Skip to content

مدارس رجسٹریش بل: لفڑا کیا ہے؟

شیئر

شیئر

فرنود عالم

پیش منظر میں یہ جنگ تیکنیکی بنیادوں پر چل رہی ہے۔ پس منظر میں کہانی سیاسی چل رہی ہے۔

مدارس اور رفاہی ادارے وغیرہ 1860 سے سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے چلے آرہے ہیں۔ سال 2019 میں سائن ہونے والے ایک ایم او یو کے بعد مدارس وزرات تعلیم میں رجسٹرڈ سے ہونے لگے۔

اس رجسٹریشن کے لیے بھی وزارت تعلیم میں ایک ڈائریکٹوریٹ قائم کیا گیا، جس کی سربراہی ایک ریٹائڑڈ جرنیل کی قسمت میں آئی۔ ظاہر ہے اور کس کی قسمت میں آنی تھی!

ڈائریکٹوریٹ کے مالکان نے فیصلہ کیا کہ وفاق المدارس کے علاوہ کچھ اور بورڈز بھی قائم ہونے چاہئیں۔ راتوں رات بورڈز بن گئے جس میں مرکزی کردار مجمع نام کے اس بورڈ کو حاصل ہوا جس کے سربراہ مفتی عبدالرحیم ہیں۔

یہ وہی الرشید ٹرسٹ والے مفتی عبدالرحیم ہیں جنہیں عسکری حلقوں میں پیار سے استاذ صاحب کہا جاتا ہے۔ یہ اور ان کے مرشد عسکری تاریخ کے پر اسرار کردار ہیں، جن کا تفصیلی پروفائل مرتب کرنا کسی تحقیقی اخبار نویس کے لیے ایک دلچسپ کام ہوسکتا ہے۔

خیر!

پی ڈی ایم کی پہلی حکومت قائم ہوئی تو مولانا نے رجسٹریشن والے ٹائی ٹینک کو واپس سوسائٹی ایکٹ کی طرف موڑنے کا فیصلہ کیا۔ حالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر دیکھا تو انہیں اندازہ ہوا کہ چوٹ مارنے کا وقت ابھی بھی نہیں آیا۔ سو دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا۔

چھبیسویں آئینی ترمیم کے موقع پر جب ترپ کا پتہ مولانا کے ہاتھ میں آیا تو فورا سے پیشتر انہوں نے پھیپھڑوں کا پورا زور لگایا اور سوسائٹی ایکٹ کے مردہ گھوڑے میں روح پھونک دی۔ روح پڑتے ہی گھوڑا ہڑ بڑاتا ہوا ایسا کھڑا ہوا کہ دوڑیں لگ گئیں۔ ڈائریکٹوریٹ والے جرنیل صیب براستہ امارات یورپ کی طرف جا رہے تھے، آدھے راستے سے اسلام لوٹ آئے۔ استاذ صاحب نے بھی کراچی سے خیمہ اٹھایا اسلام آباد میں گاڑ دیا۔ یہاں سے تنازع میڈیا پر شہہ سرخیوں کی صورت میں سامنے آنا شروع ہوگیا۔

مولانا فضل الرحمن اور وفاق المدارس کا موقف تھا کہ مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹی ایکٹ کے تحت ہونی چاہیے۔ استاذ صاحب اور ہم نوا کہہ رہے تھے کہ رجسٹریشن وزارت تعلیم کے تحت ہونی چاہیے۔

استاذ صاحب کا کہنا ہے، جب ہمارا معاملہ ہی تعلیم کا ہے تو رجسٹریشن بھی محکمہ تعلیم میں ہونی چاہیے۔

مولانا کا کہنا ہے، مدارس کا کام فنڈڈ ہے، سو اسے این جی او والے خانے یعنی سوسائٹی ایکٹ میں جانا چاہیے۔ پھر وزارت تعلیم میں بنا ڈائریکٹوریٹ ایک نوٹفیکیشن پر بنا ہے اور ایک حوالدار اس کا مختار کُل ہے۔ یہ گندی بات ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

خیر!

چھوڑیں یہ ساری گفت ترانیاں۔ یہ تیکنیکی معاملات ہیں، سیاسی پس منظر سمجھے بغیر یہ کہانی سر کے اوپر سے گزر جائے گی۔ جلدی سے سیاسی پہلو کی طرف آتے ہیں!

آگے سے بڑھنے سے پہلے ریکارڈ کے لیے یہ لکھ دینا ضروری ہے کہ مدارس بورڈ والے ہوں یا وفاق والے، مقصد سبھی کا ایک ہے۔ ریاستی اشرافیہ کے مفادات کو بالواسطہ اور بلا واسطہ تحفظ فراہم کرنا۔ رجسٹریشن والی جنگ ایک ہی گھر میں دو مختلف لابیوں کی جنگ تھی جس کا ڈراپ سین تقریبا ہو چکا ہے۔

استاذ اینڈ کمپنی اور مولانا کی یہ جنگ تب شروع ہوئی جب جنرل باجوہ نے اٹھارہ کے انتخابات سے پہلے فیصلہ کیا کہ چور ڈاکو لٹیروں کا ہم نے خاتمہ کرنا ہے اور کسی پاک پوتر شخصیت کو اقتدار میں لانا ہے۔

جنرل باجوہ نے عمران خان اور ثاقب نثار کے ساتھ اپنی ایک تثلیث قائم کی اور سیاسی بندوبست کے لیے یہاں وہاں مختلف حلقوں کی طرف نکل گئے۔

چیمبر آف کامرس، میڈیا، سول سوسائٹی، سوشل میڈیا، جامعات، بینچ اور بار وغیرہ سے گزر کر جب مذہبی حلقے کی طرف گئے تو رک کر فورا چند فیصلے کیے۔ جیسے

۔ جماعۃ ال دع وہ اور تحریک ل ب ی ک کو الیکشن کمیشن میں سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ کروایا جائے گا۔

۔ میاں نواز شریف کے خلاف خانقاہوں کو قادیانی کارڈ کی بنیاد پر استعمال کیا جائے گا۔

۔ شیعہ مخالف کالعدم تنظیموں کے سو سے زائد کارکنوں کو جیلوں سے رہا کروایا جائے گا۔

۔ مفتی تقی عثمانی، مولانا طارق جمیل اور ثاقب رضا قادری کو اس عظیم مہم کا حصہ بنایا جائے گا۔

۔ مولانا فضل الرحمن کی کمر توڑنے کے لیے وفاق المدارس کے حصے بخرے کیے جائیں گے۔ (کیونکہ وفاق میں ستر فیصد سے زائد ووٹ مولانا کا ہے)۔

سال 2019 میں جب جرنیلی ڈائیریکٹوریٹ قائم کیا گیا تو ساتھ ہی یہ طے کیا گیا کہ مفتی تقی عثمانی کی سربراہی میں وفاق المدارس سے ہٹ کر ایک بورڈ قائم کیا جائے گا۔

اس منصوبے کی انجام دہی کے لیے مفتی تقی عثمانی اور استاذ صاحب نے کرنل الف نون زائدتان کے ہاتھ پر بیعت کی، اور دل و جان سے کام پر لگ گئے۔

ضروری بات: مفتی تقی عثمانی کو وفاق سے توڑ کر بورڈ کا امام بنانا کرنل صاحب کی بہت بڑی کامیابی تھی۔

بورڈ تو بن ہی رہا تھا، دوسری طرف وفاق المدارس کا من پسند سٹرکچر بھی بنایا جا رہا تھا۔

مولانا صاحب کیا کرتے کیا نہ کرتے، انہوں نے بات اڑادی کہ اس بار وفاق کا الیکشن میں بقلم خود لڑوں گا۔

اس اعلان نے بیک وقت وفاق المدارس میں اور ڈائریکٹوریٹ میں خطرے کی لال بتیاں روشن کردیں۔

یہ اعلان وفاق المدارس کے اندر ایک بڑا تنازعہ بن گیا، اور اسی تنازعے کو مولانا نے ایک ایسی ہڈی بنائے رکھا جسے نگلا جا سکتا تھا نہ اگلا جا سکتا تھا۔

ہزار گزارشوں کے باوجود مولانا الیکشن سے دستبردار نہیں ہوئے۔ اسی وجہ سے وفاق کا الیکشن ڈیڑھ دو سال تک کے لیے لٹک گیا۔ اس لٹکن کو مولانا نے تب تک مینٹین رکھا جب تک آخری پتہ کھیلنے کا وقت نہیں آگیا۔

اس دوران علامہ طاہر اشرفی موقع بہ موقع جناح کنونشن سینٹر میں جنرل فیض زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ بورڈ والے فرقے کے لیے بغیر وضو کے امام بھی بنے رہے۔

ایک دن انہوں نے مفتی تقی عثمانی اور دیگر بورڈ گزاروں کو جنرل فیض حمید اور عمران خان صاحب سے ملوانے کے لیے اسلام آباد بلوایا۔ مفتی تقی عثمانی مع اہل و عیال میریٹ میں قیام پذیر تھے۔

سہہ پہر تین بجے کے لگ بھگ مفتی تقی عثمانی کو فون پکڑا یا گیا، مولانا بات کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا نے کہا، یا شیخ العرب والعجم! اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ ہی کے شاگرد آپ کے خلاف درس گاہوں میں کھڑے ہوکر مزاحمت نہ کریں تو دبے قدموں یہاں سے واپس چلے جائیے۔

مفتی تقی عثمانی صاحب نے کلے میں تیز پتی والا پان رکھا، کان لپیٹے اور ملاقات کے بغیر سلطنت عثمانیہ کی طرف واپس لوٹ گئے۔ اس شام طاہر اشرفی گرج برس کر میڈیا کو وضاحتیں دیتے رہے مگر بات بن نہیں پا رہی تھی۔ اگلا دن علامہ کا مائیگرین میں گزرا۔ ایتھنز کے فلاسفر میٹھے پان کے ہینگ اوور کو مائیگرین کہتے تھے۔ واللہ اعلم!

آخر کار وہ دن آگیا کہ جب مولانا نے کرنل کی بچھائے ہوئے پوری بساط کے ننیچے سے عسکری قالین کھینچ لیا۔ وہ اس طرح کہ بورڈ والے حلقے کی امامت کرنے والے مفتی تقی عثمانی نے بیچ نماز میں سلام پھیرا، پان دان اٹھایا اور مولانا کی طرف آگئے۔

آکر کہا، کس نے کہا میں بورڈ کے ساتھ ہوں؟ مولانا نے کہا، کس نے کہا کہ میں وفاق کا الیکشن لڑ رہا ہوں؟ بیٹھو چھم چھم کھیلتے ہیں۔ چھم چھم چھم۔ آٹھ آنے کی چھالیہ آٹھ آنے کا پان۔ چل میرے گھوڑے ہندوستان!

مولانا اندر خانے اس تقاضے کے ساتھ الیکشن سے دستبردار ہوگئے کہ وفاق کے اجلاس میں صدارت کی نامزدگی کے لیے مفتی تقی عثمانی کے نام کا اعلان میں کروں گا۔

چنانچہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے اجلاس میں مولانا نے اعلان کیا، میں علی وجہ البصیرت یہ سمجھتا ہوں کہ وفاق کی صدارت کے لیے مفتی تقی عثمانی سے بہتر کوئی نام نہیں ہو سکتا۔ پورا اجلاس سرشاری سے کھڑا ہوگیا، نعرہ لگا اور محفل تمام شد۔

غزل ایک طرح سے پوری ہوگئی، مگر مولانا نے بتایا نہیں کہ مقطع ابھی باقی ہے۔ سوسائٹی ایکٹ کی زلف سر ہوگی تو ہی یہ غزل پوری ہوگی بھائی جان۔

جاتے جاتے!

مولانا چھبیسویں ترمیم کی ٹرے میں رجسٹریشن کی فائل رکھی تو اللہ کے وہی بندے سرگرم ہوگئے جنہیں ہونا چاہیے تھا۔ مثلا، استاذ صاحب، جو ہمیشہ سے اعزازی کرنیل ہیں۔ آرمی چیف کا منصب لبرل ازم بیچنے والے مشرف کے پاس ہو یا آیتیں بیچنے والے حافظ جی کے پاس، ان کی کرنیلی کہیں نہیں جاتی۔

محکمہ دفاع پر کوئی سوال آجائے تو ڈی جی آئی ایس پی آر سے پہلے وہ اپنے سازندوں کو جمع کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھاتے ہیں کہ محکمہ دفاع کا دفاع کرنا ہم پر کس کس طریقے سے لازم ہے۔

محکمہ دفاع کے دفاع پر مبنی ایک کتاب بھی انہوں نے حال ہی میں شائع کی ہے۔ ریاست، بغاوت اور شریعت۔ اس کتاب میں فوج کی اطاعت کے لیے انہوں نے مسلم کی ان روایتوں کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حاکم کی اطاعت کرو چاہے وہ تمہارا مال چھین لے یا تمہاری آبرو ریزی کرے۔

ان روایتوں کو اگر عقل کی میزان پر تولنے کے بعد کسی طرح مان ہی لیا جائے تو ایک سوال پھر بھی رہ جاتا ہے کہ مالک کے حق میں آئی ہوئی روایت چوکیدار کے حق میں کیسے جا رہی ہے۔ ہیں حاجی ہن ایویں کریسیں؟

بتاتا چلوں کہ استاذ صاحب وہی ہیں جنہوں نے افغانستان اور کشمیر میں ریاست کے عسکری پراجکٹ چلانے کے لیے دوسرے کئی تجربات کے ساتھ ہفت روزہ ضرب مومن والا تجربہ بھی کیا تھا۔ ضرب مومن کے مرکزی کالم نگار تین تھے۔ عرفان صدیقی، اوریا مقبول جان اور یاسر محمد خان۔

عرفان صدیقی غیب کے پردوں میں رہنے والے ملا ع م ر کا قصیدہ لکھتے تھے۔ اوریا مقبول جان کبھی دجال کا مستقل اور عارضی پتہ بتاتے تھے۔ کبھی بتاتے تھے کہ دجال کا گدھا اس وقت قیامت سے کتنی دوری پر سفر کر رہا ہے۔ یاسر محمد خان عالمی اداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور اسرائیل کی ساشوں کو بے نقاب کرتے تھے۔

یاسر محمد خان در اصل جاوید چوہدری تھے۔ وہی جاوید چوہدری جنہوں نے رجسٹریشن والے قضیے پر پچھلے دنوں استاذ صاحب کا تفصیلی انٹرویو کیا ہے۔ وہی جاوید چوہدری، جن کو مولانا فضل الرحمن ہزار کوششوں کے باجود بھی انٹرویو نہیں دیتے۔

اب بورڈز کا معاملہ مزید سمجھنے کے لیے یہ دیکھ لینا کافی ہے کہ بورڈ والے گروہ کی سربراہی اس وقت علامہ طاہر اشرفی کے پاس ہے۔ مدارس کی تعلیمی نظم میں درس نظامی کیے ہوئے کو مولانا اور سپشلائزیشن سے گزرے ہوئے کو مفتی کہتے ہیں۔ اور جو ان دونوں سے نہ گزر سکا ہو اسے علامہ کہتے ہیں۔

اس کہانی کو اور بھی مزید سمجھنا ہو تو یہ دیکھ لیجیے کہ بورڈ کے معاملے میں تیسرے سرگرم شخص مولانا طیب طاہری ہیں۔ یہ میجر عامر کے بھائی ہیں۔ میجر عمار بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف آپریشن مڈنائٹ جیکال ڈیزائن کرنے والے کرداروں میں سے ایک تھے۔

میجر عامر انہی سپاہیوں میں سے ہیں جو فوج میں ہوتے ہوئے لاکھ کے ہوتے ہیں، ریٹائرڈ ہو جائیں تو سوا لاکھ کے ہو جاتے ہیں۔ ہر منتخب حکومت کے دھڑن تختے میں ان کا کچھ حصہ ضرور ہوتا ہے۔

سال میں یہ ایک بار جاوید چوہدری اور دو بار سلیم صافی کے پروگرام میں نمودار ہوتے ہیں۔ نسیم حجازی اور اسماعیل ساگر کی گھڑی ہوئی کہانیاں اپنے انداز میں سناتے ہیں۔

پھر اس معاملے کو ایک اور طرح سے سمجھنا ہو تو یہ دیکھ لیجیے کہ جماعت اسلامی کس طرف کھڑی ہے۔ رجسٹریشن والے قضیے میں حافظ نعیم الرحمن اور جماعت کے ترجمان خدا کی رضا کے لیے استاذ صاحب کی طرف کھڑے ہیں۔ جنرل حمید کے فرند بے ارجمند عبداللہ گل بھی منہ ول ڈھابے شریف ہیں۔ نہیں سمجھے؟ پلیز یار کیا ہوگیا۔ کم آن!

مدارس رجسٹریشن مولانا کی جان پر رکھا ہوا ایک قرض تھا جو انہوں نے ایک دن چکانا ہی تھا۔ پرسوں اس کی سیکنڈ لاسٹ قسط انہوں نے چکا دی ہے۔ ناں ناں کرتے بل منظور ہو ہی گیا۔ اب مولانا اس پر پلستر لگا رہے ہیں۔

مولانا کا ریکارڈ یہ ہے کہ جلد یا بدیر وہ اپنا حساب چکتا کر کے ہی رہتے ہیں۔ دستاویزی کرنیل کی بچھائی ہوئی بساط پر اعزازی کرنیل کو پٹخنی دے کر انہوں نے بس اپنا حساب چکایا ہے۔ باقی ایسی کوئی بات نہیں!

بشکریہ فرنود عالم

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں