ڈاکٹر جزبیہ شیریں
پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش کا مسئلہ حالیہ برسوں میں ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے، جس کے مختلف وجوہات اور عوامل ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کے انفراسٹرکچر کو کئی مواقع پر شدید نقصان پہنچا ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں بجلی کی غیر یقینی صورتحال، تکنیکی خرابیوں، اور سمندری کیبلز کے مسائل شامل ہیں۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں انٹرنیٹ کے تقریباً 60 فیصد صارفین کو کسی نہ کسی شکل میں کنیکٹیویٹی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2023 کے دوران پاکستان میں تین مرتبہ بڑی انٹرنیٹ بندش کا سامنا کیا گیا، جس میں جنوری کی ایک بندش کے دوران پورے ملک کی 90 فیصد انٹرنیٹ سروس معطل ہو گئی تھی۔ اس کی اہم وجہ بین الاقوامی سب میرین کیبل میں خرابی تھی، جو پاکستان کو عالمی انٹرنیٹ نیٹ ورک سے جوڑتی ہے۔
بجلی کے مسائل بھی انٹرنیٹ کی بندش کا ایک بڑا سبب ہیں۔ پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کی بڑھتی ہوئی شرح انٹرنیٹ پرووائیڈرز کے لیے مسلسل چیلنج بنی ہوئی ہے۔ ٹیلی کام کمپنیز اور انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کو اکثر اپنے نیٹ ورک کو چلانے کے لیے اضافی جنریٹرز کا استعمال کرنا پڑتا ہے، جو نہ صرف مہنگا ہے بلکہ ان سروسز کی کارکردگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔
اس کے علاوہ، تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے بھی انٹرنیٹ سروسز میں رکاوٹیں آتی ہیں۔ پاکستان میں کئی مقامات پر انٹرنیٹ کیبلز کی حفاظت کا نظام ناکافی ہے، اور بعض اوقات تعمیراتی کام یا دیگر وجوہات کے باعث کیبلز کو نقصان پہنچتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، 2024 میں 30 فیصد انٹرنیٹ بندش کے کیسز مقامی سطح پر کیبل کے کٹنے کی وجہ سے پیش آئے۔
دیہی علاقوں میں کنیکٹیویٹی کی صورت حال مزید خراب ہے، جہاں جدید انٹرنیٹ انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2024 میں ملک کی 38 فیصد آبادی اب بھی 4G انٹرنیٹ سے محروم ہے، جبکہ فائیو جی ٹیکنالوجی کے حوالے سے ترقی انتہائی سست روی کا شکار ہے۔
انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باوجود، حکومت اور نجی شعبے کے اقدامات ناکافی دکھائی دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، اگر حکومت ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی بہتری پر فوری توجہ نہ دے، تو مستقبل میں انٹرنیٹ کے مسائل معیشت، تعلیم، اور دیگر اہم شعبوں کو مزید متاثر کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کی کنیکٹیویٹی کے مسائل ای کامرس اور فری لانسنگ کے شعبوں پر گہرا اثر ڈال رہے ہیں، جو ملک کی معیشت کے بڑھتے ہوئے اہم ستون بن چکے ہیں۔ فری لانسنگ میں پاکستان دنیا کے ٹاپ پانچ ممالک میں شامل ہے، جہاں ہر سال ہزاروں نوجوان اپنی خدمات عالمی سطح پر فراہم کرتے ہیں۔ 2023 میں پاکستان نے تقریباً 3.5 بلین ڈالر کی فری لانسنگ برآمدات کیں، جو ملک کے لیے ایک اہم زرمبادلہ کا ذریعہ ہے۔
ای کامرس کا شعبہ بھی پاکستان میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے، جہاں داراز، اولیکس، اور فوڈ ڈیلیوری پلیٹ فارمز جیسے کاروبار لاکھوں صارفین کو خدمات فراہم کرتے ہیں۔ لیکن انٹرنیٹ کی بار بار بندش ان شعبوں کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، 2024 کے دوران تقریباً 20 فیصد ای کامرس ٹرانزیکشنز کنیکٹیویٹی مسائل کی وجہ سے مکمل نہیں ہو سکیں۔ یہ مسائل نہ صرف کاروبار کے لیے مالی نقصان کا باعث بنتے ہیں بلکہ صارفین کے اعتماد کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
