ڈاکٹر جزبیہ شیریں
پاکستان میں مذہبی آزادی اور بڑھتی ہوئی عدم برداشت ایک سنگین اور پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ صرف ایک سماجی یا سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی بحران ہے جو ہر پاکستانی کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرتا ہے۔ مذہبی انتہاپسندی کی لہر نے معاشرتی ہم آہنگی کو متاثر کیا ہے اور ریاستی اداروں کی خاموشی نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
پاکستان میں مذہبی آزادی کی حالت گزشتہ کئی دہائیوں سے بگڑتی جا رہی ہے۔ 2023 میں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو توہین مذہب کے الزامات، ہدفی قتل، تشدد، جبری تبدیلی مذہب، جنسی تشدد اور عبادت گاہوں کی بے حرمتی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ خاص طور پر احمدی، شیعہ، مسیحی اور ہندو کمیونٹیز کو شدید امتیاز اور تشدد کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر، 2023 میں پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں مسیحی کمیونٹی کے خلاف ایک ہجوم نے تشدد کیا، جس میں گھروں اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا۔
یہ صورتحال ایک دن میں نہیں بدلی۔ اس کی جڑیں پاکستان کے قیام کے وقت سے جڑی ہوئی ہیں، لیکن اس میں سب سے اہم موڑ جنرل ضیاء الحق کے دور میں آیا۔ 1977 سے 1988 تک کے اس دور میں، ضیاء الحق نے اسلامائزیشن کی پالیسی اپنائی، جس کے تحت مذہبی قوانین کو سخت کیا گیا اور مذہبی جماعتوں کو ریاستی طاقت دی گئی۔ اس دور میں مدارس کا نیٹ ورک مضبوط ہوا اور وہ انتہاپسندانہ نظریات کی ترویج کا ذریعہ بنے۔ اس کے نتیجے میں، مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا اور معاشرتی عدم برداشت نے جنم لیا۔
موجودہ دور میں، مذہبی انتہاپسندی کی نئی لہر نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ 2024 اور 2025 میں، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہوا ہے، جس میں مقامی شدت پسند گروہ اور طالبان سے متاثرہ عناصر شامل ہیں۔ ان حملوں میں سیکڑوں افراد کی جانیں گئیں اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ ان حملوں میں فرقہ وارانہ تشدد اور مذہبی اقلیتوں کو ہدف بنانے کے واقعات بھی شامل ہیں۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتی گروپوں کو مختلف سطحوں پر امتیاز اور تشدد کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر، 2024 میں پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین میں احمدی کمیونٹی کے دو افراد کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا۔ یہ قتل ایک نوجوان کے ہاتھوں ہوا جو مذہبی انتہاپسندانہ نظریات سے متاثر تھا۔ اسی سال، آزاد کشمیر کے شہر کوٹلی میں احمدی عبادت گاہ پر حملہ کیا گیا، جس میں مسلح افراد نے فائرنگ کی اور عبادت گاہ کی عمارت کو نقصان پہنچایا۔
2025
میں بھی مذہبی اقلیتی گروپوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ اپریل میں کراچی میں احمدی کمیونٹی 2025 کے ایک رکن، لائق چیمہ، کو تحریک لبیک پاکستان (TLP) کے حامیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی۔ یہ واقعہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مذہبی اقلیتی گروپوں کے خلاف تشدد میں ریاستی اداروں کی خاموشی اور انتہاپسند گروپوں کی سرپرستی کا نتیجہ ہے۔
اس سب کے پیچھے کچھ اہم وجوہات ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے پہلی وجہ ریاستی سطح پر مذہبی انتہاپسندی کی سرپرستی ہے۔ ریاستی اداروں نے مذہبی جماعتوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، جس سے انتہاپسندانہ نظریات کو تقویت ملی۔ دوسری وجہ معیشت کی بدحالی اور تعلیم کی کمی ہے۔ پاکستان میں 25 ملین بچے اسکول نہیں جاتے، اور نوجوانوں میں بے روزگاری اور مایوسی انتہاپسند گروپوں کے لیے آسان ہدف بناتی ہے۔ تیسری وجہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی ترویج ہے، جو معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا ہے۔
اس صورت حال کا خاتمہ ممکن ہے، لیکن اس کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، ریاستی سطح پر مذہبی انتہاپسندی کے خلاف قانون سازی اور اس پر عمل درآمد ضروری ہے۔ دوسری بات، تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کو انتہاپسندانہ نظریات سے بچایا جا سکے۔ تیسری بات، میڈیا اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی نگرانی اور اس کی روک تھام ضروری ہے۔ چوتھی بات، مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں مذہبی آزادی اور عدم برداشت کا مسئلہ ایک سنگین چیلنج ہے، لیکن اگر ریاست، معاشرہ اور بین الاقوامی برادری مل کر کام کریں تو اس کا حل ممکن ہے۔ یہ ایک طویل اور مشکل سفر ہو گا، لیکن اگر ہم سب مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں تو پاکستان ایک بہتر اور پرامن معاشرہ بن سکتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں مذہبی آزادی کی حالت ہمیشہ پیچیدہ رہی ہے۔ جب پاکستان کا قیام ہوا، تو اس کی بنیاد ایک اسلامی ریاست کی طور پر رکھی گئی تھی، جس کا مقصد مسلمانوں کو ایک علیحدہ ریاست میں اپنی مذہبی آزادی کا تحفظ فراہم کرنا تھا۔ تاہم، اس ریاستی بنیاد پر سیاست میں مذہب کا دخل، مختلف جماعتوں کے سیاسی مقاصد، اور مذہبی جماعتوں کا اثر و رسوخ نے اس مسئلے کو پیچیدہ بنا دیا۔
ضیاء الحق کے دور میں اسلامی قوانین کی ترویج اور مدارس کے نیٹ ورک کا مضبوط ہونا ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس دوران فرقہ واریت کو بڑھاوا دیا گیا، جس کے نتیجے میں معاشرتی عدم برداشت اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا۔ ان واقعات نے پاکستان کے اندرونی امن و امان کو متاثر کیا اور اس کی بین الاقوامی سطح پر بھی ایک منفی تصویر پیش کی۔ آج تک، مذہبی اقلیتوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہے، جن میں توہین مذہب کے الزام میں جیل کی سزائیں، قتل اور مذہبی عبادت گاہوں پر حملے شامل ہیں۔
ان سب وجوہات کے علاوہ، مذہبی انتہاپسندی کی ترویج میں سوشل میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کا پھیلاؤ نہ صرف مذہبی اقلیتی گروپوں کے خلاف تشدد کو بڑھاتا ہے بلکہ یہ نوجوانوں کو انتہاپسندانہ نظریات کی طرف راغب بھی کرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں، معاشرتی ذمہ داری ہے کہ ہم نفرت انگیز تقریر اور مواد کے خلاف آواز بلند کریں اور اس کا تدارک کریں۔
پاکستان میں مذہبی آزادی اور عدم برداشت کے مسئلے کا حل ممکن ہے، مگر اس کے لیے ریاست، معاشرتی تنظیموں، میڈیا، اور عوام کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم سب اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور اس کے خلاف اقدامات کریں تو پاکستان ایک بہتر اور پرامن معاشرہ بن سکتا ہے۔ مذہبی آزادی کا تحفظ نہ صرف اقلیتی گروپوں کے حقوق کا معاملہ ہے بلکہ یہ پورے معاشرے کی اخلاقی اور ثقافتی ترقی کا ضامن ہے