شیر افضل گجر
ایک تنقیدی جائزہ اور پاکستان کے آبی مفادات پر اثرات
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty – IWT) دنیا کے کامیاب ترین پانی کی تقسیم کے معاہدوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس معاہدے نے دونوں ممالک کے درمیان پانی جیسے حساس مسئلے پر ممکنہ تنازعات کو بڑی حد تک قابو میں رکھا ہے۔ معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت، دونوں کو مستقل انڈس کمشنرز (Permanent Indus Commissioners) مقرر کرنا ہوتے ہیں جن کا کام معاہدے پر عملدرآمد کی نگرانی کرنا، ڈیٹا کا تبادلہ کرنا اور پیدا ہونے والے مسائل کو باہمی بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ پاکستان کے لیے انڈس واٹر کمشنر کا عہدہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ملک کی زراعت اور معیشت کا زیادہ تر انحصار دریائے سندھ اور اس کے معاون مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) پر ہے، جن کے حقوق اس معاہدے کے تحت پاکستان کو ملے ہیں۔
جماعت علی شاہ نے طویل عرصے تک پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر (PCIW) کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ان کا دورانیہ تقریباً دو دہائیوں پر محیط رہا (1990 کی دہائی کے وسط سے 2011 تک)۔ تاہم، ان کا یہ طویل دور تنازعات سے خالی نہیں رہا۔ ان پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے کہ ان کی پالیسیوں، فیصلوں اور بعض اوقات مبینہ غفلت یا کمزور حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان کے آبی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، خاص طور پر بھارت کی جانب سے مغربی دریاؤں پر تعمیر کیے جانے والے متنازعہ ڈیموں اور پن بجلی منصوبوں کے حوالے سے۔ یہ تحریر جماعت علی شاہ کے دورِ کمشنری کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کرتی ہے، ان الزامات اور کارستانیوں کا تفصیل سے جائزہ لیتی ہے جن کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بطور انڈس واٹر کمشنر پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچایا۔
سندھ طاس معاہدہ کا پس منظر اور اہمیت
سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا۔ اس کے تحت تین مشرقی دریاؤں (ستلج، بیاس، راوی) کا پانی بھارت کے حصے میں آیا جبکہ تین مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔ تاہم، معاہدے میں بھارت کو مغربی دریاؤں پر محدود استعمال، خاص طور پر ‘رن آف دی ریور’ (Run-of-the-River) پن بجلی منصوبے تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی، بشرطیکہ وہ پانی کے بہاؤ میں کوئی مادی رکاوٹ پیدا نہ کریں اور پاکستان کے حصے کے پانی کو متاثر نہ کریں۔
پاکستان چونکہ ایک نیم بنجر ملک ہے اور اس کی زراعت کا 90 فیصد سے زائد انحصار دریائے سندھ کے نظام پر ہے، اس لیے مغربی دریاؤں کا بلا تعطل بہاؤ اس کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ معاہدے میں تنازعات کے حل کے لیے ایک مربوط نظام وضع کیا گیا ہے، جس میں مستقل انڈس کمیشن (PIC) کے ذریعے باہمی بات چیت، غیر جانبدار ماہر (Neutral Expert) کی تقرری، اور عالمی ثالثی عدالت (Court of Arbitration – CoA) سے رجوع کرنے کے آپشنز شامل ہیں۔ انڈس واٹر کمشنر کا کردار اس سارے عمل میں کلیدی ہوتا ہے۔
جماعت علی شاہ کا دورِ کمشنری: ذمہ داریاں اور تنازعات
بطور PCIW، جماعت علی شاہ کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل تھا:
- معاہدے کی شقوں پر عملدرآمد کی نگرانی کرنا۔
- بھارت کے ساتھ آبی ڈیٹا کا باقاعدگی سے تبادلہ یقینی بنانا۔
