Skip to content

نقار خانۂ علم اور سوشل میڈیا

شیئر

شیئر

محمد دین جوہر

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے پہلے، اہل علم اور کتابوں تک رسائی بہت مشکل تھی۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے بے شمار اہلِ علم سے واقفیت ہوئی اور ان کو براہ راست سننے اور ان کی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ فیس بک، یوٹیوب وغیرہ پر بہت سے اہلِ علم کے خیالات سے براہ راست استفادے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے۔ صحیح غلط کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ مسلم اہلِ دانش کی علمی فضا مکمل انتشار کا شکار ہے۔ اور یہ انتشار اتنا گہرا ہے کہ کوئی سے دو اہلِ علم آپس میں گفتگو نہیں کر سکتے۔ مغربی دنیا کے بے شمار اہلِ علم کی گفتگوئیں سننے کا بھی اتفاق ہوا ہے۔ باہمی سخت اختلاف رکھنے والے اہلِ علم بھی ایک دوسرے سے بآسانی گفتگو کر رہے ہوتے ہیں اور ان کا اتفاق اور اختلاف بھی سمجھ آ رہا ہوتا ہے۔ ہمارے لنکا میں ہر ایک کا باون گز کا ہونا مشتہر ہے لیکن گز پر سخت اختلاف ہے۔ اس انتشار اور نکبت میں پوری مسلم دنیا شامل ہے۔ کہیں کوئی روشنی کی کرن نظر نہیں آتی۔ اکا دکا لوگ ہیں جو اپنے مسلم معاشروں سے جلاوطن ہو کر مغرب میں پناہ لیے ہوئے ہیں جن کی علمی سطح بہت بلند ہے لیکن انھیں بھی کوئی نہیں پوچھتا۔

ساری عمر اسی طرح کے کاموں میں ضائع کرنے کے بعد مجھے صورت حال کچھ یوں دکھائی دیتی ہے:

(۱) سب سے پہلی چیز جو مجھے محسوس ہوتی ہے وہ ہمارے اولوا العلم میں دیانت اور انسانیت کا فقدان ہے۔ اس پہلو میں ہمارے اولوا العلم، ہمارے اولوا الامر سے بھی گئے گزرے اور ان سے کئی ہاتھ آگے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں نے ترمذی شریف کی جو حدیث مبارکہ شیئر کی تھی وہ بلاوجہ نہیں تھی۔ وہ حدیث شریف ایک ڈریکولا سے طویل ذاتی تعامل اور تجربے میں میری رہنما ثابت ہوئی۔

(۲) اہلِ علم میں انکسار بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ آدمی دانۂ خشخاش جتنا ہوتا ہے اور انا تربوز سے بڑی ہوتی ہے۔@ (۳) گزشتہ دو سو سالہ تکفیری علمی روایت نے ہمارے اذہان کو بالکل ہی مسخ کر دیا ہے اور اس سے نکلنے کا کوئی راستہ بھی سجھائی نہیں دیتا۔

(۴) عقل کے کسی انسانی یا اسلامی تصور کا ہمارے علوم سے مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔

(۵) ہمارے علوم میں کوئی نظام استدلال باقی نہیں رہا اور علوم کے باہمی امتیازات بھی ختم ہو چکے ہیں۔ اس باعث علمی اور تہذیبی شعور کے امکانات مفقود ہو گئے ہیں۔

(۶) مذہبی مباحث علم، تزکیہ اور ہدایت کا ذریعہ ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں وہ نفرت، دشمنی اور انتشار پھیلانے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔

(۷) فقہی روایت اور دین سے جڑی ہماری کلاسیکل علمی روایت تکثیریت کی زبردست مثال تھی۔ فقہ میں اعمال کی واجب اور ممنوع کے درمیان بھی کچھ شقیں ہیں۔ اسی طرح علم کے ایک بنیادی تناظر میں کئی درست مواقف موجود رہے ہیں۔ لیکن آج کل تو حالات بہت خراب ہو گئے ہیں، اور کوئی مکالمہ اور بات کرنا ممکن ہی نہیں رہا کیونکہ علم کا مطلقانہ (absolutist) تصور مکمل طور پر غالب آ چکا ہے۔

(۸) پوری مسلم دنیا میں کہیں بھی ایسا کوئی ڈسکورس موجود نہیں ہے جو مسلم ذہن کو اپنی تہذیبی اور علمی روایت کی تفہیم میں معاون و رہنما ہو یا جدیدیت/ جدید دنیا کی ابتدائی درجے میں تفہیم کرنے مددگار ہو۔ ہمارے ہاں جو بھی نام نہاد تفہیمِ مغرب پائی جاتی ہے وہ مغرب کی self-critique کا چربہ ہے جس کا کوئی بھی تہذیبی اور دینی تناظر نہیں ہے۔

(۹) ہمارے جدید تعلیمی ادارے براہِ راست استعماری طاقت کے قائم کردہ ہیں۔ ان میں کوئی ادھورا خانہ زاد تصور بھی شامل نہیں ہے۔ جبکہ ہمارے دینی مدارس جدید سرمائے کی نئی حرکیات سے وجود میں آئے ہیں جن کی سرپرستی نئی پورژوازی نے کی ہے۔ جدید طاقت اور جدید سرمائے کی حرکیات سے پیدا ہونے والی تعلیم سے کسی قسم کے احیا کی توقع رکھنا محض خام خیالی ہے۔

(۱۰) اس میں کچھ شک نہیں کہ ہمارے ہاں بھی اہلِ علم موجود ہیں اور وہ علم کا کوئی نہ کوئی نظری اور فکری تناظر بھی ضرور رکھتے ہیں۔ یہ امر زیر بحث نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں public reason کا فقدان مکمل ہے اور علم کا معاشرے کے زندہ مسائل سے تعلق ختم ہو گیا ہے اور علم کی حیثیت پست درجے کی اکیڈیمک ہو گئی ہے۔

(۱۱) سب سے افسوسناک روش یہ کہ جدید دنیا میں سامنے آنے والے سیاسی، معاشی، سائنسی اور سماجی نظریات کی تفہیم ہمارے ہاں صفر ہے لیکن دین کو فکر و فلسفہ بنانا علمیت کی معراج سمجھا جاتا ہے۔ مفکر ڈھونڈھے سے نہیں ملتا لیکن مفکرینِ اسلام کی بہتات ہے۔ انفرادی، سماجی اور اجتماعی زندگی کو دین کی مرادات پر ڈھالنے کا داعیہ کمزور پڑ گیا ہے اور مذہب کو فلسفہ اور نظریہ بنانے کا شوق فزوں تر ہے۔

(۱۲) میری رائے میں اس صورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ براہِ راست مکالمہ ہے۔ مکالمے کے پہلے مرحلے کا مقصد ان موضوعات کا تعین ہے جو بحث طلب ہیں۔ دوسرے مرحلے میں گفتگو کے ضوابط اور طرز استدلال کا تعین ہونا ضروری ہے۔ تیسرے مرحلے میں public reason کی شرائط پر گفتگو کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں