رپورٹ کے اعداد و شمار کی صنفی تقسیم کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ریپ کے کل واقعات میں سے 2251 (%53) متاثرین لڑکیاں اور 1962 (47%) لڑکے تھے۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے تعاون سے ساحل کی مرتب کردہ رپورٹ کے اعداد و شمار سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 2023 کے دوران پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر 11 بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات ریکارڈ کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق 2023 میں اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی)، جموں و کشمیر (اے جے کے) اور گلگت بلتستان (جی بی) سمیت چاروں صوبوں سے مجموعی طور پر 4213 بچوں سے ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
واقعات کی کل تعداد میں بچوں کے جنسی استحصال کے رپورٹ شدہ کیسز، اغوا، لاپتہ بچے اور بچوں کی شادیوں کے واقعات شامل ہیں۔
اسلام آباد میں جاری اس رپورٹ کے اعداد و شمار کی صنفی تقسیم کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے کل رپورٹ کیے گئے واقعات میں سے 2251 (%53) متاثرین لڑکیاں اور 1962 (47%) لڑکے تھے۔
رپورٹ کی گئی عمر سے پتہ چلتا ہے کہ چھ سے 15 سال کی عمر کے گروپ میں بچوں کو زیادتی کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے، جس میں لڑکیوں کی نسبت زیادہ لڑکے رپورٹ کیے گئے۔
مزید یہ کہ صفر سے پانچ سال کے بچوں کو بھی ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ کیٹیگری کرول نمبرز یا ظالمانہ اعداد 2023 اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ رشتہ داروں، کنبہ کے افراد، اجنبیوں اور خواتین کی مدد سے جاننے والے بھی بچوں کے جنسی استحصال میں سب سے زیادہ ملوث ہیں۔
جغرافیائی تقسیم کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ کل 4213 کیسز میں سے 75 فیصد پنجاب، 13 فیصد سندھ، سات فیصد کیسز اسلام آباد، تین فیصد کیسز خیبرپختونخوا اور دو فیصد کیسز بلوچستان، جموں و کشمیراور گلگت بلتستان سے رپورٹ ہوئے۔
اس موقعے پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرپرسن این سی ایچ آر رابعہ جویری آغا نے کہا کہ انہیں بچوں سے زیادتی کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنا ہے۔
’ساحل کی طرف سے بتائی گئی تعداد بےشک ظالمانہ ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس کا ہمیں سامنا کرنا پڑے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان تشویش ناک اعدادوشمار کے پیش نظر افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے پاس بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے حوالے سے ابھی تک کوئی نوٹیفائیڈ نیشنل ایکشن پلان نہیں۔
ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ساحل منیزہ بانو نے کہا کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25 اے کے تحت پانچ سے 16 سال تک تعلیم مفت ہے۔
’بچوں کی تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے اس شق پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔ زندگی کی مہارتوں پر مبنی تعلیم فراہم کرنے کے لیے نصاب کو بہتر بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔‘
کرول نمبر 2023 سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ کل رپورٹ ہونے والے واقعات میں سے 91 فیصد پولیس کے پاس رجسٹرڈ تھے۔
یہ ایک مثبت علامت ہے جو اس مسئلے سے نمٹنے میں پولیس کے فعال کردار کی نشاندہی کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق صرف بچوں کے جنسی استحصال کے کیس 2021 تھے، جس میں دونوں جنس کو یکساں طور پر نشانہ بنایا گیا۔ ریپ کے بعد قتل کے کل 61 واقعات اور اغوا کے 1833 واقعات رپورٹ ہوئے۔
لاپتہ بچوں کی تعداد 330 تھی اور بچوں کی شادیوں کی تعداد 29 تھی جن میں لڑکیوں کے 27 اور لڑکوں کے دو واقعات شامل تھے۔
اس سال ساحل نے 18 سال تک کے بچوں کے کیسز جن میں انہیں کسی قسم کی چوٹ لگی یا ان کی موت ہوئی کی بھی مانیٹرنگ کی۔ مانیٹرنگ کیے گئے کل 2184 واقعات میں سے سب سے زیادہ تعداد بچوں کی تھی۔
ان میں سے 694 ڈوب کر 401، حادثات میں 286 جان سے گئے، 121 کی تشدد سے اموات ہوئیں، 111 زخمی، 110 نے خودکشی کی اور 103 بجلی کے جھٹکوں سے مارے گئے۔
ساحل نے روزانہ 81 قومی اور علاقائی اخبارات کی مانیٹرنگ کرتے ہوئے ’کرول نمبرز 2023‘ مرتب کیا ہے۔
اس رپورٹ کے مقاصد بچوں کے خلاف تشدد کے حوالے سے صورت حال کے اعداد و شمار کو پیش کرنا، پاکستان میں بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق موجودہ معلومات اکھٹا کرنے کے لیے تعاون کرنا ہے۔
اس تحقیق سے معاشرے کے تمام طبقات تک بچوں کے جنسی استحصال کی مختلف شکلوں کے بارے میں بیداری اور معلومات پھیلانے کے لیے بھی کردار ادا کیا جائے گا۔