ڈاکٹر جزبیہ شیریں
موجودہ عالمی منظرنامے میں، امریکہ اور چین کے درمیان معاشی تعلقات میں تناؤ ایک اہم موضوع بن چکا ہے۔ حالیہ برسوں میں، امریکہ کی معاشی طاقت میں کمی اور چین کی تیز رفتار ترقی نے عالمی معیشت کو نئی شکل دی ہے۔
امریکہ، جو کبھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت سمجھا جاتا تھا، اب مختلف معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ 2025 میں، امریکہ کا قرض جی ڈی پی کے 130 فیصد تک پہنچ چکا ہے، جو کہ تاریخی اعتبار سے بلند ترین سطح ہے۔ اس بڑھتے ہوئے قرض نے حکومتی اخراجات اور سماجی پروگراموں پر دباؤ ڈالا ہے، جس سے معیشت کی ترقی کی رفتار سست ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، امریکی حکومت کو اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض حاصل کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے، جس سے اس کی معاشی استحکام میں مزید کمی واقع ہو رہی ہے۔
مزید برآں، امریکہ کی تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ چین کے ساتھ تجارتی جنگ کے نتیجے میں، امریکی مصنوعات پر عائد ٹیرف میں اضافہ ہوا ہے، جس سے صارفین کی قیمتوں میں اضافہ اور درآمدات کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس تجارتی کشیدگی نے عالمی منڈیوں میں غیر یقینی صورتحال پیدا کی ہے، جس سے سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔ امریکہ کی کمپنیوں کو چین میں کاروباری مشکلات کا سامنا ہے، اور اس کا اثر امریکہ کی مجموعی معیشت پر بھی پڑ رہا ہے۔
دوسری جانب، چین نے گذشتہ دو دہائیوں میں تیز رفتار اقتصادی ترقی کی ہے۔ 2025 میں، چین کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکی ہے، جس کا جی ڈی پی تقریباً 18 ٹریلین ڈالر ہے۔ چین نے اپنی صنعتی بنیاد کو مستحکم کرتے ہوئے ٹیکنالوجی اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ چین کی عالمی معیشت میں شراکت کا حصہ روز بروز بڑھ رہا ہے اور یہ ترقی صرف چین تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس کے اثرات دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔
چین کے زرمبادلہ کے ذخائر دنیا میں سب سے زیادہ ہیں، جو تقریباً 3 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ اس مالی استحکام نے چین کو عالمی مالیاتی نظام میں ایک کلیدی کھلاڑی بنا دیا ہے۔ چین کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) نے عالمی سطح پر انفراسٹرکچر کی ترقی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دیا ہے، جس سے اس کی عالمی اقتصادی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ چین نے نہ صرف اپنی معیشت کو مستحکم کیا ہے بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے اپنی موجودگی کو مضبوط کیا ہے۔
امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ نے عالمی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی مصنوعات پر ٹیرف میں اضافہ کیا ہے، جس سے عالمی تجارتی حجم میں کمی اور قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کشیدگی کے نتیجے میں، تیل کی قیمتوں میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے، کیونکہ سرمایہ کاروں کی تشویش تیل کی طلب میں ممکنہ کمی کی وجہ سے ہے۔ چین کی جانب سے امریکی مصنوعات پر عائد ٹیرف نے امریکی صنعتوں پر بھی اثر ڈالا ہے، جس سے کئی امریکی کمپنیوں کو اپنی پیداواری لائنوں میں تبدیلی کرنی پڑی ہے۔
چین نے امریکی ٹیرف کے جواب میں اپنی مصنوعات پر ٹیرف میں اضافہ کیا ہے اور دیگر جوابی اقدامات اٹھائے ہیں۔ چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ چین بلیک میل نہیں ہوگا اور تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ چین کا یہ موقف واضح کرتا ہے کہ وہ امریکی دباؤ کو قبول نہیں کرے گا اور اپنے اقتصادی مفادات کا تحفظ کرے گا۔ چین کا یہ عزم عالمی سطح پر اس کے اثر و رسوخ کو مزید بڑھا رہا ہے۔
اس تجارتی کشیدگی کے دوران، پاکستان کے لیے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کے باعث، پاکستانی ٹیکسٹائل سیکٹر کو چین کی جگہ امریکی مارکیٹ میں حصہ حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ پاکستان نے اپنی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ کیا ہے اور عالمی سطح پر چین کی جگہ نئے تجارتی راستوں کی تلاش کی ہے۔ اس نے چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کیا ہے اور امریکہ کے ساتھ نئے تجارتی مواقع پیدا کیے ہیں۔
امریکہ اور چین کے معاشی تعلقات کی تاریخ پیچیدہ رہی ہے۔ 1970 کی دہائی میں، چین نے اقتصادی اصلاحات کا آغاز کیا اور عالمی معیشت میں انضمام کی کوششیں تیز کیں۔ اس کے نتیجے میں، چین کی معیشت میں تیز رفتار ترقی ہوئی اور وہ دنیا کی فیکٹری کے طور پر ابھرا۔ امریکہ نے چین کی ترقی کو اقتصادی مواقع کے طور پر دیکھا، لیکن حالیہ برسوں میں تجارتی خسارے اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے باعث کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ چین کے ساتھ امریکہ کا تجارتی خسارہ اب تک بڑھتا جا رہا ہے اور اس صورتحال کو نظرانداز کرنا امریکہ کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
امریکہ اور چین کی معاشی صورتحال میں تبدیلیاں عالمی معیشت کے لیے اہم ہیں۔ امریکہ کو اپنے بڑھتے ہوئے قرض اور تجارتی خسارے پر قابو پانے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے، جبکہ چین کو اپنی ترقی کو پائیدار بنانے اور عالمی ذمہ داریوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور بات چیت عالمی استحکام اور ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ امریکہ کے لیے وقت آ چکا ہے کہ وہ اپنی معیشت کی ساخت کو دوبارہ تشکیل دے اور چین کے ساتھ ایک توازن قائم کرے، تاکہ عالمی اقتصادی استحکام کے راستے پر دونوں ممالک مشترکہ طور پر چل سکیں۔
یہ حقیقت ہے کہ چین کی عالمی سطح پر معاشی ترقی اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے قرض کی صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دنیا کا اقتصادی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ امریکہ کے لیے اب یہ ضروری ہو چکا ہے کہ وہ اپنے مالیاتی بحران پر قابو پائے اور عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کرے۔ چین نے اپنے اقتصادی مفادات کو اس طرح مضبوط کیا ہے کہ وہ عالمی معیشت میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا رہا ہے۔ امریکیوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ وقت بدل رہا ہے اور چین کی طاقت کا تسلیم کرنا ان کے اپنے مفاد میں ہے۔
امریکہ اور چین کے تعلقات کی کشیدگی کا اثر عالمی سطح پر محسوس ہو رہا ہے، اور اس بات کا امکان ہے کہ دونوں ممالک جلد ہی اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر آئیں گے۔ عالمی معیشت کے استحکام کے لیے امریکہ اور چین کا عالمی سطح پر تعاون ضروری ہے . اس صورت میں ہی دنیا ایک نئے اور مستحکم اقتصادی دور میں قدم رکھ سکے گ