچنگ کا کوئی مستقبل نہیں، ایم فل، پی ایچ ڈی کرکے یونیورسٹی میں پروفیسر لگ جاؤپیسے بھی زیادہ اور نام کے ساتھ "ڈاکٹر” بھی جڑے گا۔ چنانچہ 2008 میں کراچی کی ایک نامور نجی یونیورسٹی میں ایم فل سوشل سائنسز میں داخلہ لیا۔
یونیورسٹی کی عمارتیں، کیفے اور لان تو شاندار تھے مگر تعلیم اور تحقیق صرف برائےنام۔ یہاں تین قسم کے اساتذہ ملے: سرکاری یونیورسٹیوں کے پارٹ ٹائمر، پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے اساتذہ جو نمبر بانٹنے میں فیاض تھے اور مستقل اساتذہ جنہیں طلبہ عجیب و غریب ناموں سے یاد کرتے۔ سرکاری استاد تحکمانہ لہجے میں پڑھاتے، سوال کی اجازت نہ تھی اور جو سوال کرتا اسے امتحان کے ریزلٹ سے سبق سکھایا جاتا۔ باقی سب نے نوے فیصد سے زیادہ دے کر ہماری ڈگری کا راستہ ہموار کیا۔
ایک سالہ تھیوری ورک کے بعد ہم "اعلیٰ نمبروں” کی مارکس شیٹ کے ساتھ مطمئن بھی تھے اور شرمندہ بھی کہ یہ سارا عمل نہ ہمارے ذہن پر کوئی اثر ڈال سکا نہ زندگی میں کوئی تبدیلی لا سکا۔ پھر ریسرچ ورک شروع ہوا۔ سپروائزر صاحب نے صاف کہہ دیا کہ وہ اکنامکس کی تاریخ کے ماہر ہیں فنانشل اکنامکس کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں ہاں رپورٹیں وقت پر جمع کروانے پر منظوری دے دیں گے۔ ہم نے خود ہی نیٹ سے سو کے قریب مقالے ڈاؤن لوڈ کیے ان کا نچوڑ نکالا اور اپنا مقالہ تیار کر ڈالا۔ فنانشل ریسرچ ٹولز سیکھنے میں دو ماہ الگ سے لگے اور دوستوں کی مدد سے مقالہ "پلیجرزم سافٹ ویئر” سے بھی کامیابی سے گزر گیا۔
ہمیں فکر تھی کہ غیر ملکی اسیسسرز مقالے کی حقیقت پکڑ لیں گے مگر حیرت ہوئی جب یونیورسٹی نے منظوری کا خط بھیج دیا۔ ڈیفنس کے دوران ایسے اساتذہ سوال کرنے آئے جنہیں اکنامکس سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ ادھر اُدھر کے سوال ہوئے ہم نے بھی ادھر اُدھر کے جوابات دیے تالیاں بجیں اور ہمیں کامیاب قرار دیا گیا، ساتھ ہی پی ایچ ڈی میں داخلہ کی آفر بھی مل گئی۔
پی ایچ ڈی شروع کی سب اساتذہ اور ڈین صاحب سے دوستی بھی ہوگئی۔ ہم نے موقع جان کر اپنے ایم فل تھیسس کی خامیاں جاننا چاہیں لیکن سب اساتذہ کا ایک ہی جواب "اب آپ خود ریسرچ اسکالر ہیں اپنی غلطیاں خود تلاش کریں "۔ ڈین صاحب سے گزارش کی کہ اسسمنٹ رپورٹس دکھا دیں تو وہ غصے میں آ گئے: "تمہاری ڈگری کینسل کرا دوں گا پھر سب غلطیاں پتہ چل جائیں گی!” ہم نے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔
پھر پی ایچ ڈی کورس ورک ہوا اور پہلے کی طرح نوے، پچانوے فیصدنمبر ملے۔ ایک نیا کمال یہ تھا کہ ہمیں زبردستی "جرمن زبان” بطور لازمی مضمون پڑھایا گیا۔ ہم نے احتجاج کیا کہ پی ایچ ڈی لیول پر ایسی زبردستی کہاں ہوتی ہے مگر ڈین صاحب بضد تھے۔ جرمن زبان کے استاد نے ہمیں تسلی دی "فکر نہ کریں نمبر تو ملیں گے!” مگر ہمارا سوال یہ تھا کہ صرف پاس ہونے کے لیے مضمون کیوں پڑھیں؟ خیر ہماری ایک نہ چلی۔
پھر ایک اور نیا مضمون آیا، جس میں ہر ہفتے ایک سیمینار اٹینڈ کرنا اور رپورٹ لکھنا لازم تھا۔ دس سیمینار اٹینڈ کیے اور یوں "امتیازی نمبروں” کے ساتھ ایک اور مضمون پاس کر لیا۔ اِن لیکچرز میں مختلف سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے پروفیسرز آتے، بڑے عالمانہ القابات اور لمبی ڈگریوں کے ساتھ لیکن ان کی پریزنٹیشنز اور گفتگو سن کر ہمیں جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ اصل علمی گہرائی کم اور رسمی کاروائی زیادہ ہے۔ ان سیمنارز نے یہ حقیقت کھول دی کہ صرف ہماری یونیورسٹی ہی نہیں ملک کی بیشتر اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں میں بھی تحقیقی معیار اور علمی سنجیدگی برائے نام ہے۔
یونیورسٹیوں میں جاری یہ جعلی تحقیق، رٹّا کلچر اور مقالوں کی تجارت، علم کے نام پر ایک سنگین جرم ہے۔ جب تک ہم اس مصنوعی نظام کو توڑ کر اصلی علم اورتخلیقی سوچ کو فروغ نہیں دیتے پاکستان کا تعلیمی معیار بلند نہیں ہو سکتا۔ اگرہم واقعی ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی یونیورسٹیوں میں جاری جعلی علم سازی کی فیکٹریاں بند کرنا ہوں گی۔ ہمیں ایسے طلبہ کو مواقع فراہم کرنے ہوں گے جو واقعی تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے معیاری تحقیقاتی سہولیات، تربیت یافتہ اور اہل سپروائزرز، نیز ایسا ماحول مہیا کرنا ہوگا جو تخلیقی اور تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کرے۔ جب تک ہم تحقیق کو صرف ڈگری کے حصول کا ذریعہ سمجھتے رہیں گے علم کبھی پروان نہیں چڑھے گا۔