انجینئر افتخار چودھری
زندگی کیا ہے، اک سراب کی منزل،
ہر نفس میں ہے امتحان کی منزل!
یکم نومبر 1955، وہ جاڑا بھری رات، جب پہاڑوں میں گھرے ہری پور کے ایک گمنام سے گاؤں، نلہ میں ایک چراغ روشن ہوا۔ وہ چراغ، جس کی روشنی وقت کی تیز آندھیوں میں بھی مدھم نہ ہوئی۔ وہ روشنی، جسے غربت کی سیاہ راتیں ماند نہ کر سکیں۔ وہ روشنی، جو حق کے ہر معرکے میں جُھک کر نہیں، سینہ تان کر کھڑی رہی۔
میرا گاؤں نلہ، جہاں صبح کی ہوا میں تازگی کی چاشنی اور شام کی فضا میں ایک عجب سکون کی چادر تنی رہتی تھی، میرا پہلا مسکن بنا۔ ماں کی لوریاں، باپ کی سخت گیر محبت، اور قدرت کے حسین نظارے، ان سب نے میری ذات میں وہ عزم بھردیا، جو پہاڑوں کی سختی اور دریاؤں کی روانی سے کہیں زیادہ مستقل تھا۔
میرے والد، جو حوصلے اور غیرت کی چلتی پھرتی تصویر تھے، مجھے گجرانوالہ لے گئے۔ لمیاںں والا ٹال اور پھر باغبان پورہ جدید، جہاں میں نے اپنا لڑکپن گزارا، وہی زمین، جہاں میں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو پہلی بار قریب سے دیکھا۔ غربت کی ٹھوکریں، عزت کی چادر میں لپیٹ کر سہیں، مگر کبھی ہاتھ نہ پھیلایا، کبھی دامن نہ جھکایا۔
تعلیم: چراغ سے چراغ جلتے رہے
ایم سی پرائمری سکول نمبر پانچ سے پانچویں کی منزل طے کی، پھر عطا محمد اسلامیہ سکول میں قدم رکھا۔ علم کا ذوق ورثے میں ملا تھا، اور والد کی نصیحت ہر لمحہ دل پر نقش رہی کہ "بیٹا! دنیا میں کوئی چیز تمہیں بڑا بنا سکتی ہے، تو وہ علم اور جرات ہے۔” غربت آڑے آئی، وسائل کمزور تھے، مگر خواب کی پرواز آسمانوں کو چُھونے پر بضد تھی۔
گوجرانوالہ کی چالیس سالہ زندگی ایک داستان ہے، محبتوں کی، عزتوں کی، جدوجہد کی۔ لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں، گلیاں آج بھی میرے بزرگوں کی پہچان سے منسوب ہیں۔ "چوہدری برخوردار والی گلی” آج بھی باپ کے کردار کی گواہ ہے اور "چوہدری امتیاز والی گلی” اسی وراثت کی ایک اور کڑی ہے۔ انسان مر جاتا ہے، مگر اس کے اعمال کی مہک کبھی ختم نہیں ہوتی۔
خاندانی وراثت: بہادری و حق گوئی
میرے دادا، جو پولیس میں ایک ایماندار سپاہی تھے، جب قاتل کو گرفتار کیا تو حکومت نے انعام میں دس روپے دینا چاہے۔ مگر وہ مسکرائے اور بولے، "میں تنخواہ لیتا ہوں، کسی انعام کا محتاج نہیں!” یہ غیرت، یہ بے نیازی، میرے لہو میں دوڑنے لگی۔ یہ وہ اصول تھا، جس پر ہماری نسلیں پروان چڑھیں۔
بہادری کا امتحان: کارخانے کی بازیابی
1975 میں، جب ہم سندھ سے لوٹے، تو دیکھا کہ ہمارے کارخانے پر ایک مشہور بدمعاش "ماجو” نے قبضہ کر لیا ہے۔ پورا محلہ کانپ رہا تھا، لوگ آہستہ آواز میں سرگوشیاں کرتے، "چوہدری صاحب! اس سے مت الجھیے، یہ خون بہانے سے گریز نہیں کرتا۔” مگر باپ وہ تھا جو کسی بدمعاش کے سامنے جھکنا نہیں جانتا تھا۔ بندوق اٹھائی، ماجو کے ماتھے پر تان دی، اور ایک ہی جملہ کافی تھا، "یہاں بدمعاشی نہیں چلے گی!” پندرہ دن کے اندر ماجو کو راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔ یہی بے خوفی، یہی عزیمت، میرے مزاج کا حصہ بن گئی۔
وطن سے محبت: خاک میں مل کر بھی چمکنے کی آرزو
1971 کی جنگ کا وہ دن، جب میں نے ایک رضاکار کے طور پر فوجی وردی خریدی، شاید وہ لمحہ میری زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ تھا۔ میرے بھائی فوج میں، میرے تایا پولیس میں، میرے سسر فوج میں، میرے دادا بھی محافظِ امن! تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ میرا دل دفاعِ وطن کی تڑپ سے خالی رہتا؟
زندگی میں جب بھی آزمائش کا وقت آیا، میں نے پیچھے ہٹنے کے بجائے اپنے قدم جمائے۔ "بنگلہ دیش نامنظور تحریک”، "تحریک ختم نبوت”، "نظام مصطفیٰ تحریک”، ہر جگہ جہاں حق کے چراغ کو ہوا کے جھونکے بجھانے کی کوشش کرتے، میں دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا۔ جدہ میں جنرل دورانی کے ہاتھوں جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، مگر حق کے لیے سر جھکانا قبول نہ کیا۔
سیاست کے نشیب و فراز
نواز شریف نے ایک دن فون پر کہا:
"افتخار صاحب! آپ نے میرے لیے بڑی قربانی دی۔”
میں نے کہا:
"یہ قربانی کسی شخصیت کے لیے نہیں، یہ میرے ضمیر کا فیصلہ تھا!”
یہ ضمیر کا فیصلہ تھا کہ میں ہمیشہ حق کی بات کروں، چاہے سامنے کوئی بھی ہو۔کچھ مجبوریوں کی وجہ سے میں نے یہ ٹکٹ نہیں لئے
پنڈی کی سیاست اور بہادری کا تسلسل
22 سال راولپنڈی میں گزارے، اور یہاں کے ہر فرد کو معلوم ہے کہ میں نے کبھی ظلم کا ساتھ نہیں دیا، مگر جو بدمعاشی پر اترا، اسے اس کی زبان میں جواب ضرور دیا! کھوکروں سے بھی ٹکرایا، کسی کے سامنے جھکنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔
عرب کلچر اور گجر روایات
عرب ثقافت کے تین اصول تھے:
- سخاوت
- گھڑ سواری
- وسیع دسترخوان
یہ تینوں خوبیاں الحمدللہ ہمارے گُجروں میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ہمارے دروازے ہر وقت مہمان کے لیے کھلے رہے، ہمارے ہاتھ ہمیشہ دینے میں آگے رہے۔
زمانہ طالبعلمی اور دلیری
گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی، لاہور میں داخلہ لیا، پہلے ہی سال کلاس ریپریزنٹو منتخب ہوا، دوسرے سال قیادت سنبھالی، تیسرے سال انتخابات میں بھٹو کے کارندوں کا سامنا کیا۔ اس دور میں دلیری ہی سب کچھ تھی، اور اللہ نے ہمیشہ سرخرو کیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام بھی ایک بڑا قدم تھا، اور اسی راہ پر آگے بڑھتے ہوئے غلام دستگیر خان کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
آج کا وقت: اتحاد کا متقاضی
ملک پر جو گھڑی آن پہنچی ہے، وہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں۔ دشمن ہمیں بانٹنے پر تلا ہے، اور اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں کو نہ سمجھا تو بلوچستان بھی ہم سے چھین لیا جائے گا۔جدہ کی زندگی کے بارے میں میں کچھ نہیں لکھوں گا کیونکہ اس کی گواہی دینے والے وہاں کے میرے دوست ہیں حلقہ یاران وطن کے زیر اہتمام ہم نے پاکستان کے لیے بڑے نامور کام کے اور لسانیت پرست سمپلیوں کو کچل کے رکھ دیا
آج وقت ہے کہ فوج اور عوام ایک پیج پر آئیں، ضد اور انا کو چھوڑ کر ملک بچائیں! ہم وہ ہیں، جو خاک میں مل کر بھی چمکنے کی آرزو رکھتے ہیں، ہم وہ ہیں، جو کسی طوفان سے نہیں گھبراتے۔
سر جھکانے کا حوصلہ نہیں ہم میں،
ہم وہ چراغ ہیں جو آندھیوں میں جلتے ہیں!