فری لانسنگ کے حوالے سے، انٹرنیٹ کی بندش پاکستانی فری لانسرز کو عالمی پلیٹ فارمز پر مقابلے سے باہر کر سکتی ہے۔ جب انٹرنیٹ اچانک بند ہو جاتا ہے، تو ڈیڈلائنز پوری نہیں ہو پاتیں، اور کلائنٹس کے ساتھ مواصلات متاثر ہوتے ہیں۔ اس کا براہ راست اثر پاکستانی فری لانسرز کی ریپوٹیشن پر پڑتا ہے، جس سے مستقبل کے پروجیکٹس کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ ایک فری لانسرز سروے کے مطابق، 2024 میں تقریباً 45 فیصد فری لانسرز نے انٹرنیٹ کی بندش کو اپنے کام میں سب سے بڑا چیلنج قرار دیا۔
ای کامرس کے شعبے میں، کنیکٹیویٹی مسائل کے باعث ادائیگی کے گیٹ ویز، آرڈر پراسیسنگ، اور سپلائی چین میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں، جہاں انٹرنیٹ کا معیار پہلے ہی خراب ہے، انٹرنیٹ کی بندش کے دوران صارفین اور کاروبار مکمل طور پر معطل ہو جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی بہتری کے بغیر ای کامرس اور فری لانسنگ کی مکمل صلاحیت کو حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ حکومت اور نجی شعبے کو ان مسائل کے حل کے لیے سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے، تاکہ انٹرنیٹ کے بغیر کسی رکاوٹ کے ان اہم شعبوں کو ترقی دی جا سکے۔ پاکستان میں تعلیمی ادارے انٹرنیٹ کی بندش کے دوران شدید مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، خاص طور پر جب ڈیجیٹل تعلیم اور آن لائن لرننگ کی اہمیت دن بدن بڑھ رہی ہے۔ کوویڈ-19 کے دوران آن لائن تعلیم نے ایک نیا دور متعارف کروایا، لیکن انٹرنیٹ کی غیر یقینی صورتحال نے اس عمل کو کئی بار متاثر کیا۔
2024 میں، پاکستان میں تعلیمی اداروں کا تقریباً 40 فیصد حصہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر منحصر تھا، جہاں اساتذہ اور طلبہ آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ تاہم، انٹرنیٹ کی بندش کے دوران یہ نظام مکمل طور پر رک جاتا ہے، جس کے نتیجے میں تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں اور طلبہ کا تعلیمی نقصان ہوتا ہے۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق، 2023 میں انٹرنیٹ بندش کے باعث 35 فیصد یونیورسٹی کے طلبہ کو اپنی اسائنمنٹس اور تحقیقی کام وقت پر مکمل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور پر دیہی علاقوں کے طلبہ انٹرنیٹ کی کمی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، جہاں پہلے ہی ڈیجیٹل انفراسٹرکچر ناقص ہے۔
اساتذہ کو بھی انٹرنیٹ کی بندش کے دوران مشکلات پیش آتی ہیں، کیونکہ آن لائن لیکچرز، تدریسی مواد، اور طلبہ کے ساتھ رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں تقریباً 60 فیصد تعلیمی ادارے گوگل کلاس روم، زوم، اور مائیکروسافٹ ٹیمز جیسے پلیٹ فارمز استعمال کرتے ہیں، جو کنیکٹیویٹی کے بغیر غیر فعال ہو جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ، انٹرنیٹ کی بندش کے دوران طلبہ آن لائن امتحانات نہیں دے سکتے، جس سے امتحانات کی تنظیم اور نتائج کے عمل میں تاخیر ہوتی ہے۔ 2024 میں پنجاب کے ایک بڑے تعلیمی بورڈ کے آن لائن امتحانات انٹرنیٹ بندش کے باعث ملتوی کیے گئے، جس نے طلبہ اور والدین کے لیے مزید پریشانی پیدا کی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کے لیے ایک مستحکم اور قابل اعتماد انٹرنیٹ کنیکشن تعلیمی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ حکومت اور تعلیمی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ انٹرنیٹ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کریں، تاکہ طلبہ اور اساتذہ کسی بھی رکاوٹ کے بغیر اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش اور کنیکٹیویٹی کے مسائل ایک عام مسئلہ بن چکے ہیں، جس کا اثر معیشت، تعلیم، اور دیگر شعبوں پر پڑ رہا ہے۔ اس مسئلے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں تکنیکی خرابیاں، بنیادی ڈھانچے کی کمزوری، اور قدرتی آفات شامل ہیں۔
سب میرین کیبلز میں خرابی انٹرنیٹ کی بندش کا ایک اہم سبب ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل سب میرین کیبلز کے ذریعے عالمی نیٹ ورک سے منسلک ہے، اور جب ان کیبلز میں کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو پورے ملک کی انٹرنیٹ سروس متاثر ہو جاتی ہے۔ 2023 میں ایک ایسی خرابی کی وجہ سے پاکستان میں 75 فیصد انٹرنیٹ صارفین کو کنیکٹیویٹی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے علاوہ، ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی انٹرنیٹ کے مسائل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اکثر انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کے ٹاورز اور ڈیٹا سینٹرز بجلی کی مسلسل فراہمی پر منحصر ہوتے ہیں، اور لوڈ شیڈنگ کے دوران ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، 2024 میں 40 فیصد انٹرنیٹ بندش کے واقعات بجلی کے بحران کی وجہ سے پیش آئے۔
انفراسٹرکچر کی کمزوری بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں انٹرنیٹ کیبلز کو نقصان پہنچنے کے واقعات عام ہیں، جو اکثر تعمیراتی کام یا حادثات کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ 2024 کے پہلے چھ مہینوں میں، 20 فیصد انٹرنیٹ بندش کے کیسز زمینی کیبلز کو نقصان پہنچنے کے باعث رپورٹ کیے گئے۔
قدرتی آفات جیسے بارش اور سیلاب بھی انٹرنیٹ کے نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید بارشوں نے پاکستان کے کئی حصوں میں انٹرنیٹ کیبلز کو نقصان پہنچایا، جس سے صارفین کو طویل بندش کا سامنا کرنا پڑا۔
ان مسائل کے حل کے لیے ٹیلی کام کمپنیوں اور حکومت کو مشترکہ طور پر کام کرنا ہوگا۔ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی بہتری، متبادل کیبل نیٹ ورکس کی تنصیب، اور سب میرین کیبلز کی دیکھ بھال پر توجہ دینا ضروری ہے، تاکہ پاکستان کے انٹرنیٹ نیٹ ورک کو زیادہ مستحکم اور قابل اعتماد بنایا جا سکے۔ ٹیلی کام کمپنیوں کا کردار انٹرنیٹ کی سہولیات کو بہتر بنانے اور سروس فیلیرز کے مسائل کو حل کرنے میں انتہائی اہم ہے۔ ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 2024 تک 130 ملین سے تجاوز کر چکی ہے، اور اس بڑھتی ہوئی طلب کے پیش نظر سروس کے معیار کو بہتر بنانا ایک ضروری تقاضا بن گیا ہے۔
ٹیلی کام کمپنیاں، جیسے پی ٹی سی ایل، جاز، زونگ، اور ٹیلی نار، اس وقت ملک میں ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ تاہم، بار بار سروس میں خلل کے مسائل، جیسے سب میرین کیبلز کی خرابی، انفراسٹرکچر کی کمزوری، اور بجلی کے بحران، ان کمپنیوں کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ 2023 میں، پاکستان میں انٹرنیٹ سروسز کی بندش کے باعث معیشت کو تقریباً 70 ملین ڈالر کا نقصان ہوا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ٹیلی کام کمپنیوں کو مزید موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
حکومت اور ٹیلی کام سیکٹر کو مل کر پاکستان کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لیے پالیسی اصلاحات پر کام کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے، ملک میں فائبر آپٹک نیٹ ورک کو توسیع دینا ضروری ہے، تاکہ دیہی اور دور دراز علاقوں میں بھی ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی جا سکے۔ اس وقت صرف 15 فیصد دیہی علاقے اس بنیادی سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں، جو ترقیاتی اہداف کے لیے ناکافی ہے۔
دوسری اہم ضرورت سب میرین کیبلز کے متبادل نیٹ ورک کی تعمیر ہے، تاکہ کسی خرابی کی صورت میں کنیکٹیویٹی برقرار رہے۔ 2024 میں ایک اہم سب میرین کیبل کی خرابی کے باعث ملک میں 72 گھنٹے سے زائد وقت تک انٹرنیٹ سروس متاثر رہی، جو ایک بڑی ناکامی تھی۔
اس کے علاوہ، بجلی کی مستقل فراہمی کو یقینی بنانا بھی اہم ہے، کیونکہ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کے ٹاورز اور ڈیٹا سینٹرز لوڈ شیڈنگ سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت کو ان کمپنیوں کے لیے سبسڈی یا ٹیکس میں رعایت دینی چاہیے، تاکہ وہ جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر سکیں اور ان مسائل سے نمٹ سکیں۔
پاکستان کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لیے ایک مربوط پالیسی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ٹیلی کام کمپنیاں اور حکومت اگر مل کر کام کریں، تو ملک کے ڈیجیٹل اہداف کو جلد ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لیے مربوط اور جامع پالیسیوں کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں ڈیجیٹل معیشت کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی دستیابی مزید اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
2024 تک پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 130 ملین سے تجاوز کر چکی ہے، لیکن اس کے باوجود، ملک کا ڈیجیٹل انفراسٹرکچر محدود اور غیر مؤثر ہے۔ عالمی انڈیکس میں پاکستان انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی اور ڈیجیٹل رسائی کے معاملے میں نیچے کے نمبروں پر آتا ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ ہمیں انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلا قدم فائبر آپٹک نیٹ ورک کی توسیع ہے۔ اس وقت پاکستان میں صرف 25 فیصد آبادی فائبر آپٹک نیٹ ورک کی سہولت سے مستفید ہو رہی ہے، جبکہ دیہی علاقوں میں یہ تناسب 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ حکومت کو نجی شعبے کے ساتھ مل کر فائبر آپٹک نیٹ ورک کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کرنی چاہیے، تاکہ تمام علاقوں میں ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کی فراہمی ممکن ہو سکے۔
سب میرین کیبلز کی متبادل نیٹ ورکنگ بھی ضروری ہے۔ 2023 میں سب میرین کیبل میں خرابی کے باعث ملک بھر میں انٹرنیٹ سروسز 72 گھنٹے تک معطل رہیں، جس سے کاروبار، تعلیم، اور دیگر اہم شعبے بری طرح متاثر ہوئے۔ حکومت کو نئے سب میرین کیبلز پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، تاکہ کنیکٹیویٹی کے لیے متبادل ذرائع موجود ہوں۔
تیسرا اہم پہلو ڈیٹا سینٹرز کی مقامی ترقی ہے۔ پاکستان کا زیادہ تر ڈیٹا بین الاقوامی سرورز پر محفوظ ہوتا ہے، جو سیکیورٹی اور رفتار کے مسائل پیدا کرتا ہے۔ مقامی ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر سے نہ صرف ان مسائل کا حل ممکن ہوگا بلکہ معیشت کو بھی فروغ ملے گا۔
بجلی کی فراہمی کے لیے مستقل اقدامات بھی ضروری ہیں، کیونکہ انٹرنیٹ ٹاورز اور ڈیٹا سینٹرز کی کارکردگی براہ راست بجلی کی دستیابی پر منحصر ہے۔ حکومت کو انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کے لیے خصوصی سبسڈی اور ٹیکس میں رعایت فراہم کرنی چاہیے، تاکہ وہ بجلی کے متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری کر سکیں۔
پاکستان کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لیے حکومتی عزم، نجی شعبے کی شراکت، اور بین الاقوامی معاونت کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات سے نہ صرف ملک میں انٹرنیٹ کی سہولیات بہتر ہوں گی بلکہ معیشت اور تعلیم کے شعبے میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی