Skip to content

حقوق کا مطالبہ اور ذمہ داریوں سے غفلت  

شیئر

شیئر

ڈاکٹر جزبیہ شیریں  

عورتوں کے حقوق، آزادی اور ان کے مساوی حقوق کے بارے میں بہت ساری باتیں کی جاتی ہیں، خاص طور پر پاکستان جیسے مشرقی معاشروں میں، جہاں ان مسائل کو خاص طور پر مختلف انداز سے دیکھا جاتا ہے۔ مغربی معاشروں میں خواتین کی آزادی اور ان کے حقوق کو پورا تسلیم کیا جاتا ہے، اور دونوں مرد اور عورت کو کام کرنے کی آزادی ہے۔ دونوں کو گھر کے اخراجات میں برابری کی شرکت حاصل ہے، اور دونوں کو ایک دوسرے کے کاموں میں مدد دینی چاہیے۔ لیکن جب ہم مشرقی معاشرتوں کی بات کرتے ہیں، خاص طور پر پاکستان کی، تو یہاں خواتین کے حقوق کا تصور کچھ مختلف ہے۔

 پاکستان میں خواتین اکثر آزادی، حقوق اور مساوات کا مطالبہ تو کرتی ہیں، مگر ان کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ذاتی خواہشات اور لوازمات کو پورا کرنے کی خواہش بھی رکھتی ہیں، بغیر یہ سمجھے کہ ان کی ذمہ داریاں بھی اتنی ہی ہیں۔ اگر ہم مغربی معاشروں کا جائزہ لیں تو وہاں مرد اور عورت دونوں کو یکساں آزادی حاصل ہے، دونوں کام کرتے ہیں اور دونوں اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف باہر کام کرتے ہیں بلکہ گھر کے کاموں میں بھی برابر حصہ ڈالتے ہیں۔ تاہم، پاکستان میں خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہوئے، بہت سی خواتین یہ چاہتی ہیں کہ انہیں آزادی، مساوات اور حقوق حاصل ہوں، مگر وہ یہ نہیں سمجھتیں کہ یہ تمام چیزیں صرف حقوق اور آزادی تک محدود نہیں ہوتیں، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں میں بھی مساوات ضروری ہے۔ خواتین آزادی چاہتی ہیں، کام کرنا چاہتی ہیں، پیسہ کمانا چاہتی ہیں، مگر گھر کے کاموں میں حصہ نہیں لینا چاہتیں۔ انہیں یہ بھی مسئلہ نہیں ہوتا کہ وہ گھر کے اخراجات میں برابری کا حصہ ڈالیں۔ وہ صرف اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتی ہیں، اور اپنے پیسے صرف سجاوٹ، شاپنگ، ملبوسات، میک اپ، اور دیگر لگژری چیزوں پر خرچ کرتی ہیں۔ پھر وہ مردوں سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ وہ ان کی مدد کریں، گھر کے کام کریں، بچوں کی دیکھ بھال کریں اور ساتھ ہی یہ بھی شکایت کرتی ہیں کہ وہ تھک چکی ہیں اور کام بھی کر رہی ہیں۔

مردوں کے حوالے سے یہ حقیقت سمجھنی ضروری ہے کہ وہ محض پیسہ کمانے والی مشینیں نہیں ہیں۔ مرد بھی انسان ہیں، اور ان کی بھی خواہشات اور ضروریات ہیں۔ مگر مرد گھر کے پورے اخراجات اور ذمہ داریوں کو اٹھاتے ہیں، اور اکثر اپنی خواہشات کو ترک کرتے ہیں۔ وہ گھر کے بلز، کرایہ، گاڑی، بچوں کی تعلیم، اور دیگر ضروریات کے اخراجات پورے کرتے ہیں، لیکن وہ اپنی ذاتی خواہشات پر اتنی توجہ نہیں دیتے۔ دوسری طرف، خواتین ان سب چیزوں کو نظرانداز کرتی ہیں اور صرف اپنی ذاتی خواہشات پر پیسہ خرچ کرتی ہیں، جیسے کہ نیا لباس، میک اپ، شاپنگ اور سفری اخراجات۔ پھر وہ شکایت کرتی ہیں کہ وہ تھک چکی ہیں اور کام کر رہی ہیں، مگر اس بات کا کوئی حساب نہیں ہوتا کہ وہ گھر کے اخراجات میں کتنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ عورت اگر حصہ ڈالتی بھی ہے تو بہت تھوڑا، آٹے میں نمک کے برابر، اور احسان بھی جتاتی ہے۔ وہ یہ سمجھتی ہے کہ اس کی کمائی صرف اس کی ہے اور اس کی ذمہ داری مرد اور اس کے بچوں کی ذمہ داری مرد کی ہی ہے۔ حالانکہ ذمہ داری گھر کی اور باقی چیزوں کی اس کی بھی برابر ہے۔ گھر میں وہ بھی رہتی ہے، بچے اس کے بھی ہیں، اور اسے بھی برابر کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے جتنی مرد اٹھاتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خواتین کو مساوات چاہیے، تو انہیں گھر کے کاموں میں بھی برابری کی شرکت کرنی چاہیے۔ خواتین کو اپنے اخراجات میں برابری کا حصہ ڈالنا چاہیے، تاکہ مردوں پر اضافی بوجھ نہ پڑے۔ اگر مرد اپنے گھر کی تمام ضروریات پورا کر رہے ہیں، تو پھر خواتین کو بھی ان کی زندگیوں میں مساوات لانی چاہیے۔ دونوں کو اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کا بھی بوجھ اٹھانا ہوگا۔ مرد اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کام کرتے ہیں، اور اگر خواتین گھر کی ذمہ داریوں میں حصہ نہیں ڈالیں گی، تو پھر مساوات کا سوال کہاں سے آتا ہے؟ اگر ہم مغربی معاشرت کا ماڈل اپنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے تمام پہلوؤں کو تسلیم کرنا ہوگا، نہ کہ صرف وہ حصہ جو ہمارے فائدے کا ہو۔  یہ بات  اہم ہے کہ مردوں کے لئے بھی کچھ حقوق ہیں، اور انہیں اپنی خواہشات پوری کرنے کا حق ہونا چاہیے

۔ پاکستانی خواتین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ آزادی، مساوات اور حقوق چاہتی ہیں، تو انہیں اپنی ذمہ داریوں میں بھی حصہ ڈالنا ہوگا۔ انہیں گھر کے اخراجات میں برابری کے ساتھ حصہ ڈالنا چاہیے، اور انہیں اپنے مردوں پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ اگر مرد اپنے خاندان کی تمام ذمہ داریوں کو اٹھا رہے ہیں، تو خواتین کو بھی ان کی مدد کرنی چاہیے، تاکہ دونوں کے درمیان مساوات قائم ہو سکے۔ اس کے علاوہ، خواتین کو اپنے پیسوں کو صرف اپنی خواہشات پر خرچ کرنے کی بجائے، اپنے خاندان کی ضروریات پر بھی خرچ کرنا چاہیے۔ اگر خواتین اپنے پیسوں کا زیادہ تر حصہ خود پر خرچ کریں گی، تو پھر وہ کیسے مردوں سے مساوات کا مطالبہ کر سکتی ہیں؟ پاکستانی خواتین کو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ مردوں اور عورتوں دونوں کے درمیان مساوات تب ہی ممکن ہے جب دونوں اپنے حصے کی ذمہ داریوں کو پوری طرح سے ادا کریں۔ خواتین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ گھر اور بچوں کی ذمہ داری دونوں کی ہے، نہ کہ صرف مردوں کی۔ اگر خواتین اپنے حصے کا کام کریں گی اور اپنے پیسوں کا صحیح استعمال کریں گی، تو وہ حقیقی مساوات کی طرف قدم بڑھا سکیں گی۔ اس کے بعد ہی وہ مردوں سے مساوات اور حقوق کی توقع رکھ سکتی ہیں۔  

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں