Skip to content

ایلون مسک کا عروج اور غریب کا زوال

شیئر

شیئر

اس حقیقت کو سب جانتے  ہیں کہ دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے امریکی صدارتی انتخابات 2024ء میں کتنا اہم کردار ادا کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں 27 کروڑ ڈالرز خرچ کیے۔ ایلون مسک کی حمایت کی وجہ سے ٹرمپ کی شخصیت ٹیکنالوجی کے حامی کے طور پر سامنے آئی جبکہ وہ صرف محنت کش طبقے اور کم تعلیم یافتہ امریکیوں کے لیڈر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات جیتنے کے بعد ایلون مسک کو بجٹ میں کٹاؤ کا اہم کام سونپ دیا اور اب ٹرمپ کے دفتر سنبھالنے کے بعد ایلون مسک کے عہدے کی تفصیلات اور ذمہ داریاں واضح ہوں گی۔ چونکہ اس دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں ہوتا تو یہ امکان ضرور ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو جلد ہی انتخابی حمایت کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔

ایلون مسک کا عروج کسی حد تک پریشانی ضرور لارہا ہے۔ لامحدود دولت تک ان کی رسائی نے یہ ممکن بنایا ہے کہ وہ جہاں اور جیسے چاہیں، کسی بھی سیاسی مقصد کے تحت فنڈنگ کرسکتے ہیں اور پھر یوں سب کچھ اس کے تابع ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دروازہ کھول دیا ہے اور دنیا کے امیر ترین لوگ اب پردے کے پیچھے نہیں رہے۔ پہلے وہ سیاست کو خفیہ طور پر کنٹرول کرتے تھے، مگر اب کھلم کھلا سامنے آچکے ہیں۔ نہ کوئی شرم، نہ کوئی پردہ، اب وہ سیاست پر براہ راست قابض ہیں۔ اور جو کچھ آپ کے پاس ہے، وہ اس پر بھی ہاتھ ڈالنے والے ہیں۔

ایلون مسک کے پاس چار سو ارب ڈالر سے زیادہ کی دولت ہے، مگر اب وہ ایک اضافی حکومتی ایجنسی DOGE کا سربراہ بن چکا ہے۔ اس کا مقصد حکومتی اخراجات میں زبردست کٹوتی کرنا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہمیں اپنے وسائل کے اندر رہ کر خرچ کرنا چاہیے، لیکن حقیقت میں وہ اس سے عام لوگوں کو ٹارگٹ کرنا چاہتا ہے، اس کے اس جیسے دوست اس سب سے مستثنیٰ ہیں۔

فوجی اخراجات میں کٹوتی نہیں ہوگی۔ اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد میں کمی نہیں ہوگی، چاہے وہ نسل کشی ہی کیوں نہ کر رہا ہو۔ ارب پتیوں کی کمپنیوں کو دی جانے والی سبسڈی بھی نہیں رکے گی، چاہے وہ خود ایلون مسک کی ہی کمپنی کیوں نہ ہو۔ اصل مقصد صرف ایک ہے: امیروں کے لیے مزید ٹیکس چھوٹ اور عام لوگوں کے لیے مزید مالی مشکلات۔

یہ طبقاتی جنگ کھلے عام لڑی جا رہی ہے۔ پہلے ایسا چھپ کر ہوتا تھا، اب کسی کو پرواہ ہی نہیں کہ یہ سب کچھ سب کے سامنے ہو رہا ہے۔ اور لوگ دیکھ نہیں پا رہے، کیونکہ ان کا دھیان کسی اور طرف لگا دیا گیا ہے۔ پرانا طریقہ، پرانی چال کسی اور کو قربانی کا بکرا بنا دو۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ مسئلہ امیگرنٹس ہیں، کبھی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی معذور افراد کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔

اور لوگوں کو بس یہی چاہیے کہ ان سے زیادہ کسی اور کو تکلیف ہو۔ انہیں پرواہ نہیں کہ ان کی اپنی جیب خالی ہو رہی ہے، بس یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کسی اور کے ساتھ کچھ برا ہو رہا ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اصل مجرموں پر انگلی نہ اٹھائی جائے اور عام آدمی کو عام آدمی کا دشمن بنا دیا جائے۔

مارک زکربرگ جیسے لوگ، جن کی کوئی اخلاقیات نہیں،کوئی روایات نہیں, اب ٹرمپ کے  پاس  حاضری دے رہے ہیں، اس کی خدمت کر رہے ہیں، صرف اس لیے کہ ان کے کاروبار کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
پہلے شاید کچھ ملک فاشزم کی زد میں آتے تھے اور کچھ بچ جاتے تھے، مگر اب صورتحال بدتر ہے۔ اب دنیا بھر میں ایک ہی ماڈل لاگو کیا جا رہا ہے، ہر جگہ ایک ہی نیٹ ورک کام کر رہا ہے جو فاشزم کو فروغ دے رہا ہے، سرمایہ دارانہ اجارہ داری کو مضبوط کر رہا ہے، اور عام آدمی کے حقوق کو روند رہا ہے۔

نیولبرل ازم کے تحت اہل اقتدار کو یہ کہنے کی تربیت دی گئی کہ وہ لوگوں کے مسائل حل نہیں کر سکتیں، سب کچھ مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اسی سوچ نے دنیا کو ٹرمپ جیسے لوگوں کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔جو کچھ امریکہ میں ہوتا ہے اس کا اثر پوری دنیا پر ہوتا ہے۔ امریکہ کے نوٹ چھاپنے سے پوری دنیا میں مہنگائی پھیلتی ہے وہ اپنے ریسورسز نہیں ہمارے ریسورسز کی ڈکیتی میں ملوث ہیں۔ ہمیں دنیا بھر کی سیاست اور معیشت پر نظر رکھنی ہوگی۔ ہمیں اپنے ملک کی سیاست سے اگے بڑھ کر جیو پولیٹکس پر نظر رکھنی پڑے گی، اپنے وسائل پر کنٹرول حاصل کرنا ہوگا، ہمیں ارب پتی کلب کی ہر حرکت کا جائزہ لینا ہوگا۔ ہمیں اپنی انے والی نسلوں کو ایک بہتر مستقبل دینے کے لیے یہ سب کرنے کی ضرورت ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں