Skip to content

23 مارچ 1940 ایک خواب کی حقیقت

شیئر

شیئر

محمد احسن

تحریک پاکستان کی تاریخ میں 23 مارچ 1940 کا دن برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک تاریخ ساز لمحہ تھا جب برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی الگ شناخت خود مختاری اور ایک علیحدہ ریاست کے قیام کا باضابطہ اعلان کیا مگر یہ سفر کسی ایک دن کی کاوش نہیں تھا بلکہ اس کے پس پشت کئی دہائیوں کی جدوجہد اور قربانیاں کارفرما تھیں اس قرارداد نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی سمت دی بلکہ تاریخ کے دھارے کو بھی ہمیشہ کے لیے بدل دیا برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے ابتدائی مرحلے میں 1936-1937 میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے یہ انتخابات برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ جو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت بننا چاہتی تھی ان انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ 1937 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی ناکامی سے مسلمانوں کے حوصلے ماند پڑ گئے آل انڈیا نیشنل کانگریس کو 11 میں سے 8 صوبوں میں حکومت بنانے کا موقع ملا “کانگریس جو پہلی بار اقتدار کے نشے میں سرشار تھی“ نے ایسے اقدامات کیے جو مسلمانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوئے۔” کانگریس نے ہندی کو ہندوستان کی قومی زبان قرار دے دیا۔ گائے کی قربانی اور گائے کا گوشت کھانے پر پابندی عائد کر دی گئی اور سب سے اہم انہوں نے کانگریس کے ترنگے کو ہی متحدہ ہندوستان کا قومی پرچم قرار دے دیا اردو، جو برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیبی اور علمی شناخت تھی، دانستہ طور پر پس پشت ڈال دی گئی اور سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کا تناسب کم کیا گیا اور مسلمانوں کو اعلی عہدوں سے دور رکھنے کی پالیسی اپنائی یہ تمام عوامل مسلمانوں کے لیے ایک واضح پیغام تھے کہ اگر وہ اپنی جداگانہ شناخت برقرار رکھنا چاہتے ہیں، تو انہیں ایک خودمختار ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی ان انتخابات کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے محسوس کیا کہ وہ ہندو اکثریتی تسلط میں اپنی مذہبی ثقافتی اور سیاسی آزادی برقرار نہیں رکھ سکتے 1939 میں دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر کانگریس کی شرائط مسترد ہوئیں تو اس نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ اس کے دورِ حکومت میں مسلمانوں سے ناانصافی ہوئی، جس سے ان کا اعتماد مسلم لیگ پر بحال ہوا۔ نتیجتاً، مسلم لیگ کے اجلاس میں ایک لاکھ مسلمانوں کی شرکت نے مضبوط قیادت کی اہمیت واضح کر دی چنانچہ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں وہ قرارداد پیش کی گئی جسے بعد میں قرارداد پاکستان کہا گیا اس تاریخی اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی بصیرت افروز تقریر میں برصغیر کے مسلمانوں کی علیحدہ شناخت اور جداگانہ قومیت پر زور دیتے ہوئے کہا ” ہندو اور مسلمان محض دو مذاہب کے پیروکار نہیں بلکہ دو علیحدہ قومیں ہیں جن کا طرز زندگی ثقافت اور رسم و رواج تاریخ اور اقتدار ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے ان کا آپس میں مل کر ایک متحدہ قوم کی حیثیت سے زندگی گزارنا ناممکن ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ برصغیر میں امن قائم رہے تو ضروری ہے کہ مسلمانوں کو علیحدہ مملکت دی جائے جہاں وہ اپنی زندگی اپنے عقائد اور روایات کے مطابق زندگی گزار سکیں "
قائد اعظم کے ان الفاظ نے مسلمانوں کی منزل کو واضح کر دیا اور انہیں اپنی جدوجہد کو ایک نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھانے کا حوصلہ دیا اس قرارداد کو مولوی اے کے فضل الحق جو اس وقت بنگال کے وزیر اعلی تھے انہوں نے 23 مارچ 1940 کو یہ تاریخی قرارداد پیش کی قرارداد میں کہا گیا” کوئی بھی آئندہ آئینی منصوبہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا جب تک کہ انہیں جغرافیائی طور پر متصل علاقوں میں آزاد خود مختیار ریاستوں کی صورت میں تسلیم نہ کیا جائے جہاں وہ اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں” یہ قرارداد 24 مارچ 1940 کو اتفاقِ رائے سے منظور کی گئی۔” یہ محض ایک مطالبہ نہیں بلکہ ایک علیحدہ ریاست کے قیام کی جانب پہلا عملی قدم تھا۔” قرارداد کی منظوری کے بعد مسلمانوں کی تحریک ایک ناقابل واپسی مرحلے میں داخل ہو گئی ہندو قیادت نے طنزیہ طور پر "قراردادِ لاہور” کو "قراردادِ پاکستان” کا نام دیا، جو بعد میں حقیقت بن گئی۔” برصغیر کے مسلمان قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں رواں دواں منزل مقصود کی طرف بڑھتے رہے انہیں یقینِ واثق تھا کہ منزل دور نہیں بالآخر 1945-1946 میں برصغیر میں ہونے والے انتخابات قیامِ پاکستان کی بنیاد ثابت ہوئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے ووٹ کی طاقت سے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہونے کا ثبوت دیا، جس نے تحریک آزادی کو فیصلہ کن موڑ تک پہنچایا یوں محض سات سال کے قلیل عرصے میں برصغیر کے مسلمانوں کا خواب حقیقت میں بدل گیا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر 14 اگست 1947 کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان وجود میں آئی
23 مارچ 1940 کا دن ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جب کوئی قوم اپنی منزل متعین کر لے اور اخلاص و قربانی کے جذبے سے سرشار ہو کر آگے بڑھے تو کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں اسی اتحاد، عزم اور جدوجہد کی ضرورت ہے جو ہمارے آباؤ اجداد نے قیامِ پاکستان کے وقت دکھائی تھی۔ اگر ہم اپنی تاریخ سے سبق سیکھیں اور اپنے قومی تشخص کو مضبوط کریں، تو پاکستان کو ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن کرنا ہرگز ناممکن نہیں۔
بحیثیت طالبعلم، ڈیپارٹمنٹ آف پاکستان اسٹڈیز، ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ، میں اپنے قارئین سے یہ کہنا چاہوں گا تاریخ صرف ماضی کی یاد نہیں، بلکہ مستقبل کا چراغ بھی ہے جو ہمیں اپنی جڑوں سے جوڑے رکھتا ہے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تاریخ کو پڑھیں سمجھیں اور اپنی نسلوں کو اس سے آگاہ کریں تاکہ وہ اپنی شناخت ورثے اور قومی تشخص کو محفوظ رکھ سکیں۔ ہمیں اس تاریخ کو محض الفاظ تک محدود نہیں کرنا بلکہ اسے اپنی سوچ عمل اور کردار کا حصہ بنانا ہے۔ اپنے اسلاف کی قربانیوں کا حقیقی حق تبھی ادا ہوگا جب ہم ان کے خواب کو اپنی نسلوں تک منتقل کریں اور اس وطن کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت اسی جذبے سے کریں جس جذبے سے اسے حاصل کیا گیا تھا۔ یہی شعور ہماری پہچان ہے، یہی عزم ہماری طاقت ہے، اور یہی تاریخ ہماری راہ کی روشنی ہے ۔
یا اللہ، پاکستان کو ہمیشہ قائم و دائم رکھ، اسے ترقی، خوشحالی اور امن کا گہوارہ بنا۔ آمین۔

پاکستان زندہ باد !

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں