Skip to content

بابا جی

شیئر

شیئر

کالم شالم
”بابا جی “
رات کا پچھلا پہر تھا ہم ”کہوڑے شوڑے“
”ویچ وٹا “کر نکٌوک سٌتے ہوۓ تھے کہ درِخواب پر دستک ہوئ ہم نے دیکھا ایک ”پتلا چِھنگ“ بابا جی ہاتھ میں ایک لیٹر پٹرول اور مونڈے پر ایک” گٌتھی “آٹا اٌٹھاۓ
پیدل ”چھکوچھک “ جارہے ہیں ہم نے لفٹ دی اور پوچھا بابا جی اِس عمری کہاں چل پڑے تو بولے کیا تم مجھے” سیانتے “ نہیں ہو ہم نے کہا” اٌنج تے تٌسی “ کچھ جانے پہچانے لگتے ہو مگر یہ نہیں معلوم کہاں دیکھا ہے ! پھر دماغ پر زور دیا تو کہا بابا جی ”تٌساں نی شکل “ نوٹ پر چھاپے“ بابے نال ملدی اے “
بابا جی نے دل ہی دل میں نہ جانے کیا کچھ کہہ کر کہا چلو شٌکر ہے کچھ ”سیانڑف “ہوی
ہم نے کہا حضور آج کدھر رستہ بھول گئے !
تو بولے ” چنگا پلا “ بہشت بریں میں مزے لے رہا تھا کے اقبال نے آکر کہا ” بابا تٌسی اتھے مزے کہندے ہو زرہ اپنے مٌلک دا حال وی دیکھ آؤ “ بس مجھ سے ”مند“ ہوا میں یہاں آگیا ایک مہران” گڈی“ کراے پر لی اور ملکی صورت حال دیکھنے لگ گیا بس کچھ دیر بعد پٹرول ختم ہوگیا اور ایک پٹرول پمپ پر لائن میں لگ گیا جہاں مارا ماری میں میرے” نویں جنتی چیڑے لیرولیر “ ہوگئے بڑی مشکل سے ایک لیٹر پٹرول ملا پھر سوچا رات کے کھانے کیلے کچھ آٹے کے” جگاڑ “کرلوں کہ آخر رٌوےزمین پر آٹے کےسوا زندگی ممکن نہیں
ایک یوٹیلٹی پر پہنچا تو وہاں بھی” لمی لین “ تھی لوگ آٹے کے چکر میں ایک دوسرے کو” دھکا مٌکا “ کر رہے تھے کہ ایک مشٹنڈے نے زور سے میری نازک” باں “پر ہاتھ مارا اور مجھے پیچھے دھکیل دیا میں نےلوگوں کو اٌنکے ہاتھ میں پکڑے نوٹ پر اپنی
فوٹو دکھا کر کہتا یہ میں ہوں مگر وہ
”اٌکا “نہیں مان رہے تھے بلکہ ایک سرپھرے نے تو یہاں تک کہہ دیا بابا ”جے اے توں ایں تے “ فیر کہن مزے آزادیاں دے “ اور بولا یہ آپکی ہی مسلم لیگ نامی جماعت کا کیا دھرہ ہے جب بھی آتے ہیں آٹا چینی پٹرول وغیرہ غائب ہوجاتا ہے
بابا جی نے کہا او بدبختو ! کیا میں نےآزادی دلا کر گناہ کیا تھا کیا میں نے کہا تھا سارے چور اٌچکے فراڈیئے اپنے راہنما بنا لینا کیا کیا تم لوگ عقل سے بلکل پیدل ہو کیا تم گاس پھوس کھاتے ڈنگر ہو جو ہربار تم کو چونا لگایا جاتا ہے کیا تم بنگلہ دیشیوں سے بھی گئے گزرے ہو !
او نکھترو ! دنیا میں تم سے بعد آزاد ہونی والی اقوام تم سے آگے نکل گئ تو کیا تمارے ”پیر بندھے“ ہوے ہیں افسوس تم لوگوں کو آزادی دلا کر بھی ہم جنت میں پریشاں رہتے ہیں اقبال اپنی جگہ” کٌرلاتا “ اور سارے آزادی کے سپاھی مجھے آکر” نورے گلے “ کرتے ہیں !
تم لوگوں نے ایسے حکمران چٌنے جو اپنا گھر تک نہیں چلا سکے اور تم بائیس کروڑ لوگوں کوکیا خاک چلاہیں گے –
بابا جی کو کاکول روڈ پر لاکر میں نے پوچھا ”بڈیو “ اگے کتھے جٌلسو جے میں لہاڑ آواں “ تو بولے تمارا شکریہ میں” گڈی بِچ پٹرول پاکے ٹھنڈیانی جٌلساں “
بابا جی کی شٌدھ ہندکو سٌن کر میں ”ٹاٹرا
باٹرا “ہوگیا اور بابا جی فوراً” گڈی اتوں لہہ گئے “ اور بولے قتیل ”ٹھیک آخدا ہاسا “

کِس قوم کےدل میں نہیں جزباتِ براہیم
کِس قوم پہ نمرود حکومت نہیں کرتا

گھروالوں کوغفلت پہ سبھی کوس رہےہیں
چوروں کی مگر کوئ مزمؔت نہیں کرتا

ہم نے کہا یہ قتیل شفائ بھی ہزارے وال تھے تو بابا جی ”بولے پٌتر ایئ تے افسوس اے “
تم سب کچھ ہو مگر پاکستانی نہیں ہو
تمارا قومی شاعر تو یہاں تک کہہ گیا

ایک ہومسلم حرم کی پاسبانی کیلے
نیل کےساحل سے لیکر تابخاک کاشغر

مگر تم نے کسی کی بھی نہیں سٌنئ سو آج
آٹے چینی پٹرول کیلے قطاروں میں لگے ہو اور یہی تمارا انجام ہے ” ہور چوپو “
بابا جی ٹا ٹا باۓ باۓ کیے بغیر رخصت ہوگئے اور ہماری آنکھ کٌھل گئ

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں