عمرخان جوزوی
یہودکے لے پالک بچے نے اپنے کالے کرتوت،شیطانی کام اوراقدام سے دنیاکولرزادیاہے۔بارودکے کالے دھویں میں آسمان کی طرف اٹھنے والے معصوم وبے گناہ شہیدوں کے ٹکرے،فلسطین کی گلی محلوں اورکوچے کوچے میں مظلوم،بے بس اورمجبورماؤں،بہنوں،بیٹیوں اورپھول جیسے چھوٹے چھوٹے بچوں کی آہ وبکااورچیخ وپکار،سرزمین انبیاء پردہشت،خوف اورظلم کے اس قدرگہرے سائے۔۔واللہ ایسے مناظردنیانے پہلے کم بہت کم ہی دیکھے ہوں گے۔بارودکے کالے دھویں میں آسمان کی طرف اٹھنے والی شہیدوں کی روحیں اورہوامیں اڑتے پھول جیسے بچوں کے جسم کے ٹکرے۔۔کیساغمناک اوردردناک منظرہے۔۔یہودکااسرائیلی نام کاایک ناجائزبچہ اہل یہودکے مکمل سپورٹ اورتعاون سے ایک طویل عرصے سے ارض مقدس میں مظلوم اورنہتے فلسطینیوں کومولی گاجرکی طرح کاٹ رہاہے مگرافسوس اس ظلم اورستم کاامت مسلمہ پرکوئی اثرنہیں ہورہا۔امت مسلمہ کے حکمران ہیں یاعوام یہ سب ایک جیسے ہیں۔فلسطین جاکرمظلوم ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کے آگے ڈھال بنناتوبہت دور۔یہ یہاں ان کے لئے آوازتک نہیں اٹھاسکتے۔ماناکہ تلواراوربندوق اٹھاکرفلسطین جاناہمارے بس میں نہیں لیکن یہاں ہمارے بس اوروس میں جوہے کیاوہ بھی ہم نہیں کرسکتے۔؟فلسطین دورسہی پرفلسطین میں آگ اورخون کاباعث بننے والے ذرائع توہم سے دورنہیں۔کیااس ملک اوراسلامی دنیامیں ہرگلی اورمحلے کے اندردھڑادھڑبکنے والی یہودی اوراسرائیلی مصنوعات فلسطین میں مسلمانوں کے بہنے والے خون کااہم ذریعہ نہیں۔؟جب چیخ چیخ کرکہاجارہاہے کہ اسرائیلی ویہودی مصنوعات سے حاصل ہونے والی آمدن کابڑاحصہ مسلمانوں باالخصوص مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی پرصرف ہورہاہے تو پھرہم ان مصنوعات کے خریدنے سے ہاتھ پیچھے کیوں نہیں کھینچ رہے۔یہ یقین ہونے کے بعدبھی کہ یہودی واسرائیلی مصنوعات کے بدلے میں ہمارے دیئے گئے پیسوں کااکثرحصہ اسرائیل پہنچ رہاہے پھربھی ہم ان مصنوعات کے خریدنے اوراستعمال کرنے سے بازنہیں آرہے۔چنددن پہلے ایک دوست سے ملاقات ہوئی تومظلوم فلسطینیوں کے بارے میں اپنی بے حسی اوررویے پربہت افسوس ہوا۔اعزازاحمدسرحدی یہ ہمارے ایک اچھے دوست اورایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آبادمیں آئی ٹی کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ان سے وقتاًفوقتاًملاقات ہوتی رہتی ہے۔اس دن ان کے ہاتھ میں پیپسی کی بوتل دیکھ کرفوراًبارودکے کالے بادلوں میں فلسطینی شہداء کے اڑتے جسم اوراعضاء کاوہ دردناک منظریادآنے لگا۔اسی عالم میں ان سے پوچھا۔جناب کیوں مظلوم فلسطینیوں کاخون پی رہے ہیں۔وہ انجان بنتے ہوئے کہنے لگے۔جوزوی صاحب میں سمجھانہیں۔ہم نے کہافلسطینیوں کاخون پینے اورگوشت نوچنے والے واقعی نہیں سمجھتے۔نیتن یاہواوران کے سہولت کاروں اورپیروکاروں کی کوپری میں سمجھ بوجھ کاہلکاسابھی کوئی مادہ یاذرہ ہوتاتوکیاوہ ظلم،بربریت اوردرندگی میں اس قدرغرق ہوتے۔مظلوم فلسطینیوں پرسالوں سے شب خون مارنے والے نیتن یاہواوران کے سہولت کاروں کافرغون،ہلاکوخان اورچنگیزخان جیساانجام توانشاء اللہ اٹل،واضح،کنفرم اورسامنے ہے لیکن اس گناہ،جرم اورظلم پرکبوترکی طرح آنکھیں بندکرنے اورگونگے بن کرزبان سینے کی وجہ سے ہمارے ساتھ کیاہوگاہم سب کواس بارے میں ایک بارضرورسوچناچاہئیے۔