Skip to content

مانسہرہ میں قتل: عزت کے جھوٹے دعوے    

شیئر

شیئر

ڈاکٹر جزبیہ شیریں 


پاکستان میں عزت کے نام پر قتل کا مسئلہ ایک سنگین اور انتہائی دردناک حقیقت بن چکا ہے، جو کئی دہائیوں سے مختلف مقامات پر وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف پاکستان کی معاشرتی ساخت کو متاثر کرتا ہے بلکہ اسلامی معاشرتی اصولوں اور حقوق انسانی کے حوالے سے بھی گہرے سوالات پیدا کرتا ہے۔ حالیہ دنوں میں مانسہرہ میں پیش آنے والے ایک ایسے ہی واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جہاں ایک عورت اور اس کی 16 ماہ کی بیٹی کو عزت کے نام پر اپنے رشتہ داروں نے قتل کر دیا۔ اس افسوسناک واقعہ نے اس بات کو دوبارہ اجاگر کیا ہے کہ پاکستان میں عزت کے نام پر قتل کی روایت ابھی تک زندہ ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

یہ واقعہ مانسہرہ کے ایک دیہی علاقے میں پیش آیا، جہاں روایات اور ثقافتی اقدار کی مضبوطی نے عزت کے نام پر قتل کو معمول بنا دیا ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں ایسے واقعات عام ہیں، اور ان میں سے اکثر میں متاثرہ خواتین کو سماجی دباؤ کی وجہ سے ان کے حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ مانسہرہ کا یہ واقعہ بھی ایک ایسی ہی دردناک حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، جہاں عورت کی آزادی اور خودمختاری کو کم تر سمجھا جاتا ہے، اور اس کے فیصلے خاندان کے مردوں کے تابع ہوتے ہیں۔

اس واقعے کے بعد پولیس نے کارروائی شروع کی اور کچھ مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا۔ تاہم، ابتدائی اطلاعات کے مطابق پولیس کارروائی میں سست روی دیکھی گئی، اور ملزمان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی بجائے کچھ مقامی سطح پر سمجھوتے کرنے کی کوششیں کی گئیں، جو کہ اس قسم کے معاملات میں معمول بن چکا ہے۔ پولیس کی اس نوعیت کی سست روی اور کمزوری کے باعث متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا، جو کہ پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں ایک عام رجحان ہے۔پاکستان میں عزت کے نام پر قتل کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ ایک ایسی مسئلہ ہے جو خاص طور پر دیہی علاقوں میں نظر آتا ہے، جہاں روایات اور سماجی دباؤ کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔ عزت کے نام پر قتل کی اصطلاح کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جب کسی خاندان کا کوئی فرد—چاہے وہ مرد ہو یا عورت—معاشرتی یا اخلاقی طور پر کسی طے شدہ حدود سے تجاوز کرتا ہے، تو اس کو سزا دینا ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ خاندان کی عزت بچائی جا سکے۔ یہ سزا عام طور پر عورتوں کو دی جاتی ہے، کیونکہ اسلامی معاشرتی نظام میں عورت کو عموماً خاندان کی عزت کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان میں اس مسئلے کی جڑیں ایک پیچیدہ معاشرتی نظام میں گہری ہیں، جہاں مردوں کا غلبہ ہے اور عورتوں کو کمزور اور تابع سمجھا جاتا ہے۔ اس کی جڑیں قدیم روایات اور ثقافت میں پیوست ہیں، جہاں عزت کی تعریف مردوں کی حکمرانی، عورتوں کی تابعداری اور اجتماعی سوچ پر مبنی ہے۔ دراصل، اس معاشرتی نظام میں عورت کی ذاتی آزادی یا حقوق کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے اگر کوئی عورت اپنے شوہر یا خاندان کی مرضی کے خلاف کچھ کرتی ہے، تو اسے ذاتی حیثیت میں نہ صرف بدنام کیا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات جان سے بھی مارا جاتا ہے۔

خواتین کو جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے فیصلے یا ذاتی زندگی کے امور خاندان کے افراد یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے قبول نہیں کیے جا رہے، تو اس کا نتیجہ اکثر ایسی گھناؤنی کارروائیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس طرح کے واقعات میں قتل عام طور پر عورتوں کو سزا دینے کا سب سے شدت پسند طریقہ ہوتا ہے، جہاں ان کی آزادی کو قتل کرنے کے ذریعے سلب کیا جاتا ہے۔ ….. پاکستان کے مختلف علاقوں میں عزت کے نام پر قتل کے کئی اور مثالیں بھی موجود ہیں۔ 2016 میں قندیل بلوچ کا قتل اس کا واضح مثال ہے، جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کیا۔ قندیل بلوچ کو اس کے بھائی نے اس وجہ سے قتل کر دیا تھا کہ اس نے اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے جینا شروع کیا تھا اور میڈیا میں کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ قندیل بلوچ کا قتل بھی ایک "عزت کے مسئلے” کے طور پر پیش کیا گیا تھا، اور اس کے قاتل نے اس قتل کو اپنی بہن کی غیر مناسب حرکتوں کی سزا قرار دیا تھا۔

اسی طرح، 2014 میں کیسریاں، پنجاب میں ایک اور ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا، جہاں ایک نوجوان لڑکی کو اس کے والد نے اس بات پر قتل کر دیا تھا کہ وہ اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی، جو کہ خاندان کی عزت کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ اس نوعیت کے واقعات پاکستان میں معمول بن چکے ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے کئی قوانین موجود ہیں، مگر ان پر عمل درآمد ابھی تک مؤثر نہیں ہو سکا۔ مانسہرہ کا واقعہ اس مسئلے کا ایک اور تکلیف دہ اظہار ہے، جہاں ایک عورت اور اس کی 16 ماہ کی بیٹی کو عزت کے نام پر قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے کی شدت نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اور اس نے سوالات اٹھائے ہیں کہ پاکستان میں خواتین کو ان کے بنیادی حقوق کیوں نہیں دیے جا رہے؟ اگرچہ پاکستان میں عزت کے نام پر قتل کے خلاف قانون موجود ہے، لیکن اس پر عملدرآمد کی کمی اور سماجی سطح پر اس مسئلے کی سنگینی کو نظرانداز کرنا اس کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سبب بن رہا ہے۔

پاکستان میں 2004 میں قومی اسمبلی نے عزت کے نام پر قتل کے خلاف قانون منظور کیا تھا جس کے تحت ملزمان کے لیے سزائیں مقرر کی گئی تھیں، اور اس جرم کو کسی بھی سطح پر برداشت نہ کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ تاہم، اس قانون کا نفاذ ابھی تک مکمل طور پر نہیں ہو سکا۔ اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں خواتین کے خلاف زیادتی کے معاملات میں پولیس اور عدلیہ کی سست روی اور معاشرتی قبولیت ہے۔ عموماً خواتین کے خلاف ایسے واقعات کے بعد مقامی سطح پر غیر رسمی سمجھوتے کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے متاثرہ خاندانوں کو انصاف نہیں مل پاتا۔

یہ تمام واقعات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ عزت کے نام پر قتل کا مسئلہ پاکستان کی ثقافت اور سماجی ڈھانچے کا ایک گہرا حصہ بن چکا ہے۔ اگرچہ حکومت نے عزت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی کی ہے، لیکن ان قوانین پر عمل درآمد کا فقدان اور اس جرم کو مقامی سطح پر نظر انداز کرنے کی عادت اس مسئلے کو مزید بڑھا رہی ہے۔

کیا اس واقعہ کے بعد کچھ بدلے گا؟ یہ سوال بڑا اہم ہے۔ اگرچہ حکومت اور عدلیہ نے عزت کے نام پر قتل کے خلاف قوانین بنائے ہیں، مگر ان قوانین کا عملی نفاذ ابھی تک ایک بڑا چیلنج ہے۔ سوشل میڈیا پر اس واقعہ پر عوامی ردعمل اور میڈیا کی کوریج یہ امید دلاتی ہے کہ شاید اب اس مسئلے پر سنجیدگی سے کام کیا جائے گا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب تک اس معاملے کو مذہبی، ثقافتی اور قانونی سطح پر مضبوطی سے نہ سمجھا جائے، اس میں تبدیلی لانا مشکل ہوگا۔

پاکستان میں خواتین کی حالت کے حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس قتل کے بعد ہمیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ معاشرتی روایات کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے۔ خواتین کو وہ حقوق دیے جائیں جو قرآن و سنت کے مطابق ان کا حق ہیں۔ خواتین کے خلاف تشدد اور استحصال کی روک تھام کے لیے مضبوط قوانین کی ضرورت ہے، جن پر عملدرآمد بھی یقینی بنایا جائے۔

عورتوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان میں حکومت نے کچھ اقدامات کیے ہیں، جیسے کہ خواتین کے لیے خصوصی عدالتیں اور پناہ گاہیں قائم کرنا، لیکن ان اقدامات کو مزید فعال اور مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس مسئلے کو گہرائی سے دیکھیں تو ہمیں سمجھ میں آتا ہے کہ عزت کے نام پر قتل کی روک تھام کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جو عوامی آگاہی، قانون کی مضبوطی اور سماجی رویوں میں تبدیلی کے ذریعے ممکن ہو۔

مانسہرہ کا یہ واقعہ صرف ایک فرد یا خاندان کا المیہ نہیں ہے، بلکہ یہ پورے معاشرے کی حالت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کے لیے ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ معاشرتی اور ثقافتی تبدیلیاں راتوں رات نہیں آتی۔ اس کے لیے پورے معاشرے کا شعور بیدار کرنا ضروری ہے، اور یہ کام حکومت، میڈیا، تعلیمی اداروں اور عوامی فورمز کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔

عزت کے نام پر قتل کی روک تھام کے لیے ایک اور ضروری اقدام یہ ہے کہ معاشرتی اور ثقافتی تبدیلیاں لائی جائیں۔ خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دینی ہوگی اور ان کے لیے ایک محفوظ اور آزاد ماحول فراہم کرنا ہوگا، تاکہ وہ اپنے فیصلے اپنی مرضی سے لے سکیں۔ یہ کام حکومت، تعلیمی اداروں، میڈیا اور سماجی تنظیموں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔

اگر ہم واقعی اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں تو ہمیں عورتوں کے حقوق کے بارے میں ایک جامع اور عملی نقطہ نظر اپنانا ہوگا، تاکہ عزت کے نام پر قتل جیسے واقعات کا خاتمہ ہو سکے اور خواتین کو ان کے بنیادی حقوق مل سکیں۔ اس کے لیے معاشرتی سطح پر بھی سوچ و فکر کی تبدیلی کی ضرورت ہے، تاکہ آئندہ اس طرح کے افسوسناک واقعات کی روک تھام ہو سکے

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں