شہناز یوسفزئی
پاکستان میں ڈیجیٹل صنفی شمولیت کو منظم اور باہم مربوط چیلنجز کا سامنا ہے، جو خواتین کی ڈیجیٹل دنیا میں مکمل اور مساوی شرکت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ یہ چیلنجز نہ صرف قومی سطح پر موجود ہیں بلکہ ہزارہ ڈویژن کے مخصوص سماجی، ثقافتی اور اقتصادی تناظر میں مزید گہرے ہو جاتے ہیں۔ اس تحریر میں ڈیجیٹل صنفی شمولیت کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی جائے گی۔
رسائی اور بنیادی ڈھانچے کی کمی
ڈیجیٹل صنفی شمولیت کے لیے سب سے بنیادی رکاوٹ انٹرنیٹ تک رسائی اور ضروری ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔ ہزارہ ڈویژن، جو کہ ایک متنوع جغرافیائی خطہ ہے جس میں میدانی علاقے اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے شامل ہیں، یہاں رسائی کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہے۔ دور دراز اور دیہی علاقوں میں فائبر آپٹک کیبلز اور موبائل ٹاورز کی ناکافی تنصیب کی وجہ سے تیز رفتار اور قابل اعتماد انٹرنیٹ کی دستیابی محدود ہے۔
خواتین کے لیے یہ مسئلہ اس لیے زیادہ سنگین ہے کیونکہ ان کی نقل و حرکت اکثر ثقافتی اور سماجی پابندیوں کے تحت محدود ہوتی ہے۔ مرد حضرات کے مقابلے میں خواتین کے لیےکمیونٹی سینٹرز یس دیگر مواقع تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے جہاں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو۔ اس کے نتیجے میں، وہ آن لائن تعلیم، روزگار کے مواقع اور دیگر اہم معلومات تک رسائی سے محروم رہ جاتی ہیں۔
بجلی کی مسلسل فراہمی بھی ایک اہم چیلنج ہے۔ ہزارہ ڈویژن کے کئی علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ایک عام مسئلہ ہے، جو نہ صرف انٹرنیٹ استعمال کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے بلکہ موبائل فونز اور دیگر ڈیجیٹل آلات کو چارج کرنے میں بھی دشواری پیدا کرتی ہے۔
ڈیجیٹل خواندگی اور مہارتوں کا فقدان
انٹرنیٹ تک رسائی کی دستیابی کے باوجود، ڈیجیٹل خواندگی اور ضروری مہارتوں کا فقدان خواتین کی ڈیجیٹل شمولیت میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ روایتی طور پر، پاکستان میں خواتین کی تعلیم پر کم توجہ دی جاتی ہے، اور ہزارہ ڈویژن بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ کم شرح خواندگی کی وجہ سے خواتین کے لیے ڈیجیٹل آلات اور انٹرنیٹ کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ڈیجیٹل خواندگی صرف انٹرنیٹ براؤز کرنے یا سوشل میڈیا استعمال کرنے تک محدود نہیں ہے۔ اس میں معلومات کی تلاش، آن لائن خدمات کا استعمال، ای-کامرس میں شرکت اور سائبر سکیورٹی کے بارے میں آگاہی بھی شامل ہے۔ ان مہارتوں کے بغیر، خواتین ڈیجیٹل دنیا کے مکمل فوائد حاصل نہیں کر سکتیں۔
ڈیجیٹل مہارتوں کے حصول کے لیے مناسب تربیت اور وسائل کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہزارہ ڈویژن میں خواتین کے لیے تکنیکی تربیت کے ادارے اور پروگرام محدود ہیں اور جو موجود ہیں ان تک رسائی بھی سماجی اور اقتصادی رکاوٹوں کی وجہ سے سب کے لیے ممکن نہیں ہے۔
سماجی اور ثقافتی رکاوٹیں
پاکستان کے روایتی معاشرے میں، خواتین کو اکثر گھر کی چار دیواری تک محدود رکھا جاتا ہے اور ان کی نقل و حرکت، تعلیم اور روزگار کے مواقع پر سخت پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ ہزارہ ڈویژن کے ضلع ایبٹ آباد،مانسہرہ اور ہری پورطکے شہری علاقوں میں بھی، اگرچہ کچھ ترقی دیکھنے میں آئی ہے، لیکن اب بھی ان تینوں اضلاع کی دیہاتی آبادی کے علاوہ اپر ہزارہ کے اضلاع ،بٹگرام،تورغر ،اپر کوہستان،لوئر کوہستان اور کولئی پالس کے اضلاع ایسے علاقے ہیں جہاں خواتین کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ موبائل سمیت ڈیجیٹل ڈیوائسز کا استعمال جرم سمجھا جاتا ہے اور میڈیا میں اس طرح کے سینکڑوں واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں محض موبائل استعمال کرنے پر لڑکیوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خاندانی دباؤ، مرد سرپرست کی اجازت کی ضرورت اور سماجی بدنامی کا خوف خواتین کے لیے موبائل فون رکھنے یا انٹرنیٹ استعمال کرنے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ بعض اوقات، خواتین کو یہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال ان کی "عزت” کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے حوالے سے۔
آن لائن ہراسانی اور سائبر کرائم بھی خواتین کی ڈیجیٹل شمولیت میں ایک اہم چیلنج ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خواتین کو اکثر نامناسب تبصروں، دھمکیوں اور جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہ آن لائن رہنے سے خوفزدہ رہتی ہیں اور اپنی ڈیجیٹل موجودگی کو محدود کر دیتی ہیں۔
اقتصادی عدم مساوات
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی اور اس کے استعمال کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں، اور خاص طور پر ہزارہ ڈویژن میں، خواتین کو اکثر اقتصادی طور پر پسماندہ رکھا جاتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں ان کے پاس کم آمدنی ہوتی ہے اور مالی وسائل پر ان کا کنٹرول بھی محدود ہوتا ہے۔
اس کے نتیجے میں، بہت سی خواتین کے لیے اسمارٹ فون خریدنا یا انٹرنیٹ کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ سستے اور قابل رسائی ڈیجیٹل آلات اور انٹرنیٹ پیکجز کی عدم دستیابی اس مسئلے کو مزید بڑھاوا دیتی ہے۔
اقتصادی عدم مساوات خواتین کے لیے آن لائن کاروبار شروع کرنے یا ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے آمدنی حاصل کرنے کے مواقع کو بھی محدود کرتی ہے۔ جب تک خواتین کو اقتصادی طور پر بااختیار نہیں بنایا جاتا، ان کی ڈیجیٹل شمولیت ایک خواب ہی رہے گی۔
متعلقہ مواد اور خدمات کی کمی
ڈیجیٹل شمولیت کے لیے یہ ضروری ہے کہ آن لائن دستیاب مواد اور خدمات خواتین کی ضروریات اور دلچسپیوں کے مطابق ہوں۔ پاکستان میں، زیادہ تر آن لائن مواد انگریزی یا اردو میں دستیاب ہے، جبکہ ہزارہ ڈویژن میں مختلف مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مقامی زبانوں میں مواد کی کمی خواتین کے لیے انٹرنیٹ کو کم مفید اور کم پرکشش بناتی ہے۔
مزید براں، خواتین کے لیے خاص طور پر تیار کردہ آن لائن خدمات اور پلیٹ فارمز کی بھی کمی ہے۔ مثال کے طور پر، آن لائن ہیلتھ کیئر، قانونی مشاورت یا خواتین کے لیے محفوظ سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز محدود ہیں۔ اس کے نتیجے میں، خواتین ڈیجیٹل دنیا کے ان فوائد سے محروم رہ جاتی ہیں جو ان کی زندگیوں کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
پالیسی اور قانونی فریم ورک کا فقدان
ڈیجیٹل صنفی شمولیت کو فروغ دینے کے لیے ایک مضبوط اور جامع پالیسی اور قانونی فریم ورک کا ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں، اگرچہ کچھ کوششیں کی گئی ہیں، لیکن اب بھی ڈیجیٹل حقوق اور صنفی مساوات سے متعلق واضح اور مؤثر قوانین کا فقدان ہے۔
سائبر کرائم اور آن لائن ہراسانی سے نمٹنے کے لیے موجودہ قوانین ناکافی ہیں اور ان پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ اس کے نتیجے میں، خواتین آن لائن محفوظ محسوس نہیں کرتیں اور ڈیجیٹل اسپیس میں اپنی شرکت کو محدود کر دیتی ہیں۔
مزید براں، ڈیجیٹل خواندگی کے پروگراموں، سستی انٹرنیٹ تک رسائی اور خواتین کے لیے تکنیکی تربیت کو فروغ دینے کے لیے واضح پالیسیوں اور حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جب تک حکومت سنجیدگی سے اس مسئلے پر توجہ نہیں دیتی، ڈیجیٹل صنفی فرق کو ختم کرنا مشکل ہوگا۔
ہزارہ ڈویژن کے مخصوص چیلنجز
مذکورہ بالا قومی چیلنجز کے علاوہ، ہزارہ ڈویژن کو کچھ مخصوص مسائل کا بھی سامنا ہے جو خواتین کی ڈیجیٹل شمولیت کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔
مواصلاتی رکاوٹیں: ہزارہ ڈویژن میں مختلف لسانی گروہ آباد ہیں، اور بعض دور دراز علاقوں میں مواصلات کے روایتی ذرائع بھی محدود ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ان رکاوٹوں کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، لیکن کم ڈیجیٹل خواندگی اور رسائی کی کمی کی وجہ سے اس کا مکمل فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔
سماجی روایات کی سختی: بعض دیہی علاقوں میں سماجی روایات بہت سخت ہیں اور خواتین کی نقل و حرکت اور بیرونی دنیا سے تعامل کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں خواتین کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ سماجی طور پر ناقابل قبول بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
تعلیمی پسماندگی: ہزارہ ڈویژن کے کئی علاقوں میں خواتین کی تعلیمی شرح اب بھی کم ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے ڈیجیٹل مہارتیں حاصل کرنا اور انٹرنیٹ کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنا مشکل ہے۔
محدود اقتصادی مواقع: خواتین کے لیے روزگار کے مواقع کی کمی بھی ڈیجیٹل شمولیت میں رکاوٹ بنتی ہے۔ جب خواتین اقتصادی طور پر خود مختار نہیں ہوتیں، تو ان کے لیے ڈیجیٹل آلات اور انٹرنیٹ کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔
تجاویز اور حل
ڈیجیٹل صنفی شمولیت کو بہتر بنانے اور ہزارہ ڈویژن میں خواتین کو ڈیجیٹل دنیا کے مکمل فوائد سے مستفید کرنے کے لیے ایک جامع اور کثیر الجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں چند اہم تجاویز درج ذیل ہیں:
انفراسٹرکچر کی ترقی: ہزارہ ڈویژن کے دور دراز اور دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی رسائی کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی جائے۔ فائبر آپٹک کیبلز اور موبائل ٹاورز کی تنصیب کو ترجیح دی جائے اور بجلی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
ڈیجیٹل خواندگی کے پروگرام: خواتین کے لیے ڈیجیٹل خواندگی اور مہارتوں کی تربیت کے لیے خصوصی پروگرام شروع کیے جائیں۔ ان پروگراموں کو مقامی زبانوں میں منعقد کیا جائے اور ان میں بنیادی کمپیوٹر کی مہارتیں، انٹرنیٹ کا استعمال، آن لائن سکیورٹی اور ای-کامرس کی تربیت شامل ہو۔
سماجی آگاہی اور حوصلہ افزائی: ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے فوائد کے بارے میں سماجی آگاہی مہم چلائی جائے اور خواتین کو ڈیجیٹل دنیا میں فعال طور پر حصہ لینے کی ترغیب دی جائے۔ مرد حضرات اور خاندانی سربراہان کو بھی اس حوالے سے حساس بنایا جائے۔
سستی ڈیجیٹل آلات اور انٹرنیٹ: خواتین کے لیے سستے اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ پیکجز کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ حکومت اور ٹیلی کام کمپنیوں کو اس سلسلے میں خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
متعلقہ مواد اور خدمات کی فراہمی: مقامی زبانوں میں آن لائن مواد اور خواتین کے لیے خصوصی خدمات اور پلیٹ فارمز تیار کیے جائیں۔ اس میں آن لائن تعلیم، صحت کی معلومات، قانونی مشاورت اور محفوظ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس شامل ہو سکتی ہیں۔
مؤثر پالیسی اور قانونی فریم ورک: ڈیجیٹل حقوق اور صنفی مساوات سے متعلق واضح اور مؤثر قوانین بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔ سائبر کرائم اور آن لائن ہراسانی کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔
تعلیمی اصلاحات: خواتین کی تعلیم کو ہر سطح پر فروغ دیا جائے اور نصاب میں ڈیجیٹل خواندگی کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کیا جائے۔
اقتصادی بااختیاری کے اقدامات: خواتین کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں اور انہیں اقتصادی طور پر خود مختار بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں، تاکہ وہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کر سکیں۔
مقامی شراکت داری: ڈیجیٹل صنفی شمولیت کے پروگراموں کو کامیاب بنانے کے لیے مقامی کمیونٹیز، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور خواتین کے گروہوں کے ساتھ شراکت داری کی جائے۔
اگر چہ پاکستان میں ڈیجیٹل صنفی شمولیت ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کی متعدد جہتیں ہیں۔ ہزارہ ڈویژن کے مخصوص سماجی، ثقافتی اور اقتصادی حالات اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیتے ہیں۔ تاہم، ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کے ذریعے ان چیلنجز پر قابو پایا جا سکتا ہے اور خواتین کو ڈیجیٹل دنیا کے لامحدود مواقع سے مستفید کیا جا سکتا ہے۔ حکومت، سول سوسائٹی، نجی شعبے اور مقامی کمیونٹیز کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک ایسا ڈیجیٹل ماحول بنایا جا سکے جو سب کے لیے مساوی اور جامع ہو۔ تب ہی ہزارہ ڈویژن کی خواتین ڈیجیٹل دور میں اپنا جائز مقام حاصل کر سکیں گی اور قومی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں گی۔