ظالم کے ظلم اورقاتل کے قتل وغارت پرخاموشی کی چادراوڑھنایہ بھی ایک طرح کاظلم اورقتل وغارت میں برابرکا شریک ہوناہے۔اعزازسرحدی کی طرح ہمارے بہت سارے دوست،بھائی،قاری اورلوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسرائیلی اوریہودی مصنوعات کابائیکاٹ کہیں گپ ہے اوران مصنوعات کے بائیکاٹ سے کچھ نہیں ہونالیکن یہ نادان یہ بھول رہے ہیں کہ انہی مصنوعات کے سرپرکچھ نہیں بلکہ بہت کچھ ہورہاہے۔کہنے والے تویہاں تک کہتے ہیں کہ اسرائیلی اوریہودی مصنوعات سے حاصل ہونے والی ایک ایک پائی مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے استعمال ہورہی ہے۔اسرائیل فلسطین میں پچاس ہزارسے زائدمسلمانوں کاخون بہاچکاہے۔ظلم اوربربریت کاجوکھیل ارض مقدس پرکھیلاجارہاہے ایساظلم اورستم شائدکہ کہیں ہواہو۔ایک یہودی اورگورے کی ہلاکت پرآسمان سرپراٹھانے والے امن کے نام نہادعلمبردارامریکہ سمیت پوری یہودی لابی اس وقت اسرائیل کی پشت پرکھڑی ہے۔ایک مرغی کے ذبح ہونے پرامن کے علمبرداربننے والے باطل کے آلہ کاروپیروکارپچاس ہزارفلسطینیوں کی شہادت پرآج اس طرح خاموش ہیں کہ جیسے یہ اندھے،گونگے اوربہرے ہوں خداکرے کہ نیتن یاہوسمیت یہ سارے ظالم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اندھے،گونگے اوربہرے ہوجائیں۔ان ظالموں سے نہ پہلے خیرکی کوئی توقع تھی اورنہ اب ہے۔مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے یہ سب پہلے بھی ایک تھے اوریہ اب بھی ایک ہیں۔جتناظلم فلسطین میں ہواہے یاہورہاہے اتناظلم اگرکسی کافرملک میں ہوتاتویہ ظالم ظلم کرنے والے ملک کانام ونشان تک مٹادیتے لیکن یہ ظلم ایک اسلامی ملک اورمسلمانوں پرہورہاہے اس لئے انہیں یہ نظرنہیں آرہاہے۔مسلمانوں کے دشمنوں سے امیدیں وابستہ کرنے کے بجائے ہمیں اپنے طورپرایسے مظالم کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیواربنناچاہئیے۔یہ ضروری نہیں کہ ہرمسلمان کے ہاتھ نیتن یاہوجیسے ظالم کے گریبان تک پہنچیں،ہمارے افعال اورکردارسے بھی ایسوں کوتکلیف پہنچنی چاہئیے۔یہودی اوراسرائیلی مصنوعات کابائیکاٹ بھی اپنی جگہ ایک قسم کاجہادہے۔ہمیں اپنے طورپرہروہ کام کرناچاہئیے جس سے یہوداوراسلام کے دشمن کسی نہ کسی طرح کمزورہوں۔ امام احمد بن حنبل ؒ کے بارے میں کہیں پڑھاتھاکہ امام احمد بن حنبلؒ جب جیل میں تھے تو جب بھی جمعہ کی اذان سنتے تو وضو فرماتے اور جیل کے دروازے تک جاتے۔ جیل کا چوکیدار انہیں روکتا اور واپس بھیج دیتا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ جیل کا چوکیدار آپ کو نماز جمعہ کے لئے جانے نہیں دے گا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے اختیار میں اتنا ہی ہے کہ میں دروازے تک چلا جاؤں اور جو میرے اختیار میں ہے میں اس کا مکلف ہوں۔ لہٰذا میں ہر جمعہ کو ایسا کرتا رہوں گا۔ہم بھی اس کے مکلف ہیں جوہمارے ہاتھ میں ہے۔ہم فلسطین تونہیں جاسکتے لیکن یہاں پریہودی اوراسرائیلی مصنوعات کابائیکاٹ کرکے اوران کے مظالم پرصدائے احتجاج بلندکرکے ہم اپناحق اداکرسکتے ہیں۔یہودیوں کے ہاتھوں آگ وبارودمیں روزانہ جلنے،مرنے اورتڑپنے والے اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے لئے اگرہم یہ بھی نہیں کرسکتے توپھرہمیں چلوبھرپانی میں ڈوب کرمرناچاہئیے۔