Skip to content

حکومتیں، تعلیمی ادارے، امتحانی بورڈز : رٹا کلچر ختم کرنے میں سنجیدہ کیوں نہیں؟ رٹا کلچر سے بے شمار مالی اور کاروباری مفادات جڑےہیں، کئی صنعتوں کا وجود رٹا کلچر کی وجہ سے قائم ہے۔۔۔۔

شیئر

شیئر

وحید مراد

تعلیم کا مقصد تنقیدی سوچ، تجزیے کی مہارت اور سیکھنے کی حقیقی صلاحیت پیدا کرنا ہے مگر رٹا کلچر نئی نسل کی تخلیقی صلاحیتیں کچل رہا ہے۔ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ نظام محض سستی یا لاپرواہی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت برقرار رکھا گیا ہے۔ حکومتیں اور تعلیمی ادارے اصلاحات کے دعوے تو کرتے ہیں مگر ایسی تبدیلیوں سے گریز کرتے ہیں جو طلبہ کو سوال کرنے اور خودمختار انداز سےسوچنے کے قابل بنا سکیں۔ ایک باشعور شہری سوال اٹھاتا ہے، نظام کو چیلنج کرتا ہے اور یہی وہ خطرہ ہے جس سے طاقتور حلقے بچنا چاہتے ہیں۔

حکومتوں کو ڈر ہے کہ اگر طلبہ مہارتوں سے لیس ہو کر میدان میں اتریں تو نوکریوں کے محتاج نہیں رہیں گے، غیرمنصفانہ قوانین کے خلاف آواز بلند کریں گے اور اپنے حقوق کا شعور حاصل کر لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی نظام کو اس نہج پر رکھا جاتا ہے کہ طالب علم بس نمبر لینے اور ڈگری حاصل کرنے میں الجھے رہیں۔

تعلیمی صنعت ایک منافع بخش کاروبار بن چکی ہے جو سالانہ ہزاروں بلین ڈالر کماتی ہے۔ پبلشرز، کوچنگ سینٹرز، امتحانی بورڈز، داخلہ ٹیسٹ کی انڈسٹری وغیرہ سب اسی رٹے والے نظام کے مرہونِ منت ہیں۔ اگر تعلیم فہم پر مبنی ہو جائے تو ان کے کاروبار پر ضرب لگے گی۔ اسی لیے اصلاحات کے نام پر محض نمائشی اقدامات کیے جاتے ہیں تاکہ اصل مسئلہ جوں کا توں رہے۔

سرکاری اسکول حکومتی ایجنڈے کے نفاذ کا ذریعہ بن چکے ہیں جہاں اساتذہ محض امتحانات پاس کرانے پر زور دیتے ہیں۔ انہیں خود بھی پڑھائی میں دلچسپی نہیں اس لیے تدریسی طریقے بدلنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ نجی تعلیمی ادارے مارکس اور گریڈز کی دوڑ میں پھنسے ہیں جہاں بہترین رزلٹ کا وعدہ تو ہے مگر حقیقی تعلیم کا نہیں۔ ان کا سارا بزنس ماڈل اس بنیاد پر چلتا ہے کہ طالب علم رٹے کے ذریعے اچھے نمبرز لے تاکہ اسکول کی مارکیٹنگ ہو سکے اور مزید طلبہ داخلہ لیں۔

ٹیوشن سینٹرز اسی رٹے پر مبنی امتحانات کی بدولت پنپ رہے ہیں۔ ان کا کام بچوں کو امتحانی پیٹرن کے مطابق تیار کرنا ہےنہ کہ انہیں حقیقی علم دینا۔ اگر تعلیم فہم پر مبنی ہو جائے تو یہ انڈسٹری شدید متاثر ہوگی۔ گائیڈ بکس، ریہرسل بکس، پاسٹ پیپر زکے کاروبار سب اسی رٹے کے محتاج ہیں۔ اگر امتحانی سوالات میں تخلیقی عنصر شامل ہو جائے تو ان بکس کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں ۔

امتحانی بورڈز کی کامیابی کا انحصار اسی پر ہے کہ طلبہ بار بار امتحانات دیں، دوبارہ رجسٹریشن کروائیں اور نمبروں کی دوڑ میں پھنسے رہیں۔ یہ ادارے حقیقی لرننگ پر نہیں بلکہ امتحانی فیسوں پر چلتے ہیں۔ اگر تعلیم کا مقصد سیکھنا بن جائے تو ان کا موجودہ بزنس ماڈل ختم ہو جائے گا۔

داخلہ ٹیسٹ اور اسکالرشپ امتحانات بھی اسی کاروباری ماڈل کا حصہ ہیں۔ بڑے کوچنگ سینٹرز SAT، GRE، GMAT، MDCAT، ECAT، CSS اور دیگر امتحانات کی تیاری کے نام پر کروڑوں روپے کماتے ہیں۔ یہ مخصوص "پیٹرن” کی تیاری کرواتے ہیں، فارمولے رٹواتے ہیں، مگر اصل علم نہیں سکھاتے۔ اگر بھرتی اور داخلے کا نظام حقیقی مہارت پر مبنی ہو جائے تو ان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔

سرکاری اور نجی ادارے ڈگریوں کی بنیاد پر بھرتیاں کرتے ہیں، جہاں اصل مہارت سے زیادہ رٹے کی اہمیت ہے۔ نالائق افراد رٹے کے ذریعے کامیاب ہو کر نظام میں آ جاتے ہیں جبکہ حقیقی ذہین افراد محض اس لیے فیل ہو جاتے ہیں کہ وہ مخصوص "رٹے کی مہارت” نہیں رکھتے۔ اگر بھرتی کا معیار حقیقی صلاحیت ہو تو رٹے کا نظام ٹوٹ سکتا ہے۔

مارکس اور CGPA کی بنیاد پر نوکریاں دینے کا رجحان بھی رٹے کو فروغ دیتا ہے۔ اگر کمپنیاں ڈگری کے بجائے اصل مہارت کو ترجیح دیں تو اس نظام کی جڑیں ہل جائیں۔ اسپیشل ایجوکیشن سینٹرز اور ماہرینِ نفسیات بھی رٹے میں ناکام بچوں کو "ڈسلیکسک” یا "کمزور” قرار دے کر اپنا کاروبار چمکاتے ہیں، حالانکہ اصل مسئلہ بچے میں نہیں، بلکہ سسٹم میں ہے۔

شعبہ تعلیم کو کاروبار کے بجائے "علم” کے لیے استعمال کیا جائے تو ہی تبدیلی ممکن ہے۔ لیکن جو انڈسٹریز رٹے کی پیداوار ہیں وہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ حقیقی تعلیم کا نظام لاگو ہو کیونکہ اس سے ان کا منافع ختم ہو سکتا ہے۔ یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو تعلیمی اصلاحات کے راستے میں کھڑی ہے۔

حقیقی تبدیلی تبھی آئے گی جب نوکریاں اور داخلے مہارت کی بنیاد پر دیے جائیں گے نہ کہ نمبروں کی بنیاد پر۔ جب تک مارکس اور گریڈز پر بھرتی کا نظام رہے گا، رٹا کلچر ختم نہیں ہوگا۔ ہمیں ایسے امتحانی اور تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو طلبہ کی اصل تجزیاتی، تخلیقی اور عملی صلاحیتوں کو جانچ سکے۔ ورنہ وہی پرانا چکر۔۔ یاد کرو، لکھو، نمبر لو اور فارغ ہو جاؤ۔۔ چلتا رہے گا۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں