Skip to content

جنگ نام ہے تباہی کا

شیئر

شیئر

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ جنگیں انسانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہیں جو لاکھوں لوگوں کی موت، معاشی تباہی، اور سماجی انتشار کا باعث بنتی ہیں۔ جنگوں کی تباہ کاریاں صرف فوجوں تک محدود نہیں ہوتیں، بلکہ اس سے عام شہری، خاص طور پر خواتین اور بچے، اس کا سب سے بڑا شکار ہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں جب کسی ملک اور قوم میں جنگ کا میدان گرم ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں لاکھوں یا کروڑوں افراد لقمہ اجل بنتے ہیں۔ صرف پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں ہی کروڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ یہ اموات نہ صرف فوجی کارروائیوں کی وجہ سے ہوتی ہیں، بلکہ قحط، بیماریاں اور ناقص طبی سہولیات بھی بڑی تعداد میں اموات کا باعث بنتی ہیں۔
معاشی وسائل کی تباہی
جنگوں کے دوران ملکوں کے معاشی وسائل کو تباہ کر دیا جاتا ہے، صنعتیں تباہ ہو جاتی ہیں، اور تجارت معطل ہو جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں شدید اضافہ ہوتا ہے۔ کئی ممالک جنگوں کے بعد دہائیوں تک معاشی بحران کا شکار رہتے ہیں۔

ہجرت کا بحران
جنگ کی تباہی کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں افراد پناہ کی تلاش میں دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں، جس سے مہاجرین کے بحران پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مہاجرین اکثر بنیادی سہولیات سے محروم ہوتے ہیں اور انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سماجی نظام کی تباہی
جنگوں کی وجہ سے خاندان بکھر جاتے ہیں، بچے یتیم ہو جاتے ہیں، اور معذور افراد کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ سماجی اقدار تباہ ہوتی ہیں اور جرائم، تشدد اور نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ سماجی بحران قوموں کو صدیوں تک اٹھنے نہیں دیتا اور اس کی سمت درست کرنے کیلئے نسلیں درکار ہوتی ہیں۔

ماحولیاتی نقصان
آج کل کی جنگی ٹیکنالوجی اتنی تباہ کن ہے کہ جس کے استعمال سے ماحولیاتی نظام تباہ وبرباد ہو جاتا ہے۔ بارودی سرنگوں، کیمیائی ہتھیاروں اور جوہری حملوں کا استعمال ماحول کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں زمینیں بنجر ہو جاتی ہیں، پانی آلودہ ہو جاتا ہے، اور جنگلات تباہ ہو جاتے ہیں، جس سے آنے والی نسلوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اس تباہی سے نمٹنے کیلئے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔

صحت کے مسائل
جنگی ماحول کا انسانوں کی مجموعی صحت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جنگ میں شامل فوجیوں اور شہریوں کو شدید ذہنی دباؤ اور صدمات کا سامنا ہوتا ہے۔ کئی لوگ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی زندگیاں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔
تعلیم اور ترقی کا نقصان
جنگ زدہ علاقوں میں اسکول اور یونیورسٹیاں تباہ ہو جاتی ہیں، جس سے نئی نسل تعلیم سے محروم رہ جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ معاشرے میں جہالت اور پسماندگی کی صورت میں نکلتا ہے۔ جس کا خمیازہ قوموں کو صدیوں بھگتنا پڑتا ہے۔
جنگیں کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں نے صرف تباہی پھیلائی ہے، جبکہ امن اور مکالمہ ہی دیرپا ترقی اور خوشحالی کا راستہ ہے۔ دنیا کو مزید جنگوں سے بچانے کے لیے بین الاقوامی تعاون، رواداری اور انصاف پر مبنی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔
یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ جنگ میں کوئی نہیں جیت سکتا اس میں سب ہار جاتے ہیں فرق یہ ہے کسی کا نقصان کم اور کسی کا زیادہ ہوتا ہے جنگ عالمی سرمایہ دارای نظام کے کاروباری مافیا کے مفادات کا کھیل ہے۔
جنگ ہونی چاہیے ایسے ظالمانہ نظام کے خلاف جو انسانیت کو تقسیم کر کے بھوک اور جہالت پیدا کرتا ہے۔خوف اور دہشت کا ماحول بناتا ہے۔ جو قوموں میں جھگڑے پیدا کر کے اسلحہ فروخت کرتا ہے اور پھر بحالی کے نام پر انکے وسائل لوٹتا ہے ایسے انسان دشمن سرمایہ دارانہ اور استحصال پر مبنی سسٹم سے آزادی کی جنگ عقل و شعور کی بنیاد پر لڑنی چائیے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں