وحید مراد
رَٹّا کلچر کا ذکر کرتے ہی اکثر ذہن میں یہ تصور آتا ہے کہ شاید اس سے مراد بغیر سمجھے یاد کرنا ہے یا یہ صرف کم درجے کے سرکاری اسکولوں کا مسئلہ ہے جہاں سہولیات کی کمی ہوتی ہے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ مہنگے نجی ادارے، جدید ٹیکنالوجی، یا بین الاقوامی نصاب رَٹّا سسٹم سے پاک ہوتے ہیں یا یہ کہ مادری زبان میں تعلیم دی جائے تو بچے بغیر رَٹّے کے سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب محض سطحی تصورات ہیں۔
رَٹّا سسٹم کی جڑیں پورے نظام تعلیم اور معاشرتی سانچے میں اس قدر گہری پیوست ہیں کہ انہیں صرف زبان، ادارے یا سہولتوں کے پیمانے سے ماپنا ممکن نہیں۔ رَٹّا سسٹم دراصل اس وقت پیدا ہوتا ہے جب تعلیم کو ایک خارجی ایجنڈے کے حصول کا ذریعہ بنا دیا جائے۔ جب سیکھنے کا محرک انسان کی اندرونی طلب، تجسس اور روحانی ضرورت کے بجائے ریاست، ادارہ یا کسی اور کا طے کردہ مقصد بن جائے۔
جب نصاب(Syllabus) اور مقاصدِ تعلیم (SLOs) کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ تعلیم کا مقصد صرف مخصوص ہدف حاصل کرنا رہ جائےخواہ وہ کسی بھی سیاسی، مذہبی یا معاشی سوچ کے تحت ہو—تو اس میں طالبعلم کا دل، ذہن، اور ذات شامل نہیں ہوتے۔ وہ سیکھنے کی بجائے صرف وقتی کامیابی، نمبرز، ڈگری یا نوکری کے لیے معلومات یاد کرتا ہے۔ ایسے علم کی عمر مختصر ہوتی ہے کیونکہ یہ طالبعلم کی اصل زندگی، اس کے وجود، جذبات یا ذاتی تجربے سے نہیں جڑا ہوتا۔ لیکن جب کوئی علم انسان کی فلاح، سکون، بقاء یا شناخت سے جڑ جائے، تب وہی علم اُس کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے، اس کے عمل میں ڈھل جاتا ہے اور کبھی نہیں بھولتا۔ یہی وہ پہلا زاویہ ہے جو رَٹّا سسٹم کی بہتر تفہیم اجاگر کرتا ہے۔
دوسرا زاویہ وہ مصنوعی ماحول ہے جہاں تعلیم دی جاتی ہے۔ جب سیکھنے کا ماحول کتابی، ایجنڈہ بیسڈ، یا ادارہ جاتی سانچے میں محدود ہو جائے—جیسے کلاس رومز، سیمینارز، تربیتی ورکشاپس یا سمیولیشنز وغیرہ—تو وہاں تعلیم کا مقصد صرف فوری نتائج حاصل کرنا رہ جاتا ہےنہ کہ کسی انسان کو نکھارنا۔ ایسے ماحول میں سیکھنے والے افراد جذباتی یا ذہنی طور پر سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتےان پر صرف ایک بوجھ مسلط ہوتا ہے۔ وہ سیکھتے ہیں، لیکن سمجھ نہیں پاتے۔ جب وہ حقیقی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو اکثر اپنی تربیت کو عملی دنیا میں نافذ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ صرف ظاہری اصولوں اور ضابطوں کے عادی ہوتے ہیں، اندر سے نہیں جُڑے ہوتے اس لیے اصل زندگی کے غیر متوقع مسائل کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔ تعلیم انسان کی فطرت، تجربے اور زندگی سے ہم آہنگ ہو، تب ہی وہ دیرپا اور بامقصد بن سکتی ہے۔
تیسرا زاویہ زبان اور سہولیات سے متعلق ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک عام رائے پائی جاتی ہے کہ رَٹّا کلچر کی جڑ غیر ملکی زبان ہے، خاص طور پر انگریزی۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر تعلیم مادری زبان میں دی جائے تو رَٹّا خود بخود ختم ہو جائے گا۔ یہ سوچ ایک مغالطے سے کم نہیں۔ زبان صرف ایک ذریعہ ہے علم کا متبادل نہیں۔ دنیا بھر میں لاکھوں طلبہ اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن وہ بھی اگر اپنے اندرونی جذبے، ضرورت یا دلچسپی سے جڑے بغیر پڑھیں تو سب کچھ وقت کے ساتھ بھول جاتے ہیں۔ زبان، چاہے مادری ہو یا غیر ملکی، اگر سیکھنے کے عمل میں صرف ایک سہولت کے طور پر استعمال ہو تو وہ فائدہ مند ہے۔ لیکن اگر علم ہی مصنوعی یا مسلط کردہ ہو تو کوئی زبان بھی اسے حقیقی علم نہیں بنا سکتی۔ اصل سیکھنا تب ہوتا ہے جب علم زندگی سے مربوط ہو اور وہ طالب علم کی اپنی طلب، تلاش اور فہم سے جنم لے۔
زبان، ٹیکنالوجی، اچھے کلاس رومز اور پرسکون ماحول—یہ سب تعلیم کے لیے سہولیات ضرور ہیں مگر اصل محرک نہیں۔ یہ سب اُس وقت فائدہ دیتے ہیں جب سیکھنے والا خود سیکھنا چاہے۔ اگر علم، ہماری روح، جذبات اور وجود سے نہ جُڑا ہو تو یہ تمام سہولتیں رَٹّا سسٹم کو روکنے میں ناکام رہتی ہیں۔ بسا اوقات یہ سہولیات تعلیم کو اور بھی زیادہ "ایجنڈہ بیسڈ” اور مصنوعی بنا دیتی ہیں جہاں سارا زور صرف نتائج پر ہوتا ہے روحانی یا فطری ضرورت پر نہیں۔
اصل تعلیم وہ ہے جو انسان خود حاصل کرنا چاہے— اپنی اندرونی ضرورت، تجسس اور شوق سے، جسے وہ اپنی زندگی، شناخت اور عمل میں ڈھال سکے۔ رَٹّا وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں تعلیم مسلط ہو، مقصد باہر سے تھوپا گیا ہو اور ماحول جذبات سے خالی ہو۔ سیکھنے والا جب خود سوال کرے، خود ڈھونڈے اور اپنی ذات کو علم میں تلاش کرے، تب وہ تعلیم اس کے وجود کا حصہ بن جاتی ہے اور کبھی نہیں بھولتی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم زبان، نصاب اور سہولیات کے پیچھے چھپنے کے بجائے تعلیم کو زندگی سے جوڑیں، انسان کے دل، دماغ اور روح سے ہم آہنگ کریں تاکہ علم صرف یادداشت کا بوجھ نہ بنے بلکہ زندگی کا نور بن جائے۔
اللہ کرے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو ایسا بنا سکیں جو انسان کے اندرونی وجود، فطرت اور جذبات کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ ایسا علم جو انسان کی زندگی کو بامقصد بنائے، اسے محض امتحانی کامیابیوں اور ڈگریوں کا غلام نہ رکھے، بلکہ شعور، فہم، محبت اور عمل کا راستہ دکھائے۔