Skip to content

 پاکستان بھارت کی محاذ آرائی  

شیئر

شیئر

ڈاکٹر جزبیہ شیریں


جنگ کی صورتحال، جو حالیہ دنوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان شدت اختیار کر گئی تھی، ایک نازک مرحلے پر پہنچ چکی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے خطرات ہمیشہ موجود رہتے ہیں، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور ایسی جنگ کا آغاز، نہ صرف ان دونوں ملکوں کے لئے بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس صورت حال میں دونوں ممالک کی طرف سے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، ان میں سے بیشتر دراصل ایک دوسرے کو دباؤ میں رکھنے اور اپنے عوام کو مطمئن کرنے کی کوششیں ہیں۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کی جڑیں پلوامہ حملے اور اس کے بعد بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی سے جڑی ہوئی ہیں۔ بھارتی حکام کی جانب سے پلوامہ حملے کے بعد پاکستان پر الزام تراشی کی گئی اور بھارت نے اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ تاہم، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پلوامہ بھارت کے اندرونی مسائل اور ان کی سکیورٹی ناکامی کا نتیجہ تھا، جسے بھارتی حکومت نے اپنی عوام کی حمایت حاصل کرنے اور انتخابی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ بھارتی جنتا پارٹی (BJP) کا ایجنڈا ہمیشہ مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کا رہا ہے، اور پلوامہ جیسے واقعات کو انہوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کیا۔

بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور یہ حقیقت ان دونوں کے لئے کسی بھی جنگ کی قیمت کو بہت زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ دونوں ممالک کے پاس اتنی صلاحیتیں ہیں کہ وہ جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچا سکتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ دونوں ممالک کے لئے تباہ کن ہو گا۔ اس لئے جنگ کے خطرات کے باوجود دونوں ممالک اس میں قدم نہیں بڑھا سکتے۔ پاکستان کے معاشی حالات بھی طویل جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے اور بھارت بھی اپنی معاشی صورتحال کے پیش نظر ایسی جنگ کو برداشت نہیں کر سکتا۔

اس صورتحال میں، دونوں ممالک کی طرف سے جو اقدامات کیے گئے ہیں، ان میں اکثر جارحیت کا جواب دینے کی کوششیں شامل ہیں، جیسے بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ اور پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائیاں۔ پاکستان نے بھارتی میزائل حملوں کے جواب میں اپنے فضائی حملے کیے اور بھارتی طیاروں کو مار گرایا۔ یہ سب دعوے اور کارروائیاں ایک دوسرے کے ردعمل کے طور پر ہو رہی ہیں تاکہ ایک دوسرے کو دباؤ میں لایا جا سکے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک اس جنگ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔

امریکہ کی موجودگی بھی اس صورتحال میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ امریکہ کے اپنے عالمی مفادات ہیں اور وہ اس جنگ کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے، جیسے یوکرائن میں پراکسی جنگ یا مشرق وسطیٰ میں انتہاپسند گروپوں کو استعمال کرنا۔ امریکہ کی حکمت عملی چین کو محدود کرنے اور اس کے ساتھ جنگ کو بڑھانے کی ہے، اور بھارت کو اس پراکسی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ چین کو جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کی جائے۔

چین کی پوزیشن اس معاملے میں بہت واضح ہے۔ چین ہمیشہ امن کی بات کرتا ہے اور اس نے اپنے بیان میں یہ واضح کیا ہے کہ وہ جنگ کی حمایت نہیں کرتا۔ چینی حکومت کے بیانات میں ہمیشہ یہی کہا گیا ہے کہ چین عالمی امن کے حق میں ہے اور وہ جنگ کے میدان میں مداخلت نہیں کرے گا۔ 

روس اس معاملے میں غیرجانبدار رہا ہے اور اس نے کسی بھی فریق کی حمایت نہیں کی۔ اس کا موقف یہ ہے کہ تنازعات کا حل مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے، نہ کہ جنگ کے ذریعے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ کے خطرات میں کمی کا امکان زیادہ ہے، کیونکہ عالمی طاقتیں اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ سے بچا جائے۔

پاکستان اور بھارت دونوں کے لئے یہ حقیقت واضح ہے کہ ایٹمی جنگ کے خطرات کے باوجود وہ اس جنگ کو بڑھا نہیں سکتے۔ دونوں ممالک کا مقصد اپنے عوام کو مطمئن کرنا اور اپنے سیاسی مفادات کو پورا کرنا ہے، نہ کہ جنگ کو بڑھانا۔ اگر جنگ شروع ہوتی ہے، تو یہ صرف دونوں ممالک کی جنگ نہیں ہوگی، بلکہ عالمی طاقتیں بھی اس میں ملوث ہوں گی، اور اس کا نتیجہ کسی بھی صورت میں فائدہ مند نہیں ہوگا۔

آخرکار، یہ کہنا کہ بھارت اور پاکستان دونوں اس جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے، ایک حقیقت ہے۔ دونوں ممالک میں اس جنگ کے بعد کی صورت حال کو بہتر کرنے کے لئے سفارتی اور سیاسی چینلز استعمال کیے جائیں گے۔ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ جنگ کے چند ابتدائی حملوں کے بعد دونوں ممالک خاموش ہو جائیں گے اور دوبارہ کشیدگی کم کرنے کی کوشش کریں گے، کیونکہ دونوں ممالک کے پاس ایک دوسرے کو مکمل شکست دینے کی صلاحیت نہیں ہے اور جنگ کی صورت میں دونوں کے لئے تباہی کا خطرہ موجود ہے

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں