عمرخان جوزوی
وی آئی پی پروٹوکول اورسیکورٹی انتظامات اپنی جگہ لیکن انسان اورانسانیت بھی آخرکوئی شے ہے۔چوکوں اورچوراہوں پرسائیکل اورموٹرسائیکل لیکررزق کی تلاش میں گھومنے پھرنے والے یہ چھوٹے موٹے،غریب،مسکین اورلاچارانسان جوطاقت کے نشے میں مدہوش افسروں اوران کے ماتحتوں کوکیڑے مکوڑوں سے زیادہ کچھ نظرنہیں آتے ان انسانوں کی بھی توکوئی قدروقیمت،اہمیت اورحیثیت ہے۔یہ انسان چاہے جتناہی کمزور،غریب اورلاچارکیوں نہ ہویہ پھربھی دنیاکی ہرشے سے اعلیٰ وبالاتوہے۔کیایہ وہی انسان نہیں جسے دونوں جہانوں کے پروردگارنے اشرف المخلوقات کالقب وخطاب دیکراسے تمام مخلوقات سے برتراوربہترقراردیا۔روئے زمین پربسنے والاہرانسان اچھی طرح یہ جانتاہے کہ انسانیت سے آگے کچھ نہیں لیکن پھربھی اس جہان میں کچھ انسان دولت،شہرت اورطاقت کے نشے میں پاگل اورباؤلے ہوکرنہ صرف دوسرے انسان بلکہ انسانیت تک کوبھول جاتے ہیں۔ہمارے اس ملک اورمعاشرے میں انسانوں کے ساتھ انسانیت بھولنے والے بھی کچھ کم نہیں۔ایسے لوگ یہاں ہمیشہ کچھ ایساکرتے ہیں کہ جسے دیکھ کرشیطان بھی ان سے پناہ مانگتاہے۔آپ یقین کریں ایساکام اورسلوک تولوگ جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کرتے جوسلوک اس ملک میں انسانوں کے ساتھ انسان کررہے ہیں۔پنجاب پولیس کے بدمست اہلکارکے ہاتھوں موٹرسائیکل پرسوارایک غریب اوربزرگ شہری کوموٹرسائیکل سمیت گھسیٹتے ہوئے دیکھ کرواللہ سرشرم سے جھک گیا۔ہم کس ملک اورکون سے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں اشرف المخلوقات کالقب،خطاب اوردرجہ پانے والے انسانوں کوبھیڑبکریوں اورجانوروں سے بھی کمترسمجھاجارہاہے۔وردی کے نشے میں مست اہلکارنے جس طرح بزرگ شہری کوموٹرسائیکل سمیت گھسیٹاایساظلم توگیدڑمرغی کودبوچتے ہوئے بھی نہیں کرتا۔گیدڑاورلومڑی سمیت دیگرجانورشکارکے ساتھ بھی ایساسلوک اورکام نہیں کرتے جوسلوک پنجاب پولیس کے اس صاحب نے ایک غریب شہری کے ساتھ کیا۔معلوم نہیں ایسے نمونے اورعجوبے قومی اورعوامی اداروں میں کہاں سے آجاتے ہیں۔؟اس ویڈیوکودیکھ کرکیالگتاہے کہ ایسے بداخلاق اورگلوبٹ ٹائپ پولیس اہلکاراورافسرواقعی انسانوں کے تحفظ کے لئے مامورہوتے ہیں۔ماناکہ ملک کے حالات ٹھیک نہیں اوردشمن آج بھی اس خواہش اورتاک میں بیٹھاہے کہ یہاں کے حالات خراب کرکے پھرسے یہاں کھیلوں کے دروازے بندکردیئے جائیں۔دشمن کے ایسے ناپاک اورمذموم عزائم کے مقابلے میں ٹیم اورکھلاڑیوں کے لئے وی آئی پی پروٹوکول اورسیکورٹی کے سخت انتظامات ازحد ضروری ہیں ہم نہ تووی آئی پی پروٹوکول کے خلاف ہیں اورنہ ہی ہمیں سیکورٹی انتظامات پرکوئی گلہ اورشکوہ ہے،امن کے قیام کے لئے سیکورٹی کے جتنے بھی سخت انتظامات ہوں گے اس پرہمیں ایک نہیں ہزاربارخوشی ہوگی لیکن وی آئی پی پروٹوکول اورسخت سیکورٹی انتظامات کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ آپ بزرگ شہریوں کوچوکوں اورچوراہوں پربائیک سمیت گھسیٹتے پھریں۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس روڈپراگرروٹ لگاہواتھاتوپھروہ بزرگ شہری آگے کیسے آیا۔؟جب وہ اپنی یاکسی پولیس اہلکاراورافسرکی غلطی سے آگے آگیاتھاتوپھراسے موٹرسائیکل سمیت روڈپرگھسیٹنے کی کیاضرورت تھی۔؟اچھے الفاظ،برادرانہ رویے،بہترسلوک اوراچھے اخلاق کے ساتھ بھی تواسے روکاجاسکتاتھا۔اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ہماری والدہ محترمہ اکثرکہاکرتی تھیں کہ کسی سے کہیں کہ کھائیں یہ بھی کھاناہے اوراگرکہیں کہ انڈھیلیں یہ بھی ایک طرح کھانے کی دعوت ہے لیکن الفاظ اورلہجے میں اتنافرق ہے کہ اگلااسے پھرکبھی بھول نہیں سکتا۔ پولیس کاشیرجوان بزرگ کو گھسیٹنے کے بغیربھی تواس کے موٹرسائیکل کوروک سکتاتھاپراس نے روکنے کے بجائے اس غریب بزرگ کو گھسیٹنازیادہ مناسب سمجھا۔کیادنیاکے سامنے ایک غریب اوربزرگ شہری کوگھسیٹ کرانسان اورانسانیت کوتماشابنانافرض ہوگیاتھا۔؟نہیں ہرگزنہیں۔مہذب معاشروں میں بزرگوں،غریبوں اورمحنت کشوں کواس طرح روڈوں پرنہیں گھسیٹاجاتا۔جہاں معززشہریوں اوربزرگوں کوچوکوں اورچوراہوں پرگھسیٹاجاتاہے وہاں پھرترقی اورخوشحالی کانام ونشان نہیں ہوتا۔آج ہم دردرکی خاک اس لئے چھان رہے ہیں کہ ہم میں نہ بڑوں سے بات کرنے اوران کی عزت کرنے کی کوئی تمیزہے اورنہ چھوٹوں پرشفقت کرنے کی کوئی عادت۔اللہ کے پیارے حبیبﷺ نے فرمایاتھاکہ جوبڑوں کی عزت اورچھوٹوں پرشفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔افسوس کہ پیارے حبیب ﷺکی پیاری باتیں،وعظ اورنصیحتیں بھی اب ہمیں یادنہیں رہیں۔ہمیں اگراللہ کے احکامات اورنبی علیہ السلام کے ارشادات کاذرہ بھی علم ہوتاتوہم آج ملک وقوم کے بزرگوں کواس طرح سڑکوں پرکبھی نہ گھسیٹتے۔پولیس اہلکارنے طاقت کے نشے میں بزرگ شہری کودنیاکے سامنے سڑک پرگھسیٹ کرپوری قوم کاسرشرم سے جھکادیاہے۔اب دنیاہمارے بارے میں کیاکہے گی اورکیاسوچے گی۔؟کیاپولیس اہلکاروں کاکام اب شہریوں اوربزرگوں کوسڑکوں پرگھسیٹناہی رہ گیاہے۔؟پولیس جوان یہ ملک کے ساتھ قوم کے بھی محافظ ہوتے ہیں۔ اب اگرمحافظ ہی شہریوں وبزرگوں کوسرعام چوکوں اورچوراہوں پرلاتیں و مکے مارنے اورگھسیٹنے والے بن جائیں توپھر عوام کاکیاہوگا۔؟ایسے ہی بدمست اہلکار،جوان اورگلوبٹ ہی ملک،قوم اوراداروں کی بدنامی وتباہی کاباعث بنتے ہیں۔جوپولیس اہلکارشہریوں اوربزرگوں کے ساتھ ایساسلوک اوررویہ روارکھیں ایسے پولیس اہلکاروں کے بارے میں لوگ پھراپنے دل ودماغ میں کیاخیالات رکھیں گے۔ہزاروں ایمانداراوربااخلاق پولیس افسرواہلکارسالوں کی قربانیاں دے کراداروں کامعیارومورال بلندکرتے ہیں لیکن ایسے ہی کچھ افسراوراہلکاراختیارات سے تجاوز کرکے برسوں کی محنت اورقربانیوں پرچندہی لمحوں میں پانی پھیردیتے ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازنے میاں صاحب کے نقش قدم پرچلتے ہوئے بہت کم عرصے میں پنجاب کے اندرریکارڈترقیاتی کام کروائے ہیں۔ مریم نوازکوایسے سرکاری افسروں اوراہلکاروں کاقبلہ درست کرنے کے لئے بھی کچھ کرناچاہئیے۔محکمہ صحت،تعلیم اوردیگرشعبوں میں انقلابی اقدامات کی طرح محکمہ پولیس میں بھی ایساکوئی انقلابی قدم اٹھاچاہئیے کہ جس سے پولیس جوان گلوبٹ کے بجائے عوام کے حقیقی محافظ دکھائی دیں۔