- مغربی دریاؤں پر بھارتی منصوبوں کے ڈیزائن کا جائزہ لینا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ وہ معاہدے کی روح اور شقوں کے مطابق ہوں۔
- اگر کوئی منصوبہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتا نظر آئے تو بروقت اور مؤثر طریقے سے اعتراضات اٹھانا۔
- تنازعات کو پہلے مستقل انڈس کمیشن کے پلیٹ فارم پر حل کرنے کی کوشش کرنا اور ناکامی کی صورت میں حکومت کو اگلے اقدامات (غیر جانبدار ماہر یا ثالثی عدالت) کے لیے سفارش کرنا۔
تاہم، ان کے طویل دور میں، خاص طور پر دو بڑے بھارتی منصوبوں – بگلیہار ڈیم (دریائے چناب پر) اور کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ (دریائے جہلم/نیلم پر) – کے حوالے سے ان کی کارکردگی شدید تنقید کی زد میں آئی۔ ناقدین کا مؤقف ہے کہ ان معاملات میں ان کی مبینہ کوتاہیوں اور کمزور مؤقف نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
بگلیہار ڈیم تنازعہ: مبینہ کمزوریاں اور نتائج
بگلیہار ڈیم بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب پر تعمیر کیا۔ پاکستان نے ابتدا ہی سے اس کے ڈیزائن پر شدید اعتراضات اٹھائے۔ بنیادی اعتراضات یہ تھے:
ڈیزائن کا رن آف دی ریور نہ ہونا پاکستان کا مؤقف تھا کہ ڈیم کا ڈیزائن، خاص طور پر اس کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت (Pondage) اور گیٹڈ اسپل ویز (Gated Spillways) کا استعمال، سندھ طاس معاہدے میں بیان کردہ ‘رن آف دی ریور’ منصوبے کی تعریف اور شرائط کی خلاف ورزی ہے۔ گیٹڈ اسپل ویز بھارت کو پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں، جو پاکستان کے لیے ناقابل قبول تھا۔
- پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش پاکستان کا اعتراض تھا کہ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش معاہدے میں متعین کردہ حد سے زیادہ ہے۔
- پاور انٹیک (Power Intake) کی سطح پاور انٹیک کی گہرائی پر بھی پاکستان کو اعتراضات تھے۔
جماعت علی شاہ کے کردار پر تنقید
ناقدین کے مطابق، جماعت علی شاہ نے بگلیہار معاملے میں درج ذیل کوتاہیاں کیں:
- اعتراضات میں تاخیر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے بھارتی ڈیزائن پر اعتراضات اٹھانے میں غیر ضروری تاخیر کی، جس سے بھارت کو تعمیراتی کام آگے بڑھانے کا موقع ملا۔
- کمزور تکنیکی مؤقف
کہا جاتا ہے کہ ابتدائی مراحل میں پاکستان کا تکنیکی مؤقف کمزور تھا اور جماعت علی شاہ کی ٹیم بھارتی دعوؤں کا مؤثر توڑ پیش کرنے میں ناکام رہی۔ کچھ حلقوں نے یہاں تک الزام لگایا کہ ابتدائی طور پر کچھ ایسے ڈیزائنز پر رضامندی ظاہر کی گئی جو پاکستان کے مفاد میں نہیں تھے۔ - غیر جانبدار ماہر کے سامنے کمزور پیروی جب معاملہ 2005 میں عالمی بینک کے مقرر کردہ غیر جانبدار ماہر، سوئس انجینئر پروفیسر ریمنڈ لافیتے (Raymond Lafitte) کے پاس گیا، تو وہاں بھی پاکستان کے کیس کی پیروی پر سوالات اٹھائے گئے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنا کیس مؤثر انداز میں پیش نہیں کرسکا، جس کی ذمہ داری بڑی حد تک کمشنر پر عائد ہوتی ہے۔
- نتیجہ اور اس کے اثرات: غیر جانبدار ماہر نے اگرچہ پاکستان کے کچھ اعتراضات (مثلاً ڈیم کی اونچائی کم کرنا اور پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں معمولی کمی) کو تسلیم کیا، لیکن بنیادی ڈیزائن، خاص طور پر گیٹڈ اسپل ویز کے استعمال کی اجازت دے دی، جو پاکستان کا سب سے بڑا خدشہ تھا۔ اس فیصلے کو پاکستان میں ایک بڑی ناکامی تصور کیا گیا اور اس کا الزام جماعت علی شاہ کی مبینہ ناقص حکمت عملی اور کمزور پیروی پر لگایا گیا۔ ناقدین کے مطابق، بگلیہار کیس نے مستقبل کے بھارتی منصوبوں کے لیے ایک منفی مثال قائم کی اور بھارت کو مغربی دریاؤں پر مزید جارحانہ انداز میں منصوبے بنانے کا حوصلہ ملا۔ اس فیصلے سے پاکستان کو دریائے چناب کے پانی کے بہاؤ میں کمی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے اس کی زرعی ضروریات متاثر ہوئیں۔
کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ (KHEP) تنازعہ: مبینہ غفلت
کشن گنگا (پاکستان میں دریائے نیلم) دریائے جہلم کا ایک اہم معاون دریا ہے۔ بھارت نے اس دریا کے پانی کا رخ موڑ کر اسے وولر جھیل/بونار نالے کے ذریعے دریائے جہلم کے مرکزی دھارے میں ڈالنے کا منصوبہ بنایا تاکہ کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ (KHEP) کے لیے بجلی پیدا کی جا سکے۔ اس منصوبے سے پاکستان کے زیر تعمیر نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ (NJHEP) کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا تھا، جو اسی دریا کے پانی پر انحصار کرتا تھا۔
پاکستان نے کشن گنگا منصوبے پر دو بنیادی اعتراضات اٹھائے:
- بین الودی تبدیلی (Inter-tributary Transfer) پاکستان کا مؤقف تھا کہ معاہدہ ایک معاون دریا (کشن گنگا/نیلم) سے پانی نکال کر دوسرے (جہلم مین) میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا، خاص طور پر جب اس سے پاکستان کے موجودہ یا منصوبہ بند استعمالات (Existing Use) متاثر ہوں۔
- ماحولیاتی بہاؤ اور NJHEP پر اثرات: پاکستان کا کہنا تھا کہ پانی کا رخ موڑنے سے دریائے نیلم میں پانی کا بہاؤ خطرناک حد تک کم ہو جائے گا، جس سے نہ صرف ماحولیاتی نقصان ہوگا بلکہ پاکستان کے اہم ترین نیلم جہلم پن بجلی منصوبے کی پیداواری صلاحیت بھی شدید متاثر ہوگی۔
جماعت علی شاہ کے کردار پر تنقید
کشن گنگا معاملے میں جماعت علی شاہ پر لگائے جانے والے الزامات اور تنقید بگلیہار سے بھی زیادہ سنگین نوعیت کی تھی
- بروقت کارروائی نہ کرنا سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ جماعت علی شاہ نے اس وقت کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا جب بھارت نے 1990 کی دہائی میں اور پھر 2000 کی دہائی کے اوائل میں اس منصوبے پر کام شروع کیا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اگر ابتدا ہی میں سخت مؤقف اپنایا جاتا اور معاملے کو بین الاقوامی فورم پر اٹھایا جاتا تو شاید بھارت کو روکا جا سکتا تھا یا بہتر شرائط منوائی جا سکتی تھیں۔
- تاخیری حربے یا عدم دلچسپی
کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس معاملے کو مستقل انڈس کمیشن کی سطح پر ہی لٹکائے رکھا اور حکومت کو بروقت عالمی ثالثی عدالت (CoA) جانے کا مشورہ نہیں دیا، یا اس کی ضرورت پر زور نہیں دیا۔ - بھارت کو تعمیر کا موقع فراہم کرنا
اس مبینہ تاخیر اور غفلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت نے منصوبے پر کافی حد تک تعمیراتی کام مکمل کر لیا، جس سے پاکستان کا کیس کمزور پڑ گیا۔ جب پاکستان بالآخر 2010 میں (جماعت علی شاہ کے کمشنر شپ کے آخری دور میں یا فوراً بعد) عالمی ثالثی عدالت میں گیا، تو عدالت نے اگرچہ پاکستان کے لیے کم از کم ماحولیاتی بہاؤ (Minimum Environmental Flow) کو یقینی بنانے کا حکم دیا، لیکن بھارت کو پانی کا رخ موڑنے کی اجازت دے دی، جو پاکستان کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ - نیلم جہلم منصوبے کو نقصان
اس فیصلے سے پاکستان کے اربوں ڈالر کی لاگت سے بننے والے نیلم جہلم منصوبے کی پیداواری صلاحیت مستقل طور پر متاثر ہو گئی۔ ناقدین اس نقصان کی بڑی ذمہ داری جماعت علی شاہ کی مبینہ ناکام حکمت عملی پر ڈالتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ بروقت اور مؤثر طریقے سے پاکستان کا کیس لڑتے تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔
دیگر بھارتی منصوبے اور عمومی تنقید
بگلیہار اور کشن گنگا کے علاوہ بھی مغربی دریاؤں پر بھارت کے کئی دیگر منصوبوں (مثلاً اڑی-II، چٹک، نمو بازگو) پر پاکستان نے اعتراضات اٹھائے۔ ان معاملات میں بھی جماعت علی شاہ کے دور پر عمومی تنقید کا انداز وہی رہا:
عدم بروقت ردعمل اعتراضات اٹھانے میں تاخیر۔
ناکافی تکنیکی تیاری
بھارتی ڈیزائنز کو چیلنج کرنے کے لیے مطلوبہ تکنیکی مہارت اور ڈیٹا کی کمی۔
مفاہمانہ رویہ یا ملی بھگت؟
ایک ایسا رویہ اپنانا جو بھارت کو جارحانہ منصوبے سازی کے لیے مزید حوصلہ افزائی کرتا ہو۔
طویل مدت ملازمت کے منفی اثرات
بعض ناقدین کا خیال ہے کہ ان کے تقریباً سترہ سالہ طویل دور نے ایک طرح کی افسر شاہی والی بے حسی (Bureaucratic Inertia) پیدا کر دی تھی اور وہ بدلتے ہوئے حالات اور بھارت کی بڑھتی ہوئی آبی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری متحرک اور جارحانہ حکمت عملی اپنانے میں ناکام رہے۔
کئی پارلیمانی کمیٹیوں اور پانی کے ماہرین نے ان کے دورِ کارکردگی پر سوالات اٹھائے اور تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ ان پر یہ الزام بھی لگتا رہا کہ انہوں نے بھارت کے ساتھ مذاکرات میں قومی مفادات پر سمجھوتہ کیا۔ان ہی وجوہات کی بنا پر سینیٹ میں جماعت علی کی گرفتاری اور تحقیقات کا مطالبہ سامنے آیا اور ایف آئی اے نے جماعت علی شاہ کا نام ای سی ایل میں ڈالا اگرچہ وہ پہلے ہی کنیڈا فرار ہونے میں کامیاب ہوچکا تھا ۔
وولر بیراج / تلبُل نیویگیشن پروجیکٹ
یہ تنازعہ جماعت علی شاہ کے دور سے پہلے کا ہے، جو دریائے جہلم کے مرکزی دھارے پر بھارت کی جانب سے ایک بیراج/لاک سسٹم بنانے کا منصوبہ تھا۔ پاکستان کے سخت اعتراضات (کہ یہ معاہدے کے تحت جہلم پر ذخیرہ بنانے کے مترادف ہے) کی وجہ سے اس پر کام 1987 سے رکا ہوا ہے۔ تاہم، ان کے دور میں بھی یہ معاملہ وقتاً فوقتاً اٹھتا رہا، لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی اور نہ ہی ان کے دور میں اس حوالے سے کوئی خاص تنقید سامنے آئی، کیونکہ منصوبہ معطل ہی رہا۔
دفاع یا جوابی دلائل؟
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جماعت علی شاہ یا ان کے حامیوں کی جانب سے ان الزامات کا کیا جواب دیا جاتا رہا ہے۔ اگرچہ عوامی سطح پر ان کا تفصیلی دفاع کم ہی سامنے آیا، لیکن ممکنہ جوابی دلائل یہ ہو سکتے ہیں:
- انہوں نے سندھ طاس معاہدے کے پیچیدہ فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے کام کیا۔
- بھارت ایک بالائی ملک (Upper Riparian) ہونے کے ناطے ہمیشہ ایک فائدے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔
- انہوں نے دستیاب وسائل اور مینڈیٹ کے تحت بہترین ممکنہ کوشش کی۔
- تنازعات کی نوعیت انتہائی تکنیکی تھی، جہاں تشریحات مختلف ہو سکتی ہیں۔
تاہم، ان ممکنہ دفاعی نکات کے باوجود، پاکستان میں پانی کے شعبے سے وابستہ ماہرین، پالیسی سازوں اور عوامی حلقوں میں ان کے دورِ کمشنری پر پائے جانے والے شدید تحفظات اور تنقید کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان پر اثرات و نتائج
جماعت علی شاہ کے دور میں مبینہ کوتاہیوں کے پاکستان کے لیے دور رس منفی نتائج نکلے، جن میں چند اہم یہ ہیں:
مغربی دریاؤں میں پانی کی کمی
بگلیہار اور کشن گنگا جیسے منصوبوں کی وجہ سے پاکستان کو دریائے چناب اور جہلم/نیلم میں پانی کے بہاؤ میں کمی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے پنجاب اور سندھ میں زراعت متاثر ہوئی۔
پاکستان کے پن بجلی منصوبوں کو نقصان
کشن گنگا کی وجہ سے نیلم جہلم منصوبے کی پیداواری صلاحیت کا مستقل طور پر کم ہونا پاکستان کے توانائی کے شعبے کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔
منفی مثالیں قائم ہونا
بگلیہار کیس میں گیٹڈ اسپل ویز کی اجازت ملنے اور کشن گنگا میں پانی کا رخ موڑنے کی اجازت ملنے سے مستقبل میں بھارت کو اسی طرح کے مزید منصوبے بنانے کا جواز مل سکتا ہے۔
معاہدے پر بداعتمادی
ان واقعات سے پاکستان کے اندر سندھ طاس معاہدے کے مؤثر ہونے پر سوالات اٹھے اور یہ تاثر پیدا ہوا کہ معاہدہ پاکستان کے مفادات کا مکمل تحفظ کرنے میں ناکام رہا ہے، یا کم از کم اس پر مؤثر عملدرآمد نہیں کروایا جا سکا۔
پانی کی قلت کے خدشات میں اضافہ
ان فیصلوں نے پاکستان میں پہلے سے موجود پانی کی قلت کے خدشات کو مزید گہرا کیا۔
جماعت علی شاہ کے بعد کا دور اور حاصل کردہ سبق
جماعت علی شاہ کے بعد آنے والے کمشنرز نے بظاہر ایک زیادہ محتاط اور شاید کسی حد تک زیادہ فعال حکمت عملی اپنائی۔ پاکستان نے کشن گنگا اور رتلے منصوبے جیسے معاملات کو عالمی ثالثی عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شاید یہ سبق سیکھا گیا کہ محض دوطرفہ بات چیت یا غیر جانبدار ماہر کافی نہیں، بلکہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے تمام دستیاب قانونی اور سفارتی ذرائع کا بھرپور استعمال ضروری ہے۔
اس سارے تجربے میں پاکستان نے کے لیے جو اہم اسباق ہیں:
مستقل نگرانی اور چوکس رہنا
بھارتی منصوبوں پر ابتدا ہی سے نظر رکھنا اور معمولی سے معمولی تفصیل کا بھی گہرائی سے جائزہ لینا۔
مضبوط تکنیکی صلاحیت
اپنے کیس کو مؤثر بنانے کے لیے اعلیٰ ترین تکنیکی مہارت اور ڈیٹا کا ہونا ضروری ہے۔
بروقت اور فیصلہ کن کارروائی
اعتراضات اٹھانے اور تنازعات کے حل کے لیے دستیاب میکنزم (خاص طور پر غیر جانبدار ماہر یا ثالثی عدالت) کو استعمال کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے.
فعال سفارت کاری
تکنیکی اور قانونی جنگ کے ساتھ ساتھ سفارتی محاذ پر بھی متحرک رہنا ضروری ہے۔
شواہد یہی بیان کرتے ہیں کہ جماعت علی شاہ کا بطور انڈس واٹر کمشنر طویل دور پاکستان کی آبی تاریخ کا ایک اہم مگر متنازعہ باب ہے۔ بگلیہار اور کشن گنگا جیسے اہم تنازعات میں ان کی حکمت عملی، فیصلوں اور مبینہ کوتاہیوں پر شدید تنقید کی جاتی ہے۔ ناقدین کا ٹھوس مؤقف ہے کہ ان کی کارکردگی کی وجہ سے پاکستان کو مغربی دریاؤں پر اپنے جائز حقوق کے تحفظ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں ملک کو پانی کی کمی، زرعی نقصان اور اہم پن بجلی منصوبوں کی متاثرہ کارکردگی کی صورت میں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔
اگرچہ سندھ طاس معاہدہ خود ایک قابل عمل فریم ورک فراہم کرتا ہے، لیکن اس کا مؤثر نفاذ اور کسی ملک کے مفادات کا تحفظ بڑی حد تک اس کے مقرر کردہ نمائندوں، خاص طور پر انڈس واٹر کمشنر کی اہلیت، تدبر، تکنیکی بصیرت اور فعال حکمت عملی پر منحصر ہوتا ہے۔ جماعت علی شاہ کے دور پر اٹھنے والے سوالات اور الزامات کی سنگینی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان جیسے پانی کی کمی کے شکار ملک کے لیے اس اہم عہدے پر تقرری اور اس عہدیدار کی کارکردگی کس قدر فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ ان کے دور سے حاصل ہونے والے اسباق مستقبل میں پاکستان کی آبی پالیسی اور سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنے حقوق کے تحفظ کی حکمت عملی مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، تاکہ ماضی کی مبینہ غلطیوں سے بچا جا سکے اور ملک کے اہم ترین آبی